جون ایلیا ہونے کا دھوکا ہی تھا

انتہا

محفلین
ہونے کا دھوکا ہی تھا
جو کچھ تھا وہ تھا ہی تھا
اب میں شاید تہہ میں ہوں
پر وہ کیا دریا ہی تھا
بُود مری ایسی بِکھری
بس میں نے سوچا ہی تھا
بھُولنے بیٹھا تھا میں اُسے
چاند ابھی نِکلا ہی تھا
ہم کو صنم نے خوار کیا
ورنہ خدا اچھا ہی تھا
کیسا ازل اور کیسا ابد
جس دَم تھا لمحہ ہی تھا
 

انتہا

محفلین
اپنا اپنا ذوق نظر ہے فرخ بھائی
جون ایلیا کی سنجیدہ شاعری بھی مزاحیہ شاعری کا درجہ رکھتی ہے۔ کیا مزاحیہ غزل ہے۔ :)
میرے خیال سے اس جملے کو اس طرح ہونا چاہیے کہ
” جون ایلیا کی سنجیدہ شاعری کبھی کبھی مزاحیہ شاعری کا مزہ دیتی ہے۔“
 

فرخ منظور

لائبریرین
اپنا اپنا ذوق نظر ہے فرخ بھائی

میرے خیال سے اس جملے کو اس طرح ہونا چاہیے کہ
” جون ایلیا کی سنجیدہ شاعری کبھی کبھی مزاحیہ شاعری کا مزہ دیتی ہے۔“
جی درست فرمایا۔ اسی لیے میں نے اپنا خیال ظاہر کیا کیونکہ مجھے تو جون ایلیا کی تمام شاعری ہی مزاحیہ شاعری لگتی ہے۔ سوائے کوئی ایک آدھی غزل ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
وہ ایک آدھی غزل پیش بھی تو کریں۔

اب بالکل یاد نہیں آ رہا کہ وہ کون سی غزل تھی۔ جو ایک دو غزلیں پسند تھیں وہ القلم فورم پر پوسٹ کی تھیں مگر افسوس وہ فورم ہی ختم ہو گیا۔ ڈھونڈوں گا اگر مل گئی تو پوسٹ کر دوں گا۔ مع آپ کے نام کے ٹیگ
 

انتہا

محفلین
اب بالکل یاد نہیں آ رہا کہ وہ کون سی غزل تھی۔ جو ایک دو غزلیں پسند تھیں وہ القلم فورم پر پوسٹ کی تھیں مگر افسوس وہ فورم ہی ختم ہو گیا۔ ڈھونڈوں گا اگر مل گئی تو پوسٹ کر دوں گا۔ مع آپ کے نام کے ٹیگ
منتظر ہوں جناب!
 

اکمل زیدی

محفلین
فرخ منظور صاحب ان ایک آدھ میں اک یہ تو نہیں ۔ ۔ ۔ ؟

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی

ثابت ہُوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی

ترکِ تعلقات تو کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی

دیوار جانتا تھا جسے میں، وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی

میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی

اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی !!

ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں
آخرمیرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی

اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ منظور صاحب ان ایک آدھ میں اک یہ تو نہیں ۔ ۔ ۔ ؟

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی

ثابت ہُوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی

ترکِ تعلقات تو کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی

دیوار جانتا تھا جسے میں، وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی

میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی


اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی !!

ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں
آخرمیرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی


اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی۔

جی نہیں۔ ان میں سے کوئی بھی نہیں۔ دراصل اس غزل میں جون کا روایتی انداز نہیں جھلکتا تھا ۔ کلاسیکی روایت سے جڑی تھی۔ اسی لیے شاید مجھے بہت پسند آئی تھی۔ افسوس بالکل ذہن سے محو ہو گئی۔ بہرحال میں اب خاص طور پر دوبارہ ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔
 

شیزان

لائبریرین
جون ایلیا جیسے شاعر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ بےساختگی اور برجستگی تو ان پر جیسے ختم ہے

کس سے اظہار ِ مدعا کیجئے
آپ ملتے نہیں ہیں، کیا کیجئے
-
ہو نہ پایا یہ فیصلہ اب تک

آپ کیجئے تو کیا کیا کیجئے
-
آپ تھے جس کے چارہ گر، وہ جواں
سخت بیمار ہے ، دُعا کیجئے
-
ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے
جس سے ملئے، اُسے خفا کیجئے
-
زندگی کا عجب معاملہ ہے
ایک لمحے میں فیصلہ کیجئے
-
مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجئے
-
ملتے رہیئے اسی تپاک کے ساتھ
بے وفائی کی انتہا کیجئے
-
مجھ سے کہتی تھیں وہ شراب آنکھیں
آپ یہ زہر مت پیا کیجئے
-
ہے تقاضا مری طبعیت کا
ہر کسی کو چراع پا کیجئے
-
رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب
خون تھوکوں تو واہ واہ کیجئے
-
آج ہم کیا گلہ کریں اس سے
گلہء تنگئ قبا کیجئے
-
جون ایلیا
 

طارق شاہ

محفلین
کِس سے اِظہار ِ مُدَّعا کیجے
آپ ملِتے نہیں ہیں، کیا کیجے

ہو نہ پایا یہ فیصلہ اب تک
اب کِیا کیجئے تو کیا کیجے

آپ تھے جس کے چارہ گر، وہ جواں
سخت بیمار ہے ، دُعا کیجے

ایک ہی فن تو ہم نے سِیکھا ہے
جس سے ملیے، اُسے خفا کیجے

ہے تو بارے ہی عالَمِ اسباب
بے سبب چیخنے لگا کیجے

آج ہم کیا گِلہ کریں اُس سے؟
گلۂ تنگیِ قبا کیجے

نُطقِ حیوان پر گِراں ہے ابھی
گفتگو کم سے کم کِیا کیجے

حضرتِ زُلفِ غالیہ افشاں!
نام اپنا صبا صبا کیجے

زندگی کا مُعاملہ ہے عجب !
ایک لمحے میں فیصلہ کیجے

مجھ کو عادت ہے رُوٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لِیا کیجے

ملِتے رہیئے اِسی تپاک کے ساتھ
بے وفائی کی اِنتہا کیجے

کوہکن کی ہے خُود کُشی خواہش
شاہ بانو سے اِلتجا کیجے

مجھ سے کہتی تھیں وہ شراب آنکھیں
آپ یہ زہر مت پیا کیجے

ہے تقاضا مِری طبِعیت کا
ہر کسی کو چراغ پا کیجے

رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب !
خون تُھوکوں تو واہ واہ کیجے


جون ایلیا

:) :)
 
آخری تدوین:
Top