ناصر کاظمی ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی - ناصر کاظمی

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی
تیرے کرم سے اے عالمِ حُسنِ آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی
جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
آنکھوں میں ڈھل گئی تیری صورت کبھی کبھی
تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ بھی یہ قیامت کبھی کبھی
کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا
یوں بھی گزر گئی شبِ فرقت کبھی کبھی
اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
 
میں نے ناصر کاظمی کا ٹیگ لگایا تو تھا
میں فورم میں نیا ہوں اس لئے یہاں پوسٹنگ میں تھوڑا تذبذب کا شکار ہو گیا
 

الف عین

لائبریرین
قاعدہ یہ ہے کہ عنوان میں ہی شاعر کا نام دے دیں۔ ویسے م یرا بھی خیال تھا کہ ناصر کی ہی ہے لیکن اس سے پہلے کہ کنفرم کروں، یہ پیغام بھی آ گیا۔
 

فاتح

لائبریرین
"برگِ نے" سے خوبصورت انتخاب ہے۔ بہت شکریہ!
اس غزل کے مقطع کے مصرع اولیٰ میں عموماً ایک غلطی کی جاتی ہے کہ اس میں "ترکِ تعلق" پڑھا جاتا ہے لیکن آپ نے درست لکھا ہے۔
 

نظام الدین

محفلین
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی
تیرے کرم سے اے عالمِ حسن آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی
جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
آنکھوں میں ڈھل گئی تیری صورت کبھی کبھی
تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ بھی یہ قیامت کبھی کبھی
کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا
یوں بھی گزر گئی شبِ فرقت کبھی کبھی
اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
(ناصر کاظمی)​
 
Top