کاشفی
محفلین
غزل
(ضامن جعفری)
ہوچکا جو وہ دوبارا نہیں ہونے دوں گا
میں سرِ راہ تماشا نہیں ہونے دوں گا
گوشہِ چشم میں رہ پائے تو بیشک رہ لے
قطرہِ اشک کو دریا نہیں ہونے دوں گا
یہ کوئی بات ہے جب چاہے نکالے مجھ کو
بزم کو عالمِ بالا نہیں ہونے دوں گا
دل کو سمجھاؤں گا جیسے بھی ہو ممکن لیکن
اب میں اظہارِ تمنّا نہیں ہونے دوں گا
لوگ کہتے ہیں کہ درد اُٹھ کے بتا دیتا ہے
اب تو میں یہ بھی اشارا نہیں ہونے دوں گا
اے مرے ظرف و اَنا اِتنے پریشاں کیوں ہو
کہہ چکا ہُوں تمہیں رُسوا نہیں ہونے دوں گا
مر بھی جاتی ہے اگر دنیا تو خود کو ضاؔمن
(ضامن جعفری)
ہوچکا جو وہ دوبارا نہیں ہونے دوں گا
میں سرِ راہ تماشا نہیں ہونے دوں گا
گوشہِ چشم میں رہ پائے تو بیشک رہ لے
قطرہِ اشک کو دریا نہیں ہونے دوں گا
یہ کوئی بات ہے جب چاہے نکالے مجھ کو
بزم کو عالمِ بالا نہیں ہونے دوں گا
دل کو سمجھاؤں گا جیسے بھی ہو ممکن لیکن
اب میں اظہارِ تمنّا نہیں ہونے دوں گا
لوگ کہتے ہیں کہ درد اُٹھ کے بتا دیتا ہے
اب تو میں یہ بھی اشارا نہیں ہونے دوں گا
اے مرے ظرف و اَنا اِتنے پریشاں کیوں ہو
کہہ چکا ہُوں تمہیں رُسوا نہیں ہونے دوں گا
مر بھی جاتی ہے اگر دنیا تو خود کو ضاؔمن
جیسی یہ خود ہے میں ایسا نہیں ہونے دوں گا