کوئی بتائے ! کب بدلے گی اپنا یہ معمول ہوا
جلتے دیپ بجھانے میں ہے صدیوں سے مشغول ہوا
حبس کا موسم، گھور اندھیرا ، بستی بستی سناٹا
جوت سے ہیں محروم دیے اور منصب سے معزول ہوا
اس کے استقبال کے خاطر میں نے دیپ جلایا ہے
شب کی ظلمت سے گھبرا کر راہ نہ جائے بھول ہوا
اب کے برس تو موسمِ گل میں مجھ سے سب ہی برہم ہیں
بجلی ، بادل ، شعلہ ، شبنم ، سبزہ ، کانٹے ، پھول ، ہوا
گلشن گلشن کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں
فیصلہ اب یہ کون کرے ہے، قاتل یا مقتول ہوا
کیسے چہرے کِھل اُٹھتے ہیں ہلکے سے اک جھونکے سے
حبس کے موسم میں ہوتی ہے کس درجہ مقبول ہوا
کتنے ادب سے چلتی ہے اُس جانِ صبا کے کوچے میں
میری گلی میں آ جاتی ہے روز اُڑانے دھول ہوا
کچّے پکّے پھل شاخوں سے گر جاتے ہیں آندھی میں
طیش میں آ کر جب پیڑوں سے لیتی ہے محصول ہوا
کہہ دو اعجازؔ اپنے بھی اعصاب چٹانوں جیسے ہیں
موجِ تلاطم کو شہہ دے کر ، کھینچ رہی ہے طول ہوا
(اعجاز رحمانی)