عاطف بٹ
محفلین
آج سے سو سال پہلے میرزا غالب نے تاریخ کے جس دوراہے پر اس دنیا کو خیرباد کہا اس پر برِصغیر اپنی پستی کی تہ کو چُھو کر اوپر ابھرنے کی آرزو کرنے لگا تھا۔ اس افق پر ان کی شخصیت اس روشنی کی طرح تھی جو طلوعِ مہر سے پہلے آسمان پر پھیل جاتی ہے۔ جاتے وقت وہ اردو نثر اور نظم کو اس نقطے پر چھوڑ گئے جہاں تقلید کے دروازے بند اور اجتہاد کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔
اردو کے کسی شاعر نے ’کیوں‘ اور ’کیا‘ کا اتنا استعمال نہیں کیا، جتنا غالب نے۔ وہ حیرت و استعجاب سے اس کائنات کے اسرار پر غور کرتے تھے اور زیرِ لب یہ بھی پوچھتے تھے کہ ان کے معاشرے کے در و دیوار کیوں گِر پڑے۔ ان میں سے جو سوال ابدی ہیں، ان کا جواب کسے معلوم۔ لیکن جن سوالوں کا تعلق معاشرے کی تخریب و تعمیر سے ہے، آنے والی نسلوں نے انہیں دُہرایا اور ان کے جواب اپنے طریقے سے تلاش کیے۔
اردو کے کسی شاعر نے ’کیوں‘ اور ’کیا‘ کا اتنا استعمال نہیں کیا، جتنا غالب نے۔ وہ حیرت و استعجاب سے اس کائنات کے اسرار پر غور کرتے تھے اور زیرِ لب یہ بھی پوچھتے تھے کہ ان کے معاشرے کے در و دیوار کیوں گِر پڑے۔ ان میں سے جو سوال ابدی ہیں، ان کا جواب کسے معلوم۔ لیکن جن سوالوں کا تعلق معاشرے کی تخریب و تعمیر سے ہے، آنے والی نسلوں نے انہیں دُہرایا اور ان کے جواب اپنے طریقے سے تلاش کیے۔
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
(’غالب کے کلام کا مطالعہ‘ از اختر حسین رائے پوری سے اقتباس)وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
آخری تدوین: