سید رافع
محفلین
مختلف طبیب خصوصا ڈاکٹر محمد عقیل سیفی جو ہومیوپیتھک کے ماہر طبیب ہیں، ان کے کچھ کامیاب کیسیز دلچسپی کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ امید ہے قارئین کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔
السلام علیکم ۔
کیس تھوڑا لمبا ہے۔ لیکن جو پورا پڑھے گا اسے ہی سمجھ آئے گی۔
ایک مریضہ عمر 45 سال۔
20 سال کی عمر میں شادی ہوئی ۔
اور سہاگ رات کو ہی مرگی کا دورہ پڑ گیا۔
شوہر مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور مریضہ کو اچانک سے دورہ پڑ گیا۔
پیشاب نکل گیا اور زبان پر بھی زخم ہوئے۔
ہوش آنے پر مریضہ نے بتایا کہ دو سال پہلے مجھے بخار چڑھ گیا تھا جس کے علاج کے لئے محلے میں ہی ایک ڈاکٹر صاحب سے دوا لی۔ بخار تو اتر گیا لیکن سر درد رہنے لگا جس کا علاج انہی ڈاکٹر صاحب سے جاری رکھا لیکن درد نہیں گیا۔
پھر جب اس نے سر درد کو دور کرنے کے لئے کیپسول دئے تو درد تو کم نہ ہوا لیکن چکر آنے شروع ہو گئے۔ اسکے بعد مجھے کب مرگی پڑ جاتی کچھ سمجھ نہ آتا ۔
بعد میں بخار چڑھا تو کافی دیر مرگی نہ پڑی۔
لیکن جیسے ہی اسی ڈاکٹر سے دوا لی پھر بخار اتر گیا اور مرگی شروع ہو گئ۔
تب سے علاج کروا رہی ہوں۔
بہت سارے ہسپتالوں کے نام بھی بتا دئے اس نے۔
میرے ایک مرگی سے ٹھیک ہوئے مریض نے انہیں میرے پاس بھیجا۔
مریضہ کا شوہر یہ سب سٹوری بتا رہا تھا جبکہ اسکی بیٹی کسی ہسپتال میں نرس ہے۔
تو وہ ہومیوپیتھی کو فراڈ سمجھتے ہیں۔
ان کی بیٹی کہتی ہے کہ اتنے بڑے بڑے ڈاکٹرز سے تو آرام نہیں آیا تو اس چھوٹے سے ڈاکٹر سے کیا آرام ملے گا۔
مریضہ بولی کہ بیٹا مجھے ٹھیک کر دو اور سب کو غلط ثابت کر دو۔
اس وقت مریضہ کو ٹائیفائڈ تھا اور ،ایپی وال گولی کھانے سے کچھ بہتر تھیں۔
یعنی مرگی کا دورہ بہت ہی کم ہوتا تھا۔
ٹھنڈ بہت زیادہ لگتی تھی۔
مریضہ دورہ پڑنے کے بعد بالکل ٹوٹ جاتی تھی جیسے کسی نے پیٹا ہو۔
اور لیٹی رہتی تھی بالکل بھی کام نہیں کر سکتی تھی۔
میں نے پوچھا کہ اگر ہومیوپیتھی اتنی بری ہے تو میرے پاس کیوں آئے آپ لوگ۔
تو مریضہ نے بتایا کہ کیونکہ جب بھی دورہ ہونے والا ہوتا ہے تو مجھے بہت زیادہ پریشانی سی ہو جاتی ہے جو کہ میرے چہرے سے خوب نظر آتی ہے۔ اور میں ڈر جاتی ہوں۔
میں ٹھیک ہونا چاہتی ہوں۔
سنا ہے کہ جو بھی آپکے پاس آتا ہے وہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔
میں نے فوراً کہا کہ ایسا نہیں ہے کوئی کوئی ٹھیک ہوتا ہے اور کوئ نہیں بھی ہوتا۔
آپ کو دورہ کب ہوتا ہے؟
یہ تو کبھی بھی ہو جاتا ہے لیکن باہر رہنے پر میں سکون میں رہتی ہوں لیکن کمرے میں مجھے پریشانی سی ہوتی ہے دل چاہتا ہے باہر چلی جاؤں ۔
آپ کو پیاس کتنی لگتی ہے۔
بہت زیادہ۔
قبض بھی بہت رہتی ہے۔
نیند بھی نہیں آتی اکثر رات کو جاگتی رہتی ہوں کہ کہیں دورہ نہ پڑ جائے بس اسی بات سے پریشان رہتی ہوں۔
مریضہ کو آلو بہت پسند ہیں۔
مریضہ بار بار ایک بات کہتی رہی کہ میری یادداشت بہت کمزور ہے جبکہ سالوں پرانی باتیں بھی آسانی سے بتا دیتی ہے۔
تجزیہ کیس۔
مریضہ کو
1۔ مرگی کے دورے کا ڈر ہے۔
2۔ مرگی کے دورے کا ذرا سا احساس اسے تشویش میں ڈال دیتا ہے۔
3۔ کمرے سے باہر نکل کر اسے تشویش میں کمی ہوتی ہے یا تشویش ختم ہو جاتی ہے۔
4۔ مریضہ کبھی کہتی ہے کہ مجھے ٹھیک کرو اور کبھی پھر سے مجھے ابھارنے لگتی ہے جیسے سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے۔
یعنی کبھی تو وہ حوصلہ رکھتی ہے اور کبھی بے حوصلگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
*علاج*
اسے *ایلومینا* 30 کی ایک ڈوز دی۔
*فالو اپ*
مریضہ نے جب کلینک میں بیٹھے ہی دوا لی تو دس منٹ بعد اس نے بتایا کہ اسے کچھ ہو رہا ہے۔
پوچھنے پر اس نے بتایا کہ سردی بہت لگ رہی تھی وہ اب تو نہیں ہے لیکن اندر بھی جیسے کوئی چیز مجھے سکون سا دے رہی ہے نیند سی آ رہی ہے۔
مریضہ کو روز مرہ کی دوا دے کر سونے کے لئے اپنے گھر پر ہی بھیج دیا۔
مریضہ خوب جی بھی کر دو گھنٹے تک سوئی اور جب اٹھ کر واپس کلینک آئی تو کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔
اگلے فالو اپ میں مریضہ نے بتایا کہ مجھے بخار تو نہیں ہؤا لیکن مرگی کا دورہ پڑا تھا۔
لیکن جلد ہی کافی پسینہ آیا اور میں بہتر ہو گئ۔ بعد میں بہت کام کیا میں نے۔ ورنہ پہلے ہمت نہیں رہتی تھی کام کرنے کی۔
اگلے فالو اپ پر مریضہ اپنے شوہر کو ساتھ لے کر آئی جسے شدید خارش تھی۔
رہسٹاکس کی ایک خوراک سے ہی ٹھیک ہو گیا۔
مریضہ کو بھی بہت بہتر لگتا ہے اب مریضہ بالکل ٹھیک ہے۔
دوا بند کرنے کے بعد ہر مہینے نارمل چیک اپ کا کہا گیا جس کے لئے صرف چیکنگ فیس ہی لی گئ۔
چھ مہینے کے بعد انہیں چھٹی دے دی گئ۔
ہومیو پیتھک ڈاکٹر شکیل
السلام علیکم ۔
کیس تھوڑا لمبا ہے۔ لیکن جو پورا پڑھے گا اسے ہی سمجھ آئے گی۔
ایک مریضہ عمر 45 سال۔
20 سال کی عمر میں شادی ہوئی ۔
اور سہاگ رات کو ہی مرگی کا دورہ پڑ گیا۔
شوہر مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور مریضہ کو اچانک سے دورہ پڑ گیا۔
پیشاب نکل گیا اور زبان پر بھی زخم ہوئے۔
ہوش آنے پر مریضہ نے بتایا کہ دو سال پہلے مجھے بخار چڑھ گیا تھا جس کے علاج کے لئے محلے میں ہی ایک ڈاکٹر صاحب سے دوا لی۔ بخار تو اتر گیا لیکن سر درد رہنے لگا جس کا علاج انہی ڈاکٹر صاحب سے جاری رکھا لیکن درد نہیں گیا۔
پھر جب اس نے سر درد کو دور کرنے کے لئے کیپسول دئے تو درد تو کم نہ ہوا لیکن چکر آنے شروع ہو گئے۔ اسکے بعد مجھے کب مرگی پڑ جاتی کچھ سمجھ نہ آتا ۔
بعد میں بخار چڑھا تو کافی دیر مرگی نہ پڑی۔
لیکن جیسے ہی اسی ڈاکٹر سے دوا لی پھر بخار اتر گیا اور مرگی شروع ہو گئ۔
تب سے علاج کروا رہی ہوں۔
بہت سارے ہسپتالوں کے نام بھی بتا دئے اس نے۔
میرے ایک مرگی سے ٹھیک ہوئے مریض نے انہیں میرے پاس بھیجا۔
مریضہ کا شوہر یہ سب سٹوری بتا رہا تھا جبکہ اسکی بیٹی کسی ہسپتال میں نرس ہے۔
تو وہ ہومیوپیتھی کو فراڈ سمجھتے ہیں۔
ان کی بیٹی کہتی ہے کہ اتنے بڑے بڑے ڈاکٹرز سے تو آرام نہیں آیا تو اس چھوٹے سے ڈاکٹر سے کیا آرام ملے گا۔
مریضہ بولی کہ بیٹا مجھے ٹھیک کر دو اور سب کو غلط ثابت کر دو۔
اس وقت مریضہ کو ٹائیفائڈ تھا اور ،ایپی وال گولی کھانے سے کچھ بہتر تھیں۔
یعنی مرگی کا دورہ بہت ہی کم ہوتا تھا۔
ٹھنڈ بہت زیادہ لگتی تھی۔
مریضہ دورہ پڑنے کے بعد بالکل ٹوٹ جاتی تھی جیسے کسی نے پیٹا ہو۔
اور لیٹی رہتی تھی بالکل بھی کام نہیں کر سکتی تھی۔
میں نے پوچھا کہ اگر ہومیوپیتھی اتنی بری ہے تو میرے پاس کیوں آئے آپ لوگ۔
تو مریضہ نے بتایا کہ کیونکہ جب بھی دورہ ہونے والا ہوتا ہے تو مجھے بہت زیادہ پریشانی سی ہو جاتی ہے جو کہ میرے چہرے سے خوب نظر آتی ہے۔ اور میں ڈر جاتی ہوں۔
میں ٹھیک ہونا چاہتی ہوں۔
سنا ہے کہ جو بھی آپکے پاس آتا ہے وہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔
میں نے فوراً کہا کہ ایسا نہیں ہے کوئی کوئی ٹھیک ہوتا ہے اور کوئ نہیں بھی ہوتا۔
آپ کو دورہ کب ہوتا ہے؟
یہ تو کبھی بھی ہو جاتا ہے لیکن باہر رہنے پر میں سکون میں رہتی ہوں لیکن کمرے میں مجھے پریشانی سی ہوتی ہے دل چاہتا ہے باہر چلی جاؤں ۔
آپ کو پیاس کتنی لگتی ہے۔
بہت زیادہ۔
قبض بھی بہت رہتی ہے۔
نیند بھی نہیں آتی اکثر رات کو جاگتی رہتی ہوں کہ کہیں دورہ نہ پڑ جائے بس اسی بات سے پریشان رہتی ہوں۔
مریضہ کو آلو بہت پسند ہیں۔
مریضہ بار بار ایک بات کہتی رہی کہ میری یادداشت بہت کمزور ہے جبکہ سالوں پرانی باتیں بھی آسانی سے بتا دیتی ہے۔
تجزیہ کیس۔
مریضہ کو
1۔ مرگی کے دورے کا ڈر ہے۔
2۔ مرگی کے دورے کا ذرا سا احساس اسے تشویش میں ڈال دیتا ہے۔
3۔ کمرے سے باہر نکل کر اسے تشویش میں کمی ہوتی ہے یا تشویش ختم ہو جاتی ہے۔
4۔ مریضہ کبھی کہتی ہے کہ مجھے ٹھیک کرو اور کبھی پھر سے مجھے ابھارنے لگتی ہے جیسے سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے۔
یعنی کبھی تو وہ حوصلہ رکھتی ہے اور کبھی بے حوصلگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
*علاج*
اسے *ایلومینا* 30 کی ایک ڈوز دی۔
*فالو اپ*
مریضہ نے جب کلینک میں بیٹھے ہی دوا لی تو دس منٹ بعد اس نے بتایا کہ اسے کچھ ہو رہا ہے۔
پوچھنے پر اس نے بتایا کہ سردی بہت لگ رہی تھی وہ اب تو نہیں ہے لیکن اندر بھی جیسے کوئی چیز مجھے سکون سا دے رہی ہے نیند سی آ رہی ہے۔
مریضہ کو روز مرہ کی دوا دے کر سونے کے لئے اپنے گھر پر ہی بھیج دیا۔
مریضہ خوب جی بھی کر دو گھنٹے تک سوئی اور جب اٹھ کر واپس کلینک آئی تو کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔
اگلے فالو اپ میں مریضہ نے بتایا کہ مجھے بخار تو نہیں ہؤا لیکن مرگی کا دورہ پڑا تھا۔
لیکن جلد ہی کافی پسینہ آیا اور میں بہتر ہو گئ۔ بعد میں بہت کام کیا میں نے۔ ورنہ پہلے ہمت نہیں رہتی تھی کام کرنے کی۔
اگلے فالو اپ پر مریضہ اپنے شوہر کو ساتھ لے کر آئی جسے شدید خارش تھی۔
رہسٹاکس کی ایک خوراک سے ہی ٹھیک ہو گیا۔
مریضہ کو بھی بہت بہتر لگتا ہے اب مریضہ بالکل ٹھیک ہے۔
دوا بند کرنے کے بعد ہر مہینے نارمل چیک اپ کا کہا گیا جس کے لئے صرف چیکنگ فیس ہی لی گئ۔
چھ مہینے کے بعد انہیں چھٹی دے دی گئ۔
ہومیو پیتھک ڈاکٹر شکیل