باباجی
محفلین
ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری
کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری
بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری
میری تربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میر ی
میں نے آغوشِ تصور میں بھی کھینچا تو کہا
پس گئی پس گئی بے درد نزاکت میری
آئینہ صبحِ شبِ وصل جو دیکھا تو کہا
دیکھ ظالم! یہ تھی کیا شام کو صورت میری
یار پہلو میں ہے تنہائی ہے کہہ دو نکلے
آج کیوں دل میں چھپی بیٹھی ہے حسرت میری
حسن اور عشق ہم آغوش نظر آجاتے
تیری تصویر میں کھنچ جاتی جو حیرت میری
کس ڈھٹائی سے وہ دل چھین کے کہتے ہیں امیر
وہ مرا گھر ہے رہے جس میں محبت میری
(امیر مینائی)
کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری
بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری
میری تربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میر ی
میں نے آغوشِ تصور میں بھی کھینچا تو کہا
پس گئی پس گئی بے درد نزاکت میری
آئینہ صبحِ شبِ وصل جو دیکھا تو کہا
دیکھ ظالم! یہ تھی کیا شام کو صورت میری
یار پہلو میں ہے تنہائی ہے کہہ دو نکلے
آج کیوں دل میں چھپی بیٹھی ہے حسرت میری
حسن اور عشق ہم آغوش نظر آجاتے
تیری تصویر میں کھنچ جاتی جو حیرت میری
کس ڈھٹائی سے وہ دل چھین کے کہتے ہیں امیر
وہ مرا گھر ہے رہے جس میں محبت میری
(امیر مینائی)
آخری تدوین: