قیصرانی
لائبریرین
ملایا کے جنگلوں میں
یہ ذکر ہے ملایا کے شمال مشرقی جنگلوں کا۔ اُس زمانے میں بصیغۂ ملازمت میں ریاست ترنگا میں تعینات تھا۔۔۔ موجودہ تہذیب و تمدّن اور جدید ترین آسائشوں سے ناآشنا اِس ریاست میں زمانۂ قدیم کی رسمیں اور رواج رائج تھے، باشندے اگرچہ مسلمان تھے۔ اکثر قرآن کے حافظ اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، تاہم ان میں بھی توہم پرستی زوروں پر تھی اور خصوصاً ربڑ کے جنگلوں میں کام کرنے والے مزدوروں میں توہمات کا مرض اِس قدر شدید تھا کہ خدا کی پناہ۔ ہر شخص نیک و بدشگون پر یقین رکھتا اور بدرُوحوں کا مرض اسِ قدر شدید تھا کہ خدا کی پناہ۔ ہر شخص نیک و بدشگون پر یقین رکھتا اور بدرُوحوں اور بھوتوں کے قِصے سبھی کی نوکِ زبان رہتے۔ درندوں کی یہاں بڑی کثرت تھی جن میں شیر اور چیتے قابلِ ذکر ہیں۔ ملایا کے جنگلوں میں پَلنے والے شیروں کے بارے میں مَیں نے سن رکھا تھا کہ پیدائشی آدم خور ہوتے ہیں۔ مجھے اِس سے پیشتر ریاست جہور میں ایک آدم خور کا سامنا کرنا پڑا تھا جسے مَیں نے نہایت صبرآزما اور کٹھن حالات کے باوجود موت کے گھاٹ اُتارا۔ آدم خوروں کی نفسیات اور عادتیں جاننے بُوجھنے کے لیے ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ میری مصروفیات کچھ اس نوعیت کی تھیں کہ دن رات کا بیشتر حِصّہ جنگل میں گزرتا تھا، اِس لیے بہت جلد جنگل کی زندگی اور یہاں کے قانون سے آگاہ ہو گیا، تاہم اکیلے دُکیلے کِسی خطرناک جگہ جاتے ہوئے اب بھی ڈر لگتا تھا۔
مَیں نے اپنے تین سالہ قیام کے دَوران مقامی باشندوں سے بھی خاصا ربط و ضبط بڑھا لیا تھا اور ان کی زبان بھی نہ صرف بخوبی سمجھنے لگا، بلکہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بھی بیان کرنے پر قادر ہو گیا۔ ملایا کے شہروں میں رہنے والے لوگوں کے برعکس جو جدید مغربی تہذیب و تمدّن کی آغوش میں آہستہ آہستہ گرتے جا رہے ہیں، دیہاتوں اور جنگلوں میں رہنے والے اپنی قدیم صفات اور اعلیٰ خوبیاں اب تک برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ توہمّات سے قطع نظر ان لوگوں میں سچائی، بہادری، محنت جفاکشی اور مہمان نوازی کی گزشتہ روایتیں اپنی اصل حیثیت میں ملتی ہیں۔ ہر شخص اپنے دین کے احکام پر چلنا فرض سمجھتا ہے اور رسولؐ سے محبت اس کا جزو ایمان ہے۔ دھوکا، فریب، عیّاری اور دھونس دھاندلی سے قطعاً ناآشنا یہ لوگ ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں صدیوں سے کوئی تغیّر و تبدل نہیں ہوا۔ جو کام باپ دادا کے وقتوں سے ہوتا چلا آیا ہے، اس میں ترمیم وتنسیخ کرنے کا اختیار کسی کو نہیں۔
ریاست جہور میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد اچانک مجھے کیجال کے علاقے میں ربڑ کے جنگلوں کی نگرانی اور مزدوروں سے کام لینے کے ‘عہدۂ جلیلہ، پر ایک برطانوی ٹھیکیدار کمپنی کی جانب سے مقرر کیا گیا تھا۔ کیجال میں ربڑ کے انتہائی وسیع و عریض گھنے جنگل، دلدلی میدان اور نہایت خطرناک گھاٹیاں تھیں۔ کہیں کہیں ان جنگلوں میں سَو دو سو افراد پر مشتمل ننّھی سی آبادی کے آثار نظر آ جاتے، ورنہ ہر جگہ درندوں کی حکومت تھی۔ ندیاں نالے بکثرت تھے جو برسات کے موسم میں خوب چڑھ جاتے۔ ان کا پانی اردگرد کی بستیوں میں نہ صرف تباہی مچاتا، بلکہ درندوں کو بھی ان کی کمین گاہوں سے دھکیل کر بستیوں کی طرف بھیج دیتا۔ درندوں کے علاوہ دوسری بڑی مصیبت اَن گنَت سانپ، بچّھو، کن کھجورے اور اسی قسم کے حشرات الارض تھے جو چیونٹیوں کی طرح راستوں، پگڈنڈیوں اور پُؒلوں پر رینگتے نظر آتے تھے۔ لوگ مویشیوں کو پالنے کے بڑے شائق تھے۔ کیونکہ اِنہی کے دُودھ اور گوشت پر اُن کا گزآ رہ ہوتا تھا، لیکن بڑی مصیبت یہ تھی کہ درندے دن دہاڑے یا رات کی تاریکی میں بستیوں میں گُھس آتے اور مویشیوں کو پکڑ کر لے جاتے۔ یہاں بندوق ٹاواں ٹاواں کسی کے پاس تھی اور وہ پرانی جِسے مَزّل لُوڈنگ کہتے ہیں اور جس میں نالی کی طرف سے بارود بھر کر فائر کیا جاتا ہے۔ یہ بندوق نہایت خطرناک ہوتی ہے اگر چلانے والا احتیاط سے کام نہ لے، تو اُسی کو زخمی یا ہلاک کر ڈالتی ہے۔
اِس طویل تمہید کے بعد مَیں اپنے قِصے کی طرف آتا ہوں:
جُڑواں آدم خور ابتدا میں مویشی اٹھا لے جانے کی عادتِ بد میں مبتلا تھے۔ وہ دونوں آپس میں حقیقی بہنیں تھیں اور اُن کا باپ کیجال کے جنگلوں میں رہنے والا سب سے بڑا اور انتہائی خونخوار شیر تھا۔ اس کی قوت کا یہ عالم تھا کہ کئی من وزنی بھینس کو پنجے کی ایک ہی ضرب سے ہلاک کر ڈالتا اور پھر اُسے دانتوں کی مدد سے گھسیٹ کرمیلوں دُور لے جاتا۔ یہ شیر بھینسوں کا خصوصاً دشمن تھا۔ بعض اوقات وہ دو دو بھینسوں کو ایک ہی رات میں پکڑ کر لے جاتا۔ لوگ اس کی حرکتوں سے سخت نالاں و ترساں تھے، لیکن کچھ بس نہ چلتا تھا۔ خیر تھی کہ ابھی تک اُس نے آدمی کے لہُو اور گوشت کا ذائقہ نہ چکھا تھا، ورنہ قیامت ہی برپا ہو جاتی۔۔۔ اِس شیر کو مَیں نے کس طرح ہلاک کیا، یہ داستان خاصی طویل اور دلچسپ ہے، لیکن اُسے کسی اور موقعے کے لیے اٹھا رکھتا ہوں، اس وقت جڑواں آدم خوروں کی کہانی بیان کروں گا۔
یہ شیر جب مارا گیا، تو لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ ان کے مویشی اَب محفوظ ہو گئے اور لوگ بھی آزادی سے ایک سے دُوسری بستی میں آنے جانے لگے، مگر ایک ماہ بعد مجھے پتہ چلا کہ شیرنی میدان میں آ گئی۔ یہ بات حیرت انگیز تھی، کیونکہ ملایا کی شیرنیاں اِتنی خوں خوار اور مَردم آزار نہیں ہوا کرتی تھیں۔ دراصل قِصّہ یہ تھا کہ اِس شیرنی کو اپنے دو جڑواں معصوم بچوں کی پرورش کے لیے بہرحال گوشت کی ضرورت تھی اور چونکہ وہ جنگلی جانور کا شکار کرنے کے قابل نہ تھی، اس لیے مویشیوں پر ہاتھ صاف کرنا اُسے آسان نظر آیا۔
مَیں ایک دن اس شیرنی کی تلاش میں گھوم رہا تھا کہ ایک جھاڑی کے اندر سے کچھ کھڑبڑ کی آواز آئی۔ مَیں رُک گیا اور غور سے دیکھنے لگا۔ شیرنی تو نظر نہ آئی، مگر بُھورے رنگ کے دو ننّھے ننّھے بچّے ضرور دکھائی دیے جو یہی جڑواں بہنیں تھیں ۔ میری آہٹ پا کر وہ نہ جانے کہاں غائب ہو گئیں۔ اُس کے بعد کئی ماہ تک مَیں انہیں نہ دیکھ سکا اور نہ اس دَوران میں اُن کی کوئی خیر خبر معلوم ہوئی، البتّہ شیرنی نے چار پانچ گائیں بھینسیں اور ایک دو بکریاں ہی ماری تھیں کہ وہ ایک مقامی باشندے کی مَزّل لُوڈنگ بندوق کا نشانہ بن کر زخمی ہو گئی۔ زخمی ہونے کے بعد اُس کے لیے مویشیوں کو ہلاک کرنا بھی ممکن نہ رہا اور پھر اچانک ایک روز وہ جنگل میں اُس جگہ نمودار ہوئی جہاں مزدور ربڑ کے درختوں پر کام کر رہے تھے، اُس کے ساتھ دونوں بچّے بھی تھے جو جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھنے ہی والے تھے۔۔۔ شیرنی نے ایک مزدور کو پکڑ لیا اور گھسیٹ کر جھاڑیوں میں لے گئی۔ پھر انہوں نے دُور کھڑے ہوئے دہشت زدہ مزدوروں کے سامنے ہی لاش کو چیرا پھاڑا اور ہڑپ کرنا شروع کر دیا۔
شیرنی کا آدم خور بن جانا کوئی معمولی حادثہ نہ تھا۔ مزدوروں نے نہ صرف کام پر جانا چھوڑ دیا، بلکہ دہشت اور اور خوف کی لہر جو اُن میں پھیل چکی تھی، اُس نے عجیب افراتفری کا عالم پیدا کر دیا۔ ایک ہفتے بعد شیرنی نے دُوسرا انسانی شکار مارا اور اِس مرتبہ ایک بدنصیب عورت اُس کے ہتھے چڑھی۔ وہ اپنے بچّوں کے لیے قریبی ندّی سے پانی کا گھڑا لا رہی تھی کہ گھاس میں چُھپی ہوئی شیرنی نے اُس کا تعاقب کیا اور بستی میں پہنچنے سے پہلے پہلے ہی عورت پر حملہ کر کے اُسے ہلاک کر دیا۔ عورت کی چیخیں سُن کر کُچھ لوگ نیزے اور تلواریں لے کر دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ شیرنی نے عورت کو چوہے کی مانند مُنہ میں دبا رکھا ہے اور اُس کے ساتھ دو چھوٹے شیر بھی اُچھلتے کودتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ شیرنی تو آدم خور بن ہی چکی، لیکن اُس نے اپنے بچّوں کو بھی ابتدا ہی سے انسانی گوشت اور خُون کی چاٹ ڈال دی تھی اور اگر ان کا صفایا نہ کیا گیا، تو یہ تینوں مَل کر تھوڑے ہی عرصے میں تمام انسانی بستیوں کا صفایا کر ڈالیں گے۔
تیسرے ہفتے شیرنی نے ایک اور شخص کو ہلاک کیا، مگر لاش کو لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُسی لمحے ایک بستی کے سو ڈیڑھ سو آدمی اپنے کندھوں پر جنازہ اٹھائے قبرستان کی طرف جاتے ہوئے جنگل سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے خون میں لَت پَت اُس شخص کو دیکھا، تو رُک گئے۔ وہ مر چکا تھا، چنانچہ اُسے بھی چند لوگوں نے چادروں میں لپیٹا اور ساتھ لے چلے۔ شیرنی اور اُس کے بچّے قریبی جھاڑیوں میں چُھپے ہوئے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ شیرنی نے جب لاش کو ہاتھ سے جاتے دیکھا، تو تڑپ اٹھی اور گرج کر جھاڑیوں سے باہر نکل آئی۔ لوگ اندھا دُھند بھاگ اُٹھے اور انہوں نے جنازہ بھی ایک طرف رکھ دیا اور درختوں پر چڑھ گئے۔ شیرنی دیر تک بے چین اور مضطرب اِدھر اُدھر پھرتی رہی، لیکن لاش کے نزدیک جانے کی جرأت نہ ہوئی۔ آخر ایک طرف کو چلی گئی۔
اگلے روز یہ قِصّہ میرے کانوں میں پہنچا۔ مَیں ںے فوراً چند آدمیوں کو ساتھ لیا اور وہاں پہنچ گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ لاش ابھی تک اُسی حالت میں پڑی تھی اور کَسی جانور نے اُسے چھیڑنے کی جسارت نہ کی تھی۔ یہ ایک بوڑھا اور نہایت عبادت گزار شخص تھا جس کے بارے میں مقامی لوگ کہتے تھے کہ وہ خُدا رسیدہ اور نہایت ولی آدمی ہے۔ اُس کی کئی کرامتیں بھی مشہور تھیں، مگر شیرنی کے سامنے اُس کی کوئی کرامت کام نہ آئی۔ دراصل اس کی موت اِسی بہانے لکّھی تھی۔ مَیں بھی اُسے جانتا تھا اور وہ خُدا رسیدہ تھا یا نہیں، اس کے بارے میں مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن ایک پرہیزگار اور متقی آدمی ضرور تھا۔ مجھے اُس کی لاش اٹھانے کی اِس اندوہناک موت کا صدمہ ہوا۔ بستی والے بھی اُس کا ماتم کر رہے تھے، مگر جنگل جآ کر اُس کی لاش اٹھانے کی جرأت کِسی میں نہ تھی۔ جب مَیں نے دیکھا کہ شیرنی نے اسے ہڑپ نہیں کیا، تو سچّی بات یہ ہے کہ مجھے اُس شخص کے ولی ہونے میں کوئی شبہ نہ رہا، یہ کتنی عجیب بات تھی کہ لاش ساری رات جنگل میں پڑی رہی اور بُھوک سے بے تاب شیرنی اور اُس کے بچّے قریب بھی نہ پھٹک سکیں۔ مَیں نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ لاش کو وہیں پڑا رہنے دیں، مَیں ایک رات اُس کے قریب ہی کسی درخت پر مچان باندھ کر شیرنی کا انتظار کرنا چاہتا ہوں۔
سُورج غروب ہونے سے آدھ گھنٹہ پیشتر مَیں کیل کانٹے سے لیس ہو کر مچان پر پہنچ گیا۔ شمال کی جانب سے آہستہ آہستہ کالی گھٹائیں اُمڈ رہی تھیں اور ہوا کی تیزی اور تُںدی میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا تھا۔ خدشہ تھا کہ اگر ہوا اِسی طرح چلتی رہی، تو مچان کا خدا حافظ ہے۔ میرے ساتھ آنے والے سب لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں کو واپس جا چکے تھے۔ اَب میں تھا اور جنگل کی ہیبت ناک فضا جس میں تین آدم خور گھات لگائے بیٹھے تھے۔ یک لخت گھٹا تیزی سے اُٹھی اوردیکھتے دیکھتے آسمان تاریک ہو گیا۔ پھر بجلی کی کڑک اور بادلوں کی گرج کے ساتھ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ اب مجھے احساس ہوا کہ کِس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ مچان سے اُترنا محال تھا۔ بارش کا پانی ننّھے ننّھے کنکروں کی مانند میرے چہرے پر آن کر لگ رہا تھا اور سردی تھی کہ بڑھتی ہی جاتی تھی۔ میرے سامنے کچھ فاصلے پر بوڑھے کی لاش پڑی پانی میں بھیگ رہی تھی اور مَیں اس حماقت پر ندامت محسوس کر رہا تھا کہ محض اپنے شوق مہم جُوئی کی خاطر ایک مسلمان بزرگ کی میّت کی بے حرمتی کر رہا ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اِسی کی پاداش میں خدا مجھے شیرنی کا تر نوالہ بنا دے۔ یہ خیال آتے ہی میرے جسم کا رُواں رُواں فرطِ خوف سے لرز گیا۔ جسم تو پہلے کانپ رہا تھا، مگر اس بھیانک تصوّر نے میرا دل و دماغ بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اَب مَیں خدا سے اپنے اِس قصور کی دل ہی دل میں معافی مانگنے لگا۔
بارش اور ہوا کا شور۔۔۔ الامان و الحفیظ۔۔۔ ہر طرف گھپ اندھیرا جسے کبھی کبھی بجلی کی چمک دُور کرتی تھی۔ مَیں جس درخت پر مچان کے اوپر خرگوش کی مانند دبکا بیٹھا تھا، وہ کچھ زیادہ اُونچا نہ تھا۔ کپڑے تر ہو چکے تھے اور کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس حالت میں اگر شیرنی نمودار ہو گئی تو مَیں فائر کیسے کر سکوں گا۔ ادھر بارش کی یہ کیفیت کہ نہ رُکنے کی گویا قسم کھا لی تھی۔
ڈیڑھ گھنٹے بعد کُچھ اُمید بندھی کہ یہ قیامت خیز طوفانِ بادوباراں رُک جائے گا۔ موسلادھار بارش آہستہ آہستہ پھوہار میں بدلنے لگی۔ مطلع صاف ہونے لگا اور آسمان پر اَکّا دُکا تارے نمودار ہونے لگے۔ درختوں سے گرتے ہوئے پانی کی آواز کانوں میں اب بھی آ رہی تھی اور مَیں نے مدھم سے روشنی میں دیکھا کہ بارش کا پانی میرے دائیں جانب واقع ایک نشیب میں جمع ہو رہا ہے۔ یکایک یوں محسوس ہوا جیسے کوئی جانور درخت کے عین نیچے حرکت کر رہا ہے۔ مَیں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا، مگر کچھ نظر نہ آیا، لیکن دُوسرے ہی لمحے شیرنی کی گرج سُن کر جنگل کا چپّہ چپّہ بیدار ہو گیا اور میرا دل یک لخت اچھل کر حلق میں آ گیا۔ مَیں نے بدحواس ہو کر طاقت ور برقی ٹارچ روشن کر دی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک قدآور شیرنی کچھ فاصلے پر کھڑی للچائی ہوئی نظروں سے لاش کی طرف گھور رہی ہے۔ ٹارچ روشن ہوتے ہی شیرنی نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر گرجتی ہوئی اسی طرف آئی، لیکن وہ لنگڑا کر چل رہی تھی، غالباً اس کا دایاں پنجہ بے کار ہو چکا تھا۔ میں نے ٹارچ بُجھا دی اور رائفل سے نشانہ لیے بغیر فائر کر دیا۔ شیرنی دھاڑتی ہوئی جھاڑیوں میں جا چُھپی اور دیر تک اُس کے اِدھر اُدھر پھرنے اور غرّانے کی آوازیں آتی رہیں۔ اِس موقعے پر مَیں پڑھنے والے دوستوں کو سچ سچ بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں جِم کاربٹ، کینتھ اینڈرسن، جے۔ اے ہنٹر یا کرنل پیٹرسن کی طرح تجربے کار اور نڈر شکاری ہرگز نہیں ہوں، وہ تو اتفاق کی بات ہے کہ مجھے رائفل سنبھالنی پڑی اور وہ بھی اِس لیے کہ جس علاقے میں میرا کام تھا، وہاں رائفل کے بغیر گزآ رہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ابتدا میں ایک دو شیر مارنے کے بعد مجھے یہ خوش فہمی ہو گئی تھی کہ مَیں اچھا شکاری بن سکتا ہوں، چنانچہ اِس زعم میں آدم خوروں سے بھی دو دو ہاتھ کرنے کی جرأت ہو گئی، لیکن اَب پتہ چلا کہ یہ کام کتنے جان جوکھوں کا ہے اور شکاری کی ذرا سی حماقت اُسے کس طرح آدم خور کے پیٹ کے ایندھن میں تبدیل کر سکتی ہے۔
مَیں جس مچان پر بیٹھا تھا، زمین سے اُس کی اونچائی سات آٹھ فٹ سے زیادہ نہ تھی اور اگر شیرنی کی اگلی دائیں ٹانگ زخمی نہ ہوتی، تو یقیناً اتنی بلندی پر آسانی سے جست کر کے مجھے پکڑ سکتی تھی اور ممکن ہے کہ یہ طوفانِ بادوباراں نازل نہ ہوتا، تو وہ ایسا کر ہی گزرتی، تاہم خدا نے بال بال بچایا۔ مَیں نے شیرنی کو مزید خوفزدہ کرنے کے لیے دو فائر کیے اور یہ ترکیب کارگر ہوئی۔ چند منٹ تک گرجنے اور غرّانے کے بعد وہ دُور چلی گئی اور پھر رفتہ رفتہ اُس کی آواز معدوم ہوتی گئی۔
مجھے یقین تھا کہ اگر مَیں یہیں بیٹھا رہوں، تو صبح سے پہلے کوئی شخص میری خبر لینے نہ آئے گا۔ اور ابھی صبح صبح ہونے میں بڑی دیر تھی۔ شیرنی جا چکی تھی اور خطرہ ٹل گیا تھا، لیکن سیاہ بادل دوبآ رہ جمع ہو رہے تھے۔ مَیں پہلے ہی بارش میں اِس قدر بھیگ چکا تھا کہ جو کچھ مجھ پر نہ گزرتی، کم تھا۔ جوں توں کر کے مچان سے اُترا اور واپس گاؤں کی طرف چلا۔ لوگ ابھی تک جاگ رہے تھے۔ انہوں نے مسلسل فائر کی آوازیں سنی تھیں، لیکن جب پتہ چلا کہ شیرنی ابھی مری نہیں، تو غصّے اور مایوسی سے ان کے چہرے لٹک گئے۔ غصّہ اس بات پر کہ میری وجہ سے پہنچے ہوئے ایک بزرگ کی لاش بے گورو کفن جنگل میں پڑی رہی اور مایوسی یوں کہ شیرنی پھر بچ کر نِکل گئی۔ لوگوں نے اگرچہ مجھے سے کچھ نہ کہا، تاہم ان کی ناراضی کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہ تھا۔
اگلے روز اُن بزرگ کو نہایت عزّت و احترام سے سپردِ خاک کر دیا گیا۔ جنازے میں دور و نزدیک کی سبھی بستیوں کے مرد و زن شریک ہوئے۔ میری حالت چوروں کی سی تھی اور بلاشبہ مجھے اپنے کیے پر انتہائی ندامت اور شرم محسوس ہو رہی تھی، مگر مَیں معذرت کرنے کے سوا کر ہی کیا سکتا تھا۔ پانی میں دیر تک بھیگنے اور سردی لگنے کے باعث مجھے کئی روز تک ہلکا ہلکا بخار بھی رہا، لیکن اس دوران میں بھی میں شیرنی کی کھوج میں برابر لگا رہا۔ آخر معلوم ہوا کہ اُسے اپنے دونوں بچّوں سمیت اِس علاقے کی مشہور کیجال پہاڑی کے جنوبی حِصّے میں گھومتے پھرتے دیکھا گیا ہے۔ کیجال پہاڑی کے بارے میں لوگ عجیب کہانیاں بیان کرتے تھے۔ ایک روایت یہ تھی کہ اِس پہاڑی پر صدیوں سے پہلے کوئی بزرگ آن کر ٹھہرے تھے اور انہوں نے چِلہ کشی کی تھی۔ چِلے کے دوران میں، جس کی مُدّت چالیس روز کی تھی، اِن بزرگ نے کچھ کھایا نہ پیا، لیکن انہیں جسمانی کمزوری یا نقاہت مطلق نہ ہوئی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ جنگل کے تمام جانور اپنے اپنے ٹھکانوں سے نکلے اور پہاڑی کے گرد جمع ہو گئے۔ اُن میں درندے، چرندے اور پرندے سبھی شامل تھے۔ وہ اِن بزرگ کو سلام کرنے آئے تھے، لیکن بزرگ نے آنکھ اُٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے چلے جانے کا حکم دیا، چنانچہ سب جانور خاموشی سے چلے گئے۔ پھر لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ جنگلی درندے اُس پہاڑی کے گِرد ساری ساری رات پہرہ دیتے ہیں۔ بعد میں وہ بزرگ اچانک غائب ہو گئے، لیکن اُن کی برکت کا اثر ابھی تک اُس پہاڑی پر موجود ہے اور اُس کا ثبوت یہ ہے کہ جو شخص بھی اِس پہاڑی کی چوٹی پر پناہ لے، اُسے کوئی درندہ یا دوسرا جانور نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
کیجال پہاڑی کے گردونواح میں تین بستیاں بڑی مشہور اور خوب آباد تھیں۔ ایک کا نام تیلوک پنجور، دوسری کا نام تیلوک کالونگ اور تیسری کو منیکوانگ کہتے تھے۔ ملائی زبان میں ‘تیلوک، کا لفظ بستی یا گاؤں کے لیے اِستعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر باشندے جنگلوں میں درختوں سے ربڑ نکالنے، کٹائی کرنے، گھاس جمع کرنا اور اور اس طرح کے بے شمار کام کاج کیا کرتے تھے۔ نہایت صابر و شآ کر تھے۔ جو کچھ مل جاتا اُسی پر قناعت کرنے والے، فائدہ ہوتا، تو اللہ کا شکر ادا کرتے۔ نقصان ہوتا تو اُسے بھی خدا کی طرف سے کوئی بہتری سمجھ کر بُھول جاتے اور ذرا فکر نہ کرتے۔ جنگلی درندے آئے دن اُن کے مویشی اُٹھا اُٹھا کر لے جاتے، مگر ان لوگوں کو مطلق پروا نہ تھی۔ مَیں نے کئی آدمیوں کی زبانی یہ سُنا کہ یہ درندے بھی خدائی مخلوق ہیں اور انہیں بھی رزق دینا اللہ ہی کا کام ہے، لہٰذا مہینے دو مہینے میں چند مویشی اُن کی خوراک بن جائیں، تو کیا ہرج ہے۔ اِن لوگوں نے ازخود جنگلی درندوں سے چھٹکارا پانے کی بھی کوشش نہیں کی۔ غالباً یہ روایت وہاں تھی ہی نہیں کہ جو تمہیں نقصان پہنچائے، اسے مار ڈالنے یا بھگا دینے کی فکر کرو۔۔۔ بس چپ چاپ ظلم سہنا اُن کی فطرت بن چکی تھی۔
کیجال کی یہ آدم خور شیرنی نہ معلوم کہاں چھُپ گئی۔ بہت عرصے تک اُس کا کوئی پتہ نہ چلا اور اس دوران میں کسی نئی واردات کا قِصّہ بھی نہ سنا گیا۔ بہرحال لوگوں نے سکون کا سانس لیا اور اطمینان سے اپنے روزمرّہ کے دھندوں میں مصروف ہو گئے، لیکن میرے دِل میں جیسے پھانس سی اٹکی ہوئی تھی۔ مَیں جاننا چاہتا تھا کہ آخر شیرنی اور اُس کے دو بچُوں پر کیا بیتی۔ کیجال کے گردونواح میں ایک ایک چپّہ چھان مارا، مگر اُن کا کوئی سراغ نہ ملا، البتہ بعض لوگوں نے یہ اقرار کیا کہ انہوں نے رات کے ہولناک سنّاٹے میں پہاڑی کی طرف سے شیروں کے غرّانے کی آوازیں ضرور سُنی ہیں۔
کیجال پہاڑوں کے چاروں طرف نہایت گھنا اور تاریک جنگل تھا جسے ایک برطانوی کمپنی نے خرید لیا تھا اور چند روز کے اندر اس میں کام شروع ہونے والا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے، مَیں اپنے دوست سے مِلنے پنجور کی طرف گیا جس جگہ مَیں رہتا تھا وہاں سے پنجور کا فاسلہ تقریباً بیس میل تھا اور گھوڑے کے سوا اور کوئی سفر کا ذریعہ نہ تھا۔ صبح کا وقت تھا اور سورج کی سنہری دُھوپ چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ مَیں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر تنِ تنہا پنجور کی طرف چل پڑا۔ راستے میں جابجا مختلف علاقوں میں مزدور کام کرتے دکھائی دیے۔ سبھی مجھے جانتے پہچانتے تھے۔ اِن سے شیرنی اور اُس کے بچّوں کے بارے میں پُوچھتا گچھتا آگے بڑھتا گیا۔ کوئی خاص بات معلوم نہ ہوئی۔ جب پہاڑی کے دامن میں پہنچا تو دوپہر ہو چکی تھی۔ مَیں نے گھوڑا ایک ٹیلے کے پاس روکا اور اُسے گھاس چَرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ پھر مَیں نے اپنا ناشتہ دان نکالا اور ایک طرف آرام سے بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔ میرا خیال تھا کہ تیسرے پہر تک پنجور پہنچ جاؤں گا۔
ابھی مَیں نے بمشکل چند ہی نوالے کھائے تھے کہ گھوڑا زور ہنہنایا اور دَوڑ کر میرے پاس آیا۔ وہ بُری طرح کانپ رہا تھا اور گردن ہلا ہلا کر ہنہناتا جاتا۔ مَیں سمجھ گیا کہ ضرور کوئی بات ہے۔ فوراً رائفل سنبھالی اور چوکنّا ہو کر اپنے اردگرد دیکھا۔ بائیں ہاتھ پر ایک بلند ٹیلے کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی کھائی تھی اور اُس میں کسی جانور کے آہستہ آہستہ حرکت کرنے کی آواز آ رہی تھی۔
مَیں لمبی گھاس میں چُھپ گیا۔ گھوڑا پھر ہنہنایا اور یک لخت ایک طرف کو اندھا دُھند بھاگ اُٹّھا اور ابھی مَیں اُسے حیرت اور خوف کی مِلی جُلی نظروں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ کھائی میں سے غرّاتی گرجتی دو جوان اور نہایت خوبصورت شیرنیاں برآمد ہوئیں اور گھوڑے کے تعاقب میں دوڑیں۔ چشم زدن میں انہوں نے گھوڑے کو جا لیا اور اس سے پیشتر کے مَیں کچھ سمجھ سکوں، انہوں نے گھوڑے کو گھسیٹا اور جنگل میں غائب ہو گئیں۔ دیر تک مَیں پتھر کے بے جان بُت کی مانند لمبی گھاس میں بے حس و حرکت پڑا رہا۔ پھر ہمّت کر کے اُٹھا اور کھائی کی طرف چلا۔ شیرنیوں کے قدموں کے نشانات اور تازہ لید کثرت سے پڑی تھی اور جانوروں کی بڑی بڑی ہڈیوں کے انبار بھی وہاں لگے تھے۔ تعفّن اور سڑاند برداشت سے باہر تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ شیرنیاں ابھی تک مِل جُل کر رہتی ہیں اور شکار لا کر یہیں ہڑپ کرنے کی عادی ہیں۔ کھائی کے پرلے سرے پر مجھے ایک جانور کی لاش پڑی دکھائی دی اور یہ وہی بوڑھی اپاہج شیرنی تھی جس کی تلاش میں مَیں حیران و پریشان پھر رہا تھا۔ اُس کی کھوپڑی پھٹی ہوئی تھی۔ نہ معلوم کیا حادثہ پیش آیا کہ شیرنی اس بلند ٹیلے سے نیچے کھائی میں گِری۔ ایک بڑے پتّھر سے اس کا سر ٹکرایا اور وہیں مر گئی۔
گھوڑا تو ہاتھ سے جا چکا تھا، لیکن مجھے اِن جوان شیرنیوں کے ٹھکانے کا پتہ ضرور چل گیا۔ اب میرے سامنے دو راستے تھے۔ پہلا تو یہ کہ سیدھا پنجور جاؤں۔ اپنے دوست سے تمام حالات کا ذکر کروں، پھر اُسے ساتھ لے کر یہاں آؤں اور اِن دونوں شیرنیوں کو ٹھکانے لگا دوں۔ دُوسرا راستہ یہ تھا کہ پنجور جانے کے بجائے یہیں چھپ کر شیرنیوں کا انتظار کروں، ممکن ہے وہ گھوڑے کی لاش لے کر اِدھر ہی آئیں۔ دیر تک سوچتا رہا۔ آخر فطری بزدلی آڑے آئی اور مَیں یہ طے کر کے اِن موذیوں کا ٹھکانہ تو معلوم ہو ہی چکا ہے، پنجور ہی جانا چاہیے، تیز قدموں سے اپنی منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہو گیا۔ کیجال پہاڑی اپنی پُوری عظمت اور شان و شوکت کے ساتھ میرے سامنے تھے اور جونہی میں چڑھائی طے کر کے پرلی ڈھلان پر نِکلا، پنجور کی مختصر سی خوبصورت بستی میری نگاہوں کے سامنے تھی۔
اُن دنوں پنجور میں میرے ایک انگریز دوست جنہیں مسٹر ولسن کہہ لیجئے، تعینّات تھے اور جنگلوں کے ایڈمنسٹریٹر آفیسر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ سیدھا اُن کے بنگلے پر پہنچا۔ لکڑی کے بنے ہوئے برآمدے میں بیٹھے سہ پہر کی چائے پی رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت تپاک سے ملے۔ آدم خور شیرنی کی داستانیں اُن کے کانوں تک پہنچ چکی تھیں اور اگرچہ انہیں شکار سے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا، لیکن تھے جی دار آدمی میرا قِصّہ سُن کر بہت ہنسے اور کہنے لگے:
‘خدا کا شکر ادا کیجیے کہ گھوڑے ہی پر بات ٹل گئی، ورنہ وہ شیرنیاں آپ کو پکڑ کر لے جاتیں۔’
‘جی ہاں، بس معجزہ ہی ہو گیا۔‘ مَیں نے کہا: ‘مگر یہ سمجھ لیجئے کہ اَب اِس علاقے پر کوئی نہ کوئی آفت آیا ہی چاہتی ہے۔ آدم خور شیرنی تو مر چکی ہے، مَیں اُس کی لاش کھائی میں پڑی دیکھ چکا ہوں، وہ ایک بلند چٹان سے اتفاقیہ طور پر پھسل کر گری اور مر گئی۔ اُس کے دو بچّے اَب جوان ہو چکے ہیں اور دونوں مادہ ہیں۔ اُنہی نے میرے گھوڑے کو پکڑا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اُن کے مُںہ کو ابتدا ہی سے آدمی کے خون اور گوشت کا چسکا پڑا ہوا ہے۔ ابھی تو وہ مویشیوں کے پیچھے پڑی ہیں، چند روز بعد آدمیوں کی باری بھی آ جائے گی اور علاقہ بھی آپ کا ہے۔’
مسٹر ولسن یہ سُن کر متفکّر ہو گئے۔ چند لمحے تک خاموش بیٹھے کچھ سوچتے رہے، پھر کہنے لگے:
‘واقعی بات تو تشویش کی ہے، آج کل کام کا بڑا زور ہے اگر اِن دنوں کچھ گڑبڑ ہوئی، تو خاصا نقصان ہو گا۔ اِن درندوں کا ابھی سے کچھ انتظام ہونا چاہیے۔ آپ اِس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں؟’
‘جناب میرے علاقے میں ابھی اَبتری پھیلی ہوئی تھی۔ اب خدا خدا کر کے کچھ سکون ہوا ہے، لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا یہ سکون عارضی ہے اور اُسے حشر میں تبدیل ہونے کے لیے زیادہ دیر نہ لگے گی۔ مَیں تو اِسی لیے آیا تھا کہ آپ حکومت کی طرف سے مجھے کیا کیا سہولتیں بہم پہنچا سکتے ہیں؟’
‘سہولت تو جو آپ کہیں مِل سکتی ہے۔‘ مسٹر ولسن نے کہا۔ ‘لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہاں کے لوگ بڑے عجیب ہیں۔ اِن سے آپ کو تعاون بمشکل ملے گا اور لوگوں کی مدد کے بغیر کوئی قدم اٹھانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بہرحال آپ آج یہیں آرام کیجیے، صبح میں اپنے چند نڈر کارندوں کو بلاؤں گا، ان میں سے چند لوگ نڈر ہیں اور جنگلوں سے بھی واقف۔ غالباً روپے کا لالچ کام کر جائے گا۔ شاید ان میں سے ایک آدھ شخص بندوق چلانا بھی جانتا ہو۔‘
اگلے روز علی الصّباح میں بیدار ہوا۔ مسٹر ولسن کے اردلی سے معلوم ہوا کہ صاحب دَورے پر چلے گئے ہیں اور شام تک لوٹیں گے۔ مَیں نے رائفل کندھے پر لٹکائی اور گاؤں کی سیر کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ یہ گاؤں تین طرف سے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں گِھرا ہوا تھا۔ آبادی مشکل سے چھ سو نفوس پر مشتمل ہو گی۔ مکان سب کے سب لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ مرد کام پر جا چکے تھے، بچے گھروں اور گلیوں میں کھیل رہے تھے اور عورتیں آپس میں گپ شپ کر رہی تھیں۔ میری طرف کسی نے توجہ نہ دی، البتہ چند بوڑھے لوگوں سے سلام دُعا ضرور ہوئی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ گھوم کر مَیں بنگلے کی طرف لوٹا۔۔۔ یکایک پندرہ بیس آدمیوں کا ایک گروہ شمال کی طرف سے گاؤں کی طرف آتا دکھائی دیا۔ یہ لوگ بے وقت واپس آ رہے تھے، اس لیے مَیں وہیں رُک کر ان کا انتظار کرنے لگا۔ یقیناً کوئی حادثہ پیش آیا تھا۔
جب یہ گروہ قریب پہنچا، تو مَیں نے دیکھا کہ ان کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں اور وہ چیخ چیخ کر اپنی زبان میں ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ان میں سے چند آدمی ایسے تھے جنہیں مَیں پہچانتا تھا اور وہ بھی میری شکل سے آشنا تھے، چنانچہ بستی کی طرف جانے کے بجائے سیدھے میری طرف آئے اور آتے ہی کہنے لگے:
‘جناب، جلدی جائیے، کالونگ والی سڑک پر پندرہ فٹ لمبا اور پانچ فٹ اونچا ایک شیر گھوم رہا ہے۔ اس نے ہم پر حملہ کرنے کی کوش کی تھی، مگر خدا نے بچا لیا، ہم کام پر جا رہے تھے جناب اور ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ ہمارے انتظار میں وہاں چُھپا ہوا ہے۔۔۔ اُس نے ہمیں دیکھا اور دانت نکال کر غُرایا۔۔۔’
‘شیر نہیں صاحب، شیرنی تھی، شیرنی۔۔۔‘ دوسرے نے تردید کرتے ہوئے کہا۔‘ مَیں نے اُسے غور سے دیکھا تھا، وہ شیرنی تھی۔۔۔’
مَیں سمجھ گیا کہ انہوں نے جڑواں شیرنیوں میں سے کِسی ایک کو دیکھ لیا ہے، لیکن حیرت یہ تھی کہ دن نکلنے کے بعد بھی اُس نے اِن آدمیوں کو اُدھر سے گزرنے کی اجازت نہیں دی۔
‘آؤ، تم لوگ میرے ساتھ چلو۔‘ میں نے کہا۔ ‘ڈرو مت میرے پاس بندوق ہے، مَیں اسی شیرنی کی تلاش میں اِدھر آیا ہوں۔’
بڑی مشکل سے مَیں نے انہیں ساتھ چلنے کے لیے راضی کیا۔ اُن سب کے پاس کلہاڑیاں تھیں اور جسمانی قوّت کے اعتبار سے بھی سب خاصے ہٹّے کٹّے تھے۔ اگر چاہتے، تو شیرنی کو گھیر کر چند لمحوں میں اِس کی تکّا بوٹی کر ڈالتے۔ اس معاملے میں یوگنڈا، کینیا اور نیروبی کے جنگلی لوگ خاصے تیز ہیں۔ وہ اپنے نیزوں، برچھوں اور تیرکمانوں ہی سے شیروں، چیتوں، گینڈوں اور ہاتھیوں تک کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ اگرچہ ایسی مہمّوں میں کئی لوگ موقعے پر مارے بھی جاتے ہیں، تاہم وہ اِس بات کی پروا نہیں کرتے، بہرحال میں اُن سب کو نصیحت کرتا اور بہادر لوگوں کے کارنامے سُناتا ہوا اسی پگڈنڈی کی طرف چلا جدھر سے یہ لوگ آ رہے تھے۔
یہاں جنگل کچھ زیادہ گھنا نہ تھا۔ زمین نرم اور دلدلی تھی اور جھاڑ جھنکار کثرت سے پگڈنڈی کے دونوں جانب اُگا ہوا تھا۔ اِن جھاڑیوں کو عبور کرنا انسان کے بس میں نہ تھا، کیونکہ تین تین انچ لمبے سوئیوں کی مانند نوکیلے کانٹے ان میں لگے تھے۔ مَیں نے ان آدمیوں سے کہہ دیا تھا کہ اونچی آواز میں گیت گاتے یا باتیں کرتے ہوئے چلیں تاکہ شیرنی اگر اب بھی یہاں موجود ہو تو اپنے آرام میں مداخلت پا کر دوبآ رہ غُرائے۔ تقریباً ڈھائی تین میل چلنے کے بعد یکایک ایک شخص چِلّایا:
‘دیکھیے جناب یہ رہے، اس کے پنجوں کے نشان۔’
مَیں نے ان نشانوں کو غور سے دیکھا اور دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ شیرنی ہے۔ مجھے ان شریف آدمیوں نے بتایا تھا کہ اُس کا قد پندرہ فٹ لمبا اور پانچ فٹ اونچا ہے، لیکن اس کے قد و قامت کا اندازہ کیا، وہ یہ تھا کہ قد دُم سے لے کر ناک تک سات فٹ لمبا اور تقریباً ڈھائی فٹ اونچا ہے اور نرم زمین پر اس کے پنجوں کے گہرے نشان بھی یہ ظاہر کرتے تھے کہ اُس کا وزن عام شیرنیوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی ہے۔ بہرحال ہم آگے بڑھتے گئے۔ حدِّنظر تک دونوں جانب خاردار جھاڑیاں بے حس و حرکت کھڑی تھیں۔ کہیں کہیں جنگلی چُوہوں اور نیولوں کے غول کے غول پھرتے نظر آتے، مگر ہمارے قدموں کی آہٹ پا کر چشم زدن میں غائب ہو جاتے۔ شیرنی کے پنجوں کے نشان جھاڑیوں کے ساتھ سیدھ میں مشرق کی طرف چلے گئے تھے۔ اب ہم یہ اُجاڑ اور ویران حَصّہ عبور کر کے ایک سرسبز و شاداب پہاڑی کے دامن میں داخل ہوئے جس کے پرلی طرف ایک گھنا اور ہیبت ناک ربڑ کے درختوں کا جنگل پھیلا ہوا تھا اور یہ مزدور اسی جنگل میں کام کرتے تھے۔ وہاں سے بے شمار لوگوں کے باتیں کرنے اور قہقہے لگانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کچھ لوگ ایک جانب لکڑی کا ایک چھوٹا سا مکان بنا رہے تھے۔ شیرنی اِسی جنگل میں کہیں چھپی ہوئی تھی، کیونکہ وہاں کام کرنے والے ایک شخص نے اُسے اُدھر جاتے دیکھا تھا۔ ان میں سے کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ اِس شیرنی کے منہ کو بچپن ہی سے انسانی خون لگ چکا ہے۔ بہرحال مَیں نے اس موقعے پر یہ خبر سنا کر افراتفری پھیلانا مناسب نہ سمجھا، البتّہ نِگران کو بتا دیا کہ شیرنی کا خاص خیال رکھے کہ وہ آدم خور ہے اور کِسی وقت بھی مزدوروں پر حملہ کر سکتی ہے۔ یہ سُن کر اُس کے چہرے پر دہشت کے آثار نمودار ہوئے اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ چند منٹ کے اندر اندر یہ خبرِ وحشت اثر سارے جنگل میں پھیل چکی تھی اور مزدور کام کاج بند کر کے ایک جگہ جمع ہو رہے تھے۔ غضب یہ ہوا کہ اس خبر کی تصدیق میرے ساتھ آنے والے مزدوروں نے بھی کر دی، حالانکہ ان میں سے کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ شیرنی اور اس کی جڑواں بہن دونوں آدم خور ہیں۔
اِس جنگل سے میرا کوئی تعلق نہ تھا۔ اس لیے مزدوروں کے یوں اچانک کام چھوڑ دینے سے مجھے تشویش ہوئی کہ جب ذمّے دار لوگوں کو پتہ چلے گا، تو مجھے قصوروار ٹھہرائیں گے۔ مَیں نے بڑی کوشش کی کہ وہ دوبارہ کام شروع کر دیں، مگر کوئی شخص ٹَس سے مِس نہ ہوا، بلکہ سب اپنے اپنے گھروں کو جانے کی تیّاریاں کرنے لگے۔ مَیں نے سوچا ممکن ہے مسٹر ولسن آ گئے ہوں، وہی اس معاملے میں کوئی مناسب قدم اٹھا سکیں گے، لہٰذا پنجور واپس چلنا چاہیے، چنانچہ پنجور میں رہنے والے مزدوروں کی ایک جماعت کے ساتھ مَیں واپس ہوا اور سورج غروب ہونے کے تھوڑی دیر بعد بستی میں پہنچ گیا۔ مسٹر ولسن کے بنگلے کے سامنے مَردوں، عورتوں اور بچّوں کا ہجوم تھا اور ان میں سے بعض کے رونے کی آوازیں سنائی دیں۔ یہ دیکھ کر میرے ہاتھ پاؤں پُھول گئے اور پہلا خیال دل میں یہی آیا کہ مسٹر ولسن کو کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے۔ مجمع مجھے دیکھ کر کائی کی طرح پھٹ گیا۔ مسٹر ولسن کا اردلی پامت دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے بچّوں کی طرح چلّا چلّا کر رو رہا تھا۔
‘کیا ہوا؟‘ مَیں نے اُسے جھنجھوڑ کَر کَہا: ‘مسٹر ولسن کہاں ہیں؟’
‘انہیں شیر پکڑ کر لے گیا۔‘ پامت نے جواب دیا اور میرا دل جیسے نیچے بیٹھنے لگا۔
‘شیر پکڑ کر لے گیا؟ کہاں؟ کس جگہ۔۔۔’
پامت نے سسکیوں اور آہوں کے درمیان جو لرزہ خیز کہانی مجھے سنائی اُس کا خلاصہ یہ ہے:
مسٹر ولسن اپنی پرانی جیپ گاڑی میں گئے تھے۔ ان کے پاس کوئی بندوق اور پستول نہ تھا۔ شام سے پہلے پنجور کی طرف واپس آ رہے تھے کہ ایک جگہ جیپ خراب ہو گئی۔ انہوں نے اسے ٹھیک کرنے کی بڑی کوشش کی، مگر بے سُود، چنانچہ جیپ وہیں چھوڑ کر پیدل چلے۔ اندھیرا لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا۔ پنجور ابھی پانچ میل دُور تھا کہ یکایک انہوں نے دیکھا ایک شیر ( وہ شیرنی تھی جو اندھیرے کے باعث اردلی کو شیر دکھائی دی) تعاقب میں چلا آتا ہے اور اس پیشتر کے وہ بچاؤ کے لیے کسی درخت پر پناہ لیں، شیر نے جست کی اور مسٹرولسن کو زمین پر گرا دیا اور پھر اردلی نے دیکھا کہ وہ صاحب کو مُنہ میں دبا کر چھلانگیں لگاتا ہوا ایک طرف غائب ہو گیا۔
وہ رات انتہائی ڈراونی اور بھیانک تھی۔ بار بار مسٹر ولسن کا چہرہ میری نظروں کے سامنے گھومتا اور ان کی باتیں یاد کر کے دل اُمڈ اُمڈ آتا۔ گاؤں کے لوگ بھی ان کی موت پر بے حد افسردہ اور خاموش خاموش تھے۔ بچّے سہمے ہوئے، عورتیں لرازاں و ترساں اور مرد حیران پریشان۔ میں علی الصبح اُٹھا، اپنا سامان تیّار کیا۔ گاؤں سے چند ہٹّے کٹّے اور جی دار لوگ جمع کیے اور مسٹر ولسن کی لاش کے بچے کھچے اجزا کی تلاش میں روانہ ہوا۔ رہنمائی کے لیے اردلی پامت کو ساتھ لیا۔ پنجور سے پانچ میل شمال کی جانب ایک جگہ جنگل کے عین وسط میں ان کی جیپ کھڑی دکھائی دی۔ کچھ فاصلے پر شیرنی کے پنجوں کے نشانت بھی واضح تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ خاصی دُور سے جیپ کے تعاقب میں چلی آ رہی تھی اور یہ حرکت شیرنی کی فطرت سے بعید ہے۔ ممکن ہے جیپ خراب نہ ہوتی، تو اسے مسٹر ولسن یا اردلی پر حملہ کرنے کا موقع نہ ملتا، لیکن جب قضا ہی سر پر کھیل رہی ہو، تو ایسے حالات کا پیدا ہو جانا کچھ مشکل نہیں۔ ذرا میری حیرت کا اندازہ کیجیے کہ جب مَیں نے جیپ کا معائنہ کیا، تو اس میں کوئی خرابی نہ تھی وہ فوراً چالو ہو گئی۔
شیرنی نے جس جگہ مسٹر ولسن کو گرایا تھا، وہاں جما ہوا خُون بڑی مقدار میں بکھرا ہوا تھا اور اُن کے کپڑوں کی دھجیاں بھی جابجا پھیلی نظر آئیں۔ یہ منظر اتنا دل دوز تھا کہ مَیں اپنے آنسو ضبط نہ کر سکا اور اردلی پامت کی تو روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔
مسٹر ولسن کی لاش (بشرطیکہ اُسے لاش کہنا درست ہو) ڈھونڈنے میں کچھ زیادہ دقّت نہ ہوئی۔ ایک گھنی جھاڑی کے اندر اُن کی کھوپڑی، ہاتھ پیروں کی انگلیاں، چند پسلیاں، ایک ٹانگ اور آنتیں وغیرہ پڑی نظر آئیں۔ شیرنی غالباً کئی دن کی بُھوکی تھی کہ اُس نے جی بھر کر پیٹ بھرا تھا۔ مَیں نے ان اعضاء کو وہیں رہنے دیا اور اِدھر اُدھر جائزہ لے کر اندازہ کیا کہ کون سی جگہ مناسب ہے جہاں رات کو چُھپ کر مَیں شیرنی کا انتظار کروں۔ یہ تو طے تھا کہ وہ دوبارہ اِدھر ضرور آئے گی۔
تقریباً پچیس فٹ کے فاصلے پر ایک ٹیلا نظر آیا جس کے اِردگرد جھاڑ جھنکاڑ کثرت سے اُگا ہوا تھا۔ یہ ٹیلا بہترین کمین گاہ بن سکتا تھا، چنانچہ مَیں نے اچّھی طرح دیکھ بھال کرنے کے بعد رات اس ٹیلے پر گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ ممکن ہے مَیں ایسی حماقت آمیز جرأت نہ کرتا، لیکن وِلسن کی دردناک موت سے میرے تن بدن میں انتقام کی آگ بھڑک اُٹھی اور مَیں ہر قیمت پر اس شیرنی کو جہنّم واصل کر دینا چاہتا تھا۔ مَیں نے گاؤں والوں کو واپس بھیج دیا اور خود پامت کے ساتھ ٹیلے کے گرد حفاظتی اقدامات کرنے میں مصروف ہو گیا۔ اردگرد سے مزید خاردار جھاڑیاں کاٹ کاٹ کر ٹیلے کے چاروں طرف پھیلائی گئیں تاکہ شیرنی اگر اس پر چڑھنے کی کوشش کرے بھی، تو ناکام رہے۔ اس کام سے فارغ ہو کر مَیں نے شیرنی کے پنجوں کے نشانات تلاش کیے۔ معلوم ہوا کہ اپنا پیٹ بھرنے کے بعد وہ جنگل کے اندرونی حَصّے میں چلی گئی۔ پنجوں کے نشان سیدھ میں چلے گئے تھے۔ پامت نے بتایا کہ دو تین میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی چشمہ ہے اور شیرنی اپنی پیاس بجھانے وہیں گئی ہو گی۔ مَیں نے چشمہ دیکھنے کا ارادہ کیا، تو وہ کچھ پس و پیش کرنے لگا۔ غالباً ڈر رہا تھا، لیکن ہمّت بندھانے پر اور مسٹر ولسن کی سابقہ مہربانیوں کا خیال کر کے آخر چل ہی پڑا، تاہم خوفزدہ ںظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتا جاتا تھا۔ مَیں اُس کے پیچھے پیچھے رائفل سنبھالے جا رہا تھا۔
شیرنی نے چشمے تک پہنچنے کے لیے نہایت چالاکی سے کام لیا تھا۔ وہ سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے چکّر کاٹ کر وہاں تک پہنچی تھی، بہرحال ہم نے بہت جلد چشمہ تلاش کر لیا۔ چشمہ کیا تھا، ایک بلند اور سرسبز پہاڑی ٹیلے کے چند ننّھے سوراخوں سے پانی رِس رِس کر ایک نشیبی گڑھے میں جمع ہوتا جاتا تھا۔ اس گڑھے کے گِرد شیرنی کے علاوہ کئی اور جانوروں کے پیروں کے نشانات بھی دکھائی دیے پانی پینے کے بعد شیرنی نے اپنا رُخ یکایک مشرق کی طرف کر لیا تھا۔ اَب میں نے واپسی کا ارادہ کیا اور مجھے پورا یقین تھا کہ شیرنی اس جنگل میں کہیں موجود ہے اور رات کو لاش پر ضرور آئے گی۔ واپسی میں ہم ایک راستے سے گزرے اور یہاں بھی ہم نے شیرنی کے پنجوں کے نشانات دیکھے۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ شیرنی کو بیک وقت دو مختلف راستوں پر آنے جانے کی کیا ضرورت پیش آئی، لیکن جب غور سے ان نشانوں کو دیکھا، تو حیرت کا ایک نیا باب کھل گیا۔ یہ نشان اُن نشانوں سے مختلف تھے جو مَیں نے مسٹر ولسن کی لاش اور چشمے کے اردگرد دیکھے تھے۔ یکایک خیال آیا کہ یہ اُس کی جڑواں بہن دوسری شیرنی ہو گی۔ گویا وہ دونوں یہاں جمع ہو گئی تھیں۔ ایک بار پھر مَیں ولسن کے بچے کھچے اعضاء کو دیکھنے پہنچا اب وہاں یہ بھی انکشاف ہوا کہ لاش کو دونوں شیرنیوں نے مِل کر کھایا ہے، ورنہ ایک ہی شیرنی خواہ کتنی ہی بھوکی ہو، ساری کی ساری لاش ہڑپ نہ کر سکتی تھی۔
وہ رات مَیں ساری عمر نہ بُھول سکوں گا۔ تاریک جنگل میں اس ٹیلے پر بیٹھا ہوا مَیں سوچ رہا تھا کہ اگر ان آدم خور شیرنیوں کو بچ کر نکل جانے کا موقع مِل گیا، تو اس کے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ بستیاں ویران ہو جائیں گی اور اس علاقے میں آدم زاد ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گا۔ ہر طرف ایک ہولناک سنّاٹا طاری تھا اور کبھی کبھی مغرب کی جانب سے مینڈکوں کے ٹرّانے کی مدّھم آوازیں سنائی دے جاتی تھیں۔ ہوا بند تھی، درختوں کے پتّے ساکن اور شاخیں بے حِس و حرکت تھیں۔ میرے پاس رات کاٹنے کا پورا سامان تھا۔ تمباکو کی تھیلی، پائپ، قہوے سے بھرا ہوا تھرماس، شکاری چاقو، ٹارچ اور طاقتور رائفل۔ وقت کاٹنے کے لیے پائپ بَھرا، لیکن ماچس کی تیلی جلاتے ہوئے ڈر لگتا تھا کہ اس کا شُعلہ روشن ہوتے ہی شیرنیاں اگر قریب ہوئیں، تو راہِ فرار اختیار کریں گی، چنانچہ دم سادھے بیٹھا رہا۔ آسمان پر مطلع صاف تھا اور تارے جِھل مِل کر رہے تھے۔ مَیں نے کلائی موڑ کر گھڑی پر نظر ڈالی، چمکتی ہوئی سوئیوں نے بتایا کہ بارہ بج کر پندرہ منٹ ہوئے ہیں۔ یکایک ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا سرسراتا ہوا میرے پاس سے نِکل گیا اور پھر ایسی آہٹ ہوئی جیسے کوئی جانور دبے پاؤں قریبی جھاڑیوں میں حرکت کر رہا ہے۔
ابتدا میں یوں محسوس ہوا جیسے یہ آواز دائیں جانب سے آئی، پھر بائیں جانب سے میرے حواس پوری طرح بیدار تھے اور اعصاب چاق چوبند۔ رائفل سختی سے تھام کر مَیں نے سر ذرا اُوپر اٹھایا اور اردگرد دیکھا۔ آواز چند لمحے تک رُکی رہی اور پھر وہی کھڑبڑ۔۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ یک لخت مَیں نے تاروں کی مدّھم روشنی میں دیکھا کہ وہ دونوں شیرنیاں دائیں بائیں سے نکلیں اور مسٹر ولسن کے اعضاء کی طرف بڑھیں۔ ان کا قد و قامت ایک جیسا تھا۔ پھر ہڈیاں چٹخنے اور گوشت چبانے کی آواز سنائی دی۔ اَب میں نے ٹارچ کا بٹن دبایا اور اس کے ساتھ میری رائفل سے یکے بعد دیگرے دو گولیاں نکلیں۔ خدا کی پناہ۔۔۔ فائروں کے دھماکے، شیرنیوں کی گرج، جنگلی پرندوں اور جانوروں کی آوازوں سے گویا حشر برپا ہو گیا۔ چند لمحے تک ان بھیانک آوازوں سے جنگل کی فضا لرزتی رہی، پھر حسب معمول خاموشی چھا گئی۔ مَیں نے ٹارچ کی روشنی جھاڑیوں پر ڈالی اور دیکھ کر مسّرت کی انتہا نہ رہی کہ گولیاں نشانے پر بیٹھی تھیں اور شیرنیوں کے بھیجے اڑ گئے تھے اور اس طرح کیجال کی ان دو آدم خور شیرنیوں کا قصہ پاک ہوا۔
یہ ذکر ہے ملایا کے شمال مشرقی جنگلوں کا۔ اُس زمانے میں بصیغۂ ملازمت میں ریاست ترنگا میں تعینات تھا۔۔۔ موجودہ تہذیب و تمدّن اور جدید ترین آسائشوں سے ناآشنا اِس ریاست میں زمانۂ قدیم کی رسمیں اور رواج رائج تھے، باشندے اگرچہ مسلمان تھے۔ اکثر قرآن کے حافظ اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، تاہم ان میں بھی توہم پرستی زوروں پر تھی اور خصوصاً ربڑ کے جنگلوں میں کام کرنے والے مزدوروں میں توہمات کا مرض اِس قدر شدید تھا کہ خدا کی پناہ۔ ہر شخص نیک و بدشگون پر یقین رکھتا اور بدرُوحوں کا مرض اسِ قدر شدید تھا کہ خدا کی پناہ۔ ہر شخص نیک و بدشگون پر یقین رکھتا اور بدرُوحوں اور بھوتوں کے قِصے سبھی کی نوکِ زبان رہتے۔ درندوں کی یہاں بڑی کثرت تھی جن میں شیر اور چیتے قابلِ ذکر ہیں۔ ملایا کے جنگلوں میں پَلنے والے شیروں کے بارے میں مَیں نے سن رکھا تھا کہ پیدائشی آدم خور ہوتے ہیں۔ مجھے اِس سے پیشتر ریاست جہور میں ایک آدم خور کا سامنا کرنا پڑا تھا جسے مَیں نے نہایت صبرآزما اور کٹھن حالات کے باوجود موت کے گھاٹ اُتارا۔ آدم خوروں کی نفسیات اور عادتیں جاننے بُوجھنے کے لیے ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ میری مصروفیات کچھ اس نوعیت کی تھیں کہ دن رات کا بیشتر حِصّہ جنگل میں گزرتا تھا، اِس لیے بہت جلد جنگل کی زندگی اور یہاں کے قانون سے آگاہ ہو گیا، تاہم اکیلے دُکیلے کِسی خطرناک جگہ جاتے ہوئے اب بھی ڈر لگتا تھا۔
مَیں نے اپنے تین سالہ قیام کے دَوران مقامی باشندوں سے بھی خاصا ربط و ضبط بڑھا لیا تھا اور ان کی زبان بھی نہ صرف بخوبی سمجھنے لگا، بلکہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بھی بیان کرنے پر قادر ہو گیا۔ ملایا کے شہروں میں رہنے والے لوگوں کے برعکس جو جدید مغربی تہذیب و تمدّن کی آغوش میں آہستہ آہستہ گرتے جا رہے ہیں، دیہاتوں اور جنگلوں میں رہنے والے اپنی قدیم صفات اور اعلیٰ خوبیاں اب تک برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ توہمّات سے قطع نظر ان لوگوں میں سچائی، بہادری، محنت جفاکشی اور مہمان نوازی کی گزشتہ روایتیں اپنی اصل حیثیت میں ملتی ہیں۔ ہر شخص اپنے دین کے احکام پر چلنا فرض سمجھتا ہے اور رسولؐ سے محبت اس کا جزو ایمان ہے۔ دھوکا، فریب، عیّاری اور دھونس دھاندلی سے قطعاً ناآشنا یہ لوگ ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں صدیوں سے کوئی تغیّر و تبدل نہیں ہوا۔ جو کام باپ دادا کے وقتوں سے ہوتا چلا آیا ہے، اس میں ترمیم وتنسیخ کرنے کا اختیار کسی کو نہیں۔
ریاست جہور میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد اچانک مجھے کیجال کے علاقے میں ربڑ کے جنگلوں کی نگرانی اور مزدوروں سے کام لینے کے ‘عہدۂ جلیلہ، پر ایک برطانوی ٹھیکیدار کمپنی کی جانب سے مقرر کیا گیا تھا۔ کیجال میں ربڑ کے انتہائی وسیع و عریض گھنے جنگل، دلدلی میدان اور نہایت خطرناک گھاٹیاں تھیں۔ کہیں کہیں ان جنگلوں میں سَو دو سو افراد پر مشتمل ننّھی سی آبادی کے آثار نظر آ جاتے، ورنہ ہر جگہ درندوں کی حکومت تھی۔ ندیاں نالے بکثرت تھے جو برسات کے موسم میں خوب چڑھ جاتے۔ ان کا پانی اردگرد کی بستیوں میں نہ صرف تباہی مچاتا، بلکہ درندوں کو بھی ان کی کمین گاہوں سے دھکیل کر بستیوں کی طرف بھیج دیتا۔ درندوں کے علاوہ دوسری بڑی مصیبت اَن گنَت سانپ، بچّھو، کن کھجورے اور اسی قسم کے حشرات الارض تھے جو چیونٹیوں کی طرح راستوں، پگڈنڈیوں اور پُؒلوں پر رینگتے نظر آتے تھے۔ لوگ مویشیوں کو پالنے کے بڑے شائق تھے۔ کیونکہ اِنہی کے دُودھ اور گوشت پر اُن کا گزآ رہ ہوتا تھا، لیکن بڑی مصیبت یہ تھی کہ درندے دن دہاڑے یا رات کی تاریکی میں بستیوں میں گُھس آتے اور مویشیوں کو پکڑ کر لے جاتے۔ یہاں بندوق ٹاواں ٹاواں کسی کے پاس تھی اور وہ پرانی جِسے مَزّل لُوڈنگ کہتے ہیں اور جس میں نالی کی طرف سے بارود بھر کر فائر کیا جاتا ہے۔ یہ بندوق نہایت خطرناک ہوتی ہے اگر چلانے والا احتیاط سے کام نہ لے، تو اُسی کو زخمی یا ہلاک کر ڈالتی ہے۔
اِس طویل تمہید کے بعد مَیں اپنے قِصے کی طرف آتا ہوں:
جُڑواں آدم خور ابتدا میں مویشی اٹھا لے جانے کی عادتِ بد میں مبتلا تھے۔ وہ دونوں آپس میں حقیقی بہنیں تھیں اور اُن کا باپ کیجال کے جنگلوں میں رہنے والا سب سے بڑا اور انتہائی خونخوار شیر تھا۔ اس کی قوت کا یہ عالم تھا کہ کئی من وزنی بھینس کو پنجے کی ایک ہی ضرب سے ہلاک کر ڈالتا اور پھر اُسے دانتوں کی مدد سے گھسیٹ کرمیلوں دُور لے جاتا۔ یہ شیر بھینسوں کا خصوصاً دشمن تھا۔ بعض اوقات وہ دو دو بھینسوں کو ایک ہی رات میں پکڑ کر لے جاتا۔ لوگ اس کی حرکتوں سے سخت نالاں و ترساں تھے، لیکن کچھ بس نہ چلتا تھا۔ خیر تھی کہ ابھی تک اُس نے آدمی کے لہُو اور گوشت کا ذائقہ نہ چکھا تھا، ورنہ قیامت ہی برپا ہو جاتی۔۔۔ اِس شیر کو مَیں نے کس طرح ہلاک کیا، یہ داستان خاصی طویل اور دلچسپ ہے، لیکن اُسے کسی اور موقعے کے لیے اٹھا رکھتا ہوں، اس وقت جڑواں آدم خوروں کی کہانی بیان کروں گا۔
یہ شیر جب مارا گیا، تو لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ ان کے مویشی اَب محفوظ ہو گئے اور لوگ بھی آزادی سے ایک سے دُوسری بستی میں آنے جانے لگے، مگر ایک ماہ بعد مجھے پتہ چلا کہ شیرنی میدان میں آ گئی۔ یہ بات حیرت انگیز تھی، کیونکہ ملایا کی شیرنیاں اِتنی خوں خوار اور مَردم آزار نہیں ہوا کرتی تھیں۔ دراصل قِصّہ یہ تھا کہ اِس شیرنی کو اپنے دو جڑواں معصوم بچوں کی پرورش کے لیے بہرحال گوشت کی ضرورت تھی اور چونکہ وہ جنگلی جانور کا شکار کرنے کے قابل نہ تھی، اس لیے مویشیوں پر ہاتھ صاف کرنا اُسے آسان نظر آیا۔
مَیں ایک دن اس شیرنی کی تلاش میں گھوم رہا تھا کہ ایک جھاڑی کے اندر سے کچھ کھڑبڑ کی آواز آئی۔ مَیں رُک گیا اور غور سے دیکھنے لگا۔ شیرنی تو نظر نہ آئی، مگر بُھورے رنگ کے دو ننّھے ننّھے بچّے ضرور دکھائی دیے جو یہی جڑواں بہنیں تھیں ۔ میری آہٹ پا کر وہ نہ جانے کہاں غائب ہو گئیں۔ اُس کے بعد کئی ماہ تک مَیں انہیں نہ دیکھ سکا اور نہ اس دَوران میں اُن کی کوئی خیر خبر معلوم ہوئی، البتّہ شیرنی نے چار پانچ گائیں بھینسیں اور ایک دو بکریاں ہی ماری تھیں کہ وہ ایک مقامی باشندے کی مَزّل لُوڈنگ بندوق کا نشانہ بن کر زخمی ہو گئی۔ زخمی ہونے کے بعد اُس کے لیے مویشیوں کو ہلاک کرنا بھی ممکن نہ رہا اور پھر اچانک ایک روز وہ جنگل میں اُس جگہ نمودار ہوئی جہاں مزدور ربڑ کے درختوں پر کام کر رہے تھے، اُس کے ساتھ دونوں بچّے بھی تھے جو جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھنے ہی والے تھے۔۔۔ شیرنی نے ایک مزدور کو پکڑ لیا اور گھسیٹ کر جھاڑیوں میں لے گئی۔ پھر انہوں نے دُور کھڑے ہوئے دہشت زدہ مزدوروں کے سامنے ہی لاش کو چیرا پھاڑا اور ہڑپ کرنا شروع کر دیا۔
شیرنی کا آدم خور بن جانا کوئی معمولی حادثہ نہ تھا۔ مزدوروں نے نہ صرف کام پر جانا چھوڑ دیا، بلکہ دہشت اور اور خوف کی لہر جو اُن میں پھیل چکی تھی، اُس نے عجیب افراتفری کا عالم پیدا کر دیا۔ ایک ہفتے بعد شیرنی نے دُوسرا انسانی شکار مارا اور اِس مرتبہ ایک بدنصیب عورت اُس کے ہتھے چڑھی۔ وہ اپنے بچّوں کے لیے قریبی ندّی سے پانی کا گھڑا لا رہی تھی کہ گھاس میں چُھپی ہوئی شیرنی نے اُس کا تعاقب کیا اور بستی میں پہنچنے سے پہلے پہلے ہی عورت پر حملہ کر کے اُسے ہلاک کر دیا۔ عورت کی چیخیں سُن کر کُچھ لوگ نیزے اور تلواریں لے کر دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ شیرنی نے عورت کو چوہے کی مانند مُنہ میں دبا رکھا ہے اور اُس کے ساتھ دو چھوٹے شیر بھی اُچھلتے کودتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ شیرنی تو آدم خور بن ہی چکی، لیکن اُس نے اپنے بچّوں کو بھی ابتدا ہی سے انسانی گوشت اور خُون کی چاٹ ڈال دی تھی اور اگر ان کا صفایا نہ کیا گیا، تو یہ تینوں مَل کر تھوڑے ہی عرصے میں تمام انسانی بستیوں کا صفایا کر ڈالیں گے۔
تیسرے ہفتے شیرنی نے ایک اور شخص کو ہلاک کیا، مگر لاش کو لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُسی لمحے ایک بستی کے سو ڈیڑھ سو آدمی اپنے کندھوں پر جنازہ اٹھائے قبرستان کی طرف جاتے ہوئے جنگل سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے خون میں لَت پَت اُس شخص کو دیکھا، تو رُک گئے۔ وہ مر چکا تھا، چنانچہ اُسے بھی چند لوگوں نے چادروں میں لپیٹا اور ساتھ لے چلے۔ شیرنی اور اُس کے بچّے قریبی جھاڑیوں میں چُھپے ہوئے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ شیرنی نے جب لاش کو ہاتھ سے جاتے دیکھا، تو تڑپ اٹھی اور گرج کر جھاڑیوں سے باہر نکل آئی۔ لوگ اندھا دُھند بھاگ اُٹھے اور انہوں نے جنازہ بھی ایک طرف رکھ دیا اور درختوں پر چڑھ گئے۔ شیرنی دیر تک بے چین اور مضطرب اِدھر اُدھر پھرتی رہی، لیکن لاش کے نزدیک جانے کی جرأت نہ ہوئی۔ آخر ایک طرف کو چلی گئی۔
اگلے روز یہ قِصّہ میرے کانوں میں پہنچا۔ مَیں ںے فوراً چند آدمیوں کو ساتھ لیا اور وہاں پہنچ گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ لاش ابھی تک اُسی حالت میں پڑی تھی اور کَسی جانور نے اُسے چھیڑنے کی جسارت نہ کی تھی۔ یہ ایک بوڑھا اور نہایت عبادت گزار شخص تھا جس کے بارے میں مقامی لوگ کہتے تھے کہ وہ خُدا رسیدہ اور نہایت ولی آدمی ہے۔ اُس کی کئی کرامتیں بھی مشہور تھیں، مگر شیرنی کے سامنے اُس کی کوئی کرامت کام نہ آئی۔ دراصل اس کی موت اِسی بہانے لکّھی تھی۔ مَیں بھی اُسے جانتا تھا اور وہ خُدا رسیدہ تھا یا نہیں، اس کے بارے میں مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن ایک پرہیزگار اور متقی آدمی ضرور تھا۔ مجھے اُس کی لاش اٹھانے کی اِس اندوہناک موت کا صدمہ ہوا۔ بستی والے بھی اُس کا ماتم کر رہے تھے، مگر جنگل جآ کر اُس کی لاش اٹھانے کی جرأت کِسی میں نہ تھی۔ جب مَیں نے دیکھا کہ شیرنی نے اسے ہڑپ نہیں کیا، تو سچّی بات یہ ہے کہ مجھے اُس شخص کے ولی ہونے میں کوئی شبہ نہ رہا، یہ کتنی عجیب بات تھی کہ لاش ساری رات جنگل میں پڑی رہی اور بُھوک سے بے تاب شیرنی اور اُس کے بچّے قریب بھی نہ پھٹک سکیں۔ مَیں نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ لاش کو وہیں پڑا رہنے دیں، مَیں ایک رات اُس کے قریب ہی کسی درخت پر مچان باندھ کر شیرنی کا انتظار کرنا چاہتا ہوں۔
سُورج غروب ہونے سے آدھ گھنٹہ پیشتر مَیں کیل کانٹے سے لیس ہو کر مچان پر پہنچ گیا۔ شمال کی جانب سے آہستہ آہستہ کالی گھٹائیں اُمڈ رہی تھیں اور ہوا کی تیزی اور تُںدی میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا تھا۔ خدشہ تھا کہ اگر ہوا اِسی طرح چلتی رہی، تو مچان کا خدا حافظ ہے۔ میرے ساتھ آنے والے سب لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں کو واپس جا چکے تھے۔ اَب میں تھا اور جنگل کی ہیبت ناک فضا جس میں تین آدم خور گھات لگائے بیٹھے تھے۔ یک لخت گھٹا تیزی سے اُٹھی اوردیکھتے دیکھتے آسمان تاریک ہو گیا۔ پھر بجلی کی کڑک اور بادلوں کی گرج کے ساتھ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ اب مجھے احساس ہوا کہ کِس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ مچان سے اُترنا محال تھا۔ بارش کا پانی ننّھے ننّھے کنکروں کی مانند میرے چہرے پر آن کر لگ رہا تھا اور سردی تھی کہ بڑھتی ہی جاتی تھی۔ میرے سامنے کچھ فاصلے پر بوڑھے کی لاش پڑی پانی میں بھیگ رہی تھی اور مَیں اس حماقت پر ندامت محسوس کر رہا تھا کہ محض اپنے شوق مہم جُوئی کی خاطر ایک مسلمان بزرگ کی میّت کی بے حرمتی کر رہا ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اِسی کی پاداش میں خدا مجھے شیرنی کا تر نوالہ بنا دے۔ یہ خیال آتے ہی میرے جسم کا رُواں رُواں فرطِ خوف سے لرز گیا۔ جسم تو پہلے کانپ رہا تھا، مگر اس بھیانک تصوّر نے میرا دل و دماغ بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اَب مَیں خدا سے اپنے اِس قصور کی دل ہی دل میں معافی مانگنے لگا۔
بارش اور ہوا کا شور۔۔۔ الامان و الحفیظ۔۔۔ ہر طرف گھپ اندھیرا جسے کبھی کبھی بجلی کی چمک دُور کرتی تھی۔ مَیں جس درخت پر مچان کے اوپر خرگوش کی مانند دبکا بیٹھا تھا، وہ کچھ زیادہ اُونچا نہ تھا۔ کپڑے تر ہو چکے تھے اور کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس حالت میں اگر شیرنی نمودار ہو گئی تو مَیں فائر کیسے کر سکوں گا۔ ادھر بارش کی یہ کیفیت کہ نہ رُکنے کی گویا قسم کھا لی تھی۔
ڈیڑھ گھنٹے بعد کُچھ اُمید بندھی کہ یہ قیامت خیز طوفانِ بادوباراں رُک جائے گا۔ موسلادھار بارش آہستہ آہستہ پھوہار میں بدلنے لگی۔ مطلع صاف ہونے لگا اور آسمان پر اَکّا دُکا تارے نمودار ہونے لگے۔ درختوں سے گرتے ہوئے پانی کی آواز کانوں میں اب بھی آ رہی تھی اور مَیں نے مدھم سے روشنی میں دیکھا کہ بارش کا پانی میرے دائیں جانب واقع ایک نشیب میں جمع ہو رہا ہے۔ یکایک یوں محسوس ہوا جیسے کوئی جانور درخت کے عین نیچے حرکت کر رہا ہے۔ مَیں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا، مگر کچھ نظر نہ آیا، لیکن دُوسرے ہی لمحے شیرنی کی گرج سُن کر جنگل کا چپّہ چپّہ بیدار ہو گیا اور میرا دل یک لخت اچھل کر حلق میں آ گیا۔ مَیں نے بدحواس ہو کر طاقت ور برقی ٹارچ روشن کر دی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک قدآور شیرنی کچھ فاصلے پر کھڑی للچائی ہوئی نظروں سے لاش کی طرف گھور رہی ہے۔ ٹارچ روشن ہوتے ہی شیرنی نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر گرجتی ہوئی اسی طرف آئی، لیکن وہ لنگڑا کر چل رہی تھی، غالباً اس کا دایاں پنجہ بے کار ہو چکا تھا۔ میں نے ٹارچ بُجھا دی اور رائفل سے نشانہ لیے بغیر فائر کر دیا۔ شیرنی دھاڑتی ہوئی جھاڑیوں میں جا چُھپی اور دیر تک اُس کے اِدھر اُدھر پھرنے اور غرّانے کی آوازیں آتی رہیں۔ اِس موقعے پر مَیں پڑھنے والے دوستوں کو سچ سچ بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں جِم کاربٹ، کینتھ اینڈرسن، جے۔ اے ہنٹر یا کرنل پیٹرسن کی طرح تجربے کار اور نڈر شکاری ہرگز نہیں ہوں، وہ تو اتفاق کی بات ہے کہ مجھے رائفل سنبھالنی پڑی اور وہ بھی اِس لیے کہ جس علاقے میں میرا کام تھا، وہاں رائفل کے بغیر گزآ رہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ابتدا میں ایک دو شیر مارنے کے بعد مجھے یہ خوش فہمی ہو گئی تھی کہ مَیں اچھا شکاری بن سکتا ہوں، چنانچہ اِس زعم میں آدم خوروں سے بھی دو دو ہاتھ کرنے کی جرأت ہو گئی، لیکن اَب پتہ چلا کہ یہ کام کتنے جان جوکھوں کا ہے اور شکاری کی ذرا سی حماقت اُسے کس طرح آدم خور کے پیٹ کے ایندھن میں تبدیل کر سکتی ہے۔
مَیں جس مچان پر بیٹھا تھا، زمین سے اُس کی اونچائی سات آٹھ فٹ سے زیادہ نہ تھی اور اگر شیرنی کی اگلی دائیں ٹانگ زخمی نہ ہوتی، تو یقیناً اتنی بلندی پر آسانی سے جست کر کے مجھے پکڑ سکتی تھی اور ممکن ہے کہ یہ طوفانِ بادوباراں نازل نہ ہوتا، تو وہ ایسا کر ہی گزرتی، تاہم خدا نے بال بال بچایا۔ مَیں نے شیرنی کو مزید خوفزدہ کرنے کے لیے دو فائر کیے اور یہ ترکیب کارگر ہوئی۔ چند منٹ تک گرجنے اور غرّانے کے بعد وہ دُور چلی گئی اور پھر رفتہ رفتہ اُس کی آواز معدوم ہوتی گئی۔
مجھے یقین تھا کہ اگر مَیں یہیں بیٹھا رہوں، تو صبح سے پہلے کوئی شخص میری خبر لینے نہ آئے گا۔ اور ابھی صبح صبح ہونے میں بڑی دیر تھی۔ شیرنی جا چکی تھی اور خطرہ ٹل گیا تھا، لیکن سیاہ بادل دوبآ رہ جمع ہو رہے تھے۔ مَیں پہلے ہی بارش میں اِس قدر بھیگ چکا تھا کہ جو کچھ مجھ پر نہ گزرتی، کم تھا۔ جوں توں کر کے مچان سے اُترا اور واپس گاؤں کی طرف چلا۔ لوگ ابھی تک جاگ رہے تھے۔ انہوں نے مسلسل فائر کی آوازیں سنی تھیں، لیکن جب پتہ چلا کہ شیرنی ابھی مری نہیں، تو غصّے اور مایوسی سے ان کے چہرے لٹک گئے۔ غصّہ اس بات پر کہ میری وجہ سے پہنچے ہوئے ایک بزرگ کی لاش بے گورو کفن جنگل میں پڑی رہی اور مایوسی یوں کہ شیرنی پھر بچ کر نِکل گئی۔ لوگوں نے اگرچہ مجھے سے کچھ نہ کہا، تاہم ان کی ناراضی کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہ تھا۔
اگلے روز اُن بزرگ کو نہایت عزّت و احترام سے سپردِ خاک کر دیا گیا۔ جنازے میں دور و نزدیک کی سبھی بستیوں کے مرد و زن شریک ہوئے۔ میری حالت چوروں کی سی تھی اور بلاشبہ مجھے اپنے کیے پر انتہائی ندامت اور شرم محسوس ہو رہی تھی، مگر مَیں معذرت کرنے کے سوا کر ہی کیا سکتا تھا۔ پانی میں دیر تک بھیگنے اور سردی لگنے کے باعث مجھے کئی روز تک ہلکا ہلکا بخار بھی رہا، لیکن اس دوران میں بھی میں شیرنی کی کھوج میں برابر لگا رہا۔ آخر معلوم ہوا کہ اُسے اپنے دونوں بچّوں سمیت اِس علاقے کی مشہور کیجال پہاڑی کے جنوبی حِصّے میں گھومتے پھرتے دیکھا گیا ہے۔ کیجال پہاڑی کے بارے میں لوگ عجیب کہانیاں بیان کرتے تھے۔ ایک روایت یہ تھی کہ اِس پہاڑی پر صدیوں سے پہلے کوئی بزرگ آن کر ٹھہرے تھے اور انہوں نے چِلہ کشی کی تھی۔ چِلے کے دوران میں، جس کی مُدّت چالیس روز کی تھی، اِن بزرگ نے کچھ کھایا نہ پیا، لیکن انہیں جسمانی کمزوری یا نقاہت مطلق نہ ہوئی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ جنگل کے تمام جانور اپنے اپنے ٹھکانوں سے نکلے اور پہاڑی کے گرد جمع ہو گئے۔ اُن میں درندے، چرندے اور پرندے سبھی شامل تھے۔ وہ اِن بزرگ کو سلام کرنے آئے تھے، لیکن بزرگ نے آنکھ اُٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے چلے جانے کا حکم دیا، چنانچہ سب جانور خاموشی سے چلے گئے۔ پھر لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ جنگلی درندے اُس پہاڑی کے گِرد ساری ساری رات پہرہ دیتے ہیں۔ بعد میں وہ بزرگ اچانک غائب ہو گئے، لیکن اُن کی برکت کا اثر ابھی تک اُس پہاڑی پر موجود ہے اور اُس کا ثبوت یہ ہے کہ جو شخص بھی اِس پہاڑی کی چوٹی پر پناہ لے، اُسے کوئی درندہ یا دوسرا جانور نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
کیجال پہاڑی کے گردونواح میں تین بستیاں بڑی مشہور اور خوب آباد تھیں۔ ایک کا نام تیلوک پنجور، دوسری کا نام تیلوک کالونگ اور تیسری کو منیکوانگ کہتے تھے۔ ملائی زبان میں ‘تیلوک، کا لفظ بستی یا گاؤں کے لیے اِستعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر باشندے جنگلوں میں درختوں سے ربڑ نکالنے، کٹائی کرنے، گھاس جمع کرنا اور اور اس طرح کے بے شمار کام کاج کیا کرتے تھے۔ نہایت صابر و شآ کر تھے۔ جو کچھ مل جاتا اُسی پر قناعت کرنے والے، فائدہ ہوتا، تو اللہ کا شکر ادا کرتے۔ نقصان ہوتا تو اُسے بھی خدا کی طرف سے کوئی بہتری سمجھ کر بُھول جاتے اور ذرا فکر نہ کرتے۔ جنگلی درندے آئے دن اُن کے مویشی اُٹھا اُٹھا کر لے جاتے، مگر ان لوگوں کو مطلق پروا نہ تھی۔ مَیں نے کئی آدمیوں کی زبانی یہ سُنا کہ یہ درندے بھی خدائی مخلوق ہیں اور انہیں بھی رزق دینا اللہ ہی کا کام ہے، لہٰذا مہینے دو مہینے میں چند مویشی اُن کی خوراک بن جائیں، تو کیا ہرج ہے۔ اِن لوگوں نے ازخود جنگلی درندوں سے چھٹکارا پانے کی بھی کوشش نہیں کی۔ غالباً یہ روایت وہاں تھی ہی نہیں کہ جو تمہیں نقصان پہنچائے، اسے مار ڈالنے یا بھگا دینے کی فکر کرو۔۔۔ بس چپ چاپ ظلم سہنا اُن کی فطرت بن چکی تھی۔
کیجال کی یہ آدم خور شیرنی نہ معلوم کہاں چھُپ گئی۔ بہت عرصے تک اُس کا کوئی پتہ نہ چلا اور اس دوران میں کسی نئی واردات کا قِصّہ بھی نہ سنا گیا۔ بہرحال لوگوں نے سکون کا سانس لیا اور اطمینان سے اپنے روزمرّہ کے دھندوں میں مصروف ہو گئے، لیکن میرے دِل میں جیسے پھانس سی اٹکی ہوئی تھی۔ مَیں جاننا چاہتا تھا کہ آخر شیرنی اور اُس کے دو بچُوں پر کیا بیتی۔ کیجال کے گردونواح میں ایک ایک چپّہ چھان مارا، مگر اُن کا کوئی سراغ نہ ملا، البتہ بعض لوگوں نے یہ اقرار کیا کہ انہوں نے رات کے ہولناک سنّاٹے میں پہاڑی کی طرف سے شیروں کے غرّانے کی آوازیں ضرور سُنی ہیں۔
کیجال پہاڑوں کے چاروں طرف نہایت گھنا اور تاریک جنگل تھا جسے ایک برطانوی کمپنی نے خرید لیا تھا اور چند روز کے اندر اس میں کام شروع ہونے والا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے، مَیں اپنے دوست سے مِلنے پنجور کی طرف گیا جس جگہ مَیں رہتا تھا وہاں سے پنجور کا فاسلہ تقریباً بیس میل تھا اور گھوڑے کے سوا اور کوئی سفر کا ذریعہ نہ تھا۔ صبح کا وقت تھا اور سورج کی سنہری دُھوپ چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ مَیں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر تنِ تنہا پنجور کی طرف چل پڑا۔ راستے میں جابجا مختلف علاقوں میں مزدور کام کرتے دکھائی دیے۔ سبھی مجھے جانتے پہچانتے تھے۔ اِن سے شیرنی اور اُس کے بچّوں کے بارے میں پُوچھتا گچھتا آگے بڑھتا گیا۔ کوئی خاص بات معلوم نہ ہوئی۔ جب پہاڑی کے دامن میں پہنچا تو دوپہر ہو چکی تھی۔ مَیں نے گھوڑا ایک ٹیلے کے پاس روکا اور اُسے گھاس چَرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ پھر مَیں نے اپنا ناشتہ دان نکالا اور ایک طرف آرام سے بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔ میرا خیال تھا کہ تیسرے پہر تک پنجور پہنچ جاؤں گا۔
ابھی مَیں نے بمشکل چند ہی نوالے کھائے تھے کہ گھوڑا زور ہنہنایا اور دَوڑ کر میرے پاس آیا۔ وہ بُری طرح کانپ رہا تھا اور گردن ہلا ہلا کر ہنہناتا جاتا۔ مَیں سمجھ گیا کہ ضرور کوئی بات ہے۔ فوراً رائفل سنبھالی اور چوکنّا ہو کر اپنے اردگرد دیکھا۔ بائیں ہاتھ پر ایک بلند ٹیلے کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی کھائی تھی اور اُس میں کسی جانور کے آہستہ آہستہ حرکت کرنے کی آواز آ رہی تھی۔
مَیں لمبی گھاس میں چُھپ گیا۔ گھوڑا پھر ہنہنایا اور یک لخت ایک طرف کو اندھا دُھند بھاگ اُٹّھا اور ابھی مَیں اُسے حیرت اور خوف کی مِلی جُلی نظروں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ کھائی میں سے غرّاتی گرجتی دو جوان اور نہایت خوبصورت شیرنیاں برآمد ہوئیں اور گھوڑے کے تعاقب میں دوڑیں۔ چشم زدن میں انہوں نے گھوڑے کو جا لیا اور اس سے پیشتر کے مَیں کچھ سمجھ سکوں، انہوں نے گھوڑے کو گھسیٹا اور جنگل میں غائب ہو گئیں۔ دیر تک مَیں پتھر کے بے جان بُت کی مانند لمبی گھاس میں بے حس و حرکت پڑا رہا۔ پھر ہمّت کر کے اُٹھا اور کھائی کی طرف چلا۔ شیرنیوں کے قدموں کے نشانات اور تازہ لید کثرت سے پڑی تھی اور جانوروں کی بڑی بڑی ہڈیوں کے انبار بھی وہاں لگے تھے۔ تعفّن اور سڑاند برداشت سے باہر تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ شیرنیاں ابھی تک مِل جُل کر رہتی ہیں اور شکار لا کر یہیں ہڑپ کرنے کی عادی ہیں۔ کھائی کے پرلے سرے پر مجھے ایک جانور کی لاش پڑی دکھائی دی اور یہ وہی بوڑھی اپاہج شیرنی تھی جس کی تلاش میں مَیں حیران و پریشان پھر رہا تھا۔ اُس کی کھوپڑی پھٹی ہوئی تھی۔ نہ معلوم کیا حادثہ پیش آیا کہ شیرنی اس بلند ٹیلے سے نیچے کھائی میں گِری۔ ایک بڑے پتّھر سے اس کا سر ٹکرایا اور وہیں مر گئی۔
گھوڑا تو ہاتھ سے جا چکا تھا، لیکن مجھے اِن جوان شیرنیوں کے ٹھکانے کا پتہ ضرور چل گیا۔ اب میرے سامنے دو راستے تھے۔ پہلا تو یہ کہ سیدھا پنجور جاؤں۔ اپنے دوست سے تمام حالات کا ذکر کروں، پھر اُسے ساتھ لے کر یہاں آؤں اور اِن دونوں شیرنیوں کو ٹھکانے لگا دوں۔ دُوسرا راستہ یہ تھا کہ پنجور جانے کے بجائے یہیں چھپ کر شیرنیوں کا انتظار کروں، ممکن ہے وہ گھوڑے کی لاش لے کر اِدھر ہی آئیں۔ دیر تک سوچتا رہا۔ آخر فطری بزدلی آڑے آئی اور مَیں یہ طے کر کے اِن موذیوں کا ٹھکانہ تو معلوم ہو ہی چکا ہے، پنجور ہی جانا چاہیے، تیز قدموں سے اپنی منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہو گیا۔ کیجال پہاڑی اپنی پُوری عظمت اور شان و شوکت کے ساتھ میرے سامنے تھے اور جونہی میں چڑھائی طے کر کے پرلی ڈھلان پر نِکلا، پنجور کی مختصر سی خوبصورت بستی میری نگاہوں کے سامنے تھی۔
اُن دنوں پنجور میں میرے ایک انگریز دوست جنہیں مسٹر ولسن کہہ لیجئے، تعینّات تھے اور جنگلوں کے ایڈمنسٹریٹر آفیسر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ سیدھا اُن کے بنگلے پر پہنچا۔ لکڑی کے بنے ہوئے برآمدے میں بیٹھے سہ پہر کی چائے پی رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت تپاک سے ملے۔ آدم خور شیرنی کی داستانیں اُن کے کانوں تک پہنچ چکی تھیں اور اگرچہ انہیں شکار سے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا، لیکن تھے جی دار آدمی میرا قِصّہ سُن کر بہت ہنسے اور کہنے لگے:
‘خدا کا شکر ادا کیجیے کہ گھوڑے ہی پر بات ٹل گئی، ورنہ وہ شیرنیاں آپ کو پکڑ کر لے جاتیں۔’
‘جی ہاں، بس معجزہ ہی ہو گیا۔‘ مَیں نے کہا: ‘مگر یہ سمجھ لیجئے کہ اَب اِس علاقے پر کوئی نہ کوئی آفت آیا ہی چاہتی ہے۔ آدم خور شیرنی تو مر چکی ہے، مَیں اُس کی لاش کھائی میں پڑی دیکھ چکا ہوں، وہ ایک بلند چٹان سے اتفاقیہ طور پر پھسل کر گری اور مر گئی۔ اُس کے دو بچّے اَب جوان ہو چکے ہیں اور دونوں مادہ ہیں۔ اُنہی نے میرے گھوڑے کو پکڑا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اُن کے مُںہ کو ابتدا ہی سے آدمی کے خون اور گوشت کا چسکا پڑا ہوا ہے۔ ابھی تو وہ مویشیوں کے پیچھے پڑی ہیں، چند روز بعد آدمیوں کی باری بھی آ جائے گی اور علاقہ بھی آپ کا ہے۔’
مسٹر ولسن یہ سُن کر متفکّر ہو گئے۔ چند لمحے تک خاموش بیٹھے کچھ سوچتے رہے، پھر کہنے لگے:
‘واقعی بات تو تشویش کی ہے، آج کل کام کا بڑا زور ہے اگر اِن دنوں کچھ گڑبڑ ہوئی، تو خاصا نقصان ہو گا۔ اِن درندوں کا ابھی سے کچھ انتظام ہونا چاہیے۔ آپ اِس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں؟’
‘جناب میرے علاقے میں ابھی اَبتری پھیلی ہوئی تھی۔ اب خدا خدا کر کے کچھ سکون ہوا ہے، لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا یہ سکون عارضی ہے اور اُسے حشر میں تبدیل ہونے کے لیے زیادہ دیر نہ لگے گی۔ مَیں تو اِسی لیے آیا تھا کہ آپ حکومت کی طرف سے مجھے کیا کیا سہولتیں بہم پہنچا سکتے ہیں؟’
‘سہولت تو جو آپ کہیں مِل سکتی ہے۔‘ مسٹر ولسن نے کہا۔ ‘لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہاں کے لوگ بڑے عجیب ہیں۔ اِن سے آپ کو تعاون بمشکل ملے گا اور لوگوں کی مدد کے بغیر کوئی قدم اٹھانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بہرحال آپ آج یہیں آرام کیجیے، صبح میں اپنے چند نڈر کارندوں کو بلاؤں گا، ان میں سے چند لوگ نڈر ہیں اور جنگلوں سے بھی واقف۔ غالباً روپے کا لالچ کام کر جائے گا۔ شاید ان میں سے ایک آدھ شخص بندوق چلانا بھی جانتا ہو۔‘
اگلے روز علی الصّباح میں بیدار ہوا۔ مسٹر ولسن کے اردلی سے معلوم ہوا کہ صاحب دَورے پر چلے گئے ہیں اور شام تک لوٹیں گے۔ مَیں نے رائفل کندھے پر لٹکائی اور گاؤں کی سیر کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ یہ گاؤں تین طرف سے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں گِھرا ہوا تھا۔ آبادی مشکل سے چھ سو نفوس پر مشتمل ہو گی۔ مکان سب کے سب لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ مرد کام پر جا چکے تھے، بچے گھروں اور گلیوں میں کھیل رہے تھے اور عورتیں آپس میں گپ شپ کر رہی تھیں۔ میری طرف کسی نے توجہ نہ دی، البتہ چند بوڑھے لوگوں سے سلام دُعا ضرور ہوئی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ گھوم کر مَیں بنگلے کی طرف لوٹا۔۔۔ یکایک پندرہ بیس آدمیوں کا ایک گروہ شمال کی طرف سے گاؤں کی طرف آتا دکھائی دیا۔ یہ لوگ بے وقت واپس آ رہے تھے، اس لیے مَیں وہیں رُک کر ان کا انتظار کرنے لگا۔ یقیناً کوئی حادثہ پیش آیا تھا۔
جب یہ گروہ قریب پہنچا، تو مَیں نے دیکھا کہ ان کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں اور وہ چیخ چیخ کر اپنی زبان میں ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ان میں سے چند آدمی ایسے تھے جنہیں مَیں پہچانتا تھا اور وہ بھی میری شکل سے آشنا تھے، چنانچہ بستی کی طرف جانے کے بجائے سیدھے میری طرف آئے اور آتے ہی کہنے لگے:
‘جناب، جلدی جائیے، کالونگ والی سڑک پر پندرہ فٹ لمبا اور پانچ فٹ اونچا ایک شیر گھوم رہا ہے۔ اس نے ہم پر حملہ کرنے کی کوش کی تھی، مگر خدا نے بچا لیا، ہم کام پر جا رہے تھے جناب اور ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ ہمارے انتظار میں وہاں چُھپا ہوا ہے۔۔۔ اُس نے ہمیں دیکھا اور دانت نکال کر غُرایا۔۔۔’
‘شیر نہیں صاحب، شیرنی تھی، شیرنی۔۔۔‘ دوسرے نے تردید کرتے ہوئے کہا۔‘ مَیں نے اُسے غور سے دیکھا تھا، وہ شیرنی تھی۔۔۔’
مَیں سمجھ گیا کہ انہوں نے جڑواں شیرنیوں میں سے کِسی ایک کو دیکھ لیا ہے، لیکن حیرت یہ تھی کہ دن نکلنے کے بعد بھی اُس نے اِن آدمیوں کو اُدھر سے گزرنے کی اجازت نہیں دی۔
‘آؤ، تم لوگ میرے ساتھ چلو۔‘ میں نے کہا۔ ‘ڈرو مت میرے پاس بندوق ہے، مَیں اسی شیرنی کی تلاش میں اِدھر آیا ہوں۔’
بڑی مشکل سے مَیں نے انہیں ساتھ چلنے کے لیے راضی کیا۔ اُن سب کے پاس کلہاڑیاں تھیں اور جسمانی قوّت کے اعتبار سے بھی سب خاصے ہٹّے کٹّے تھے۔ اگر چاہتے، تو شیرنی کو گھیر کر چند لمحوں میں اِس کی تکّا بوٹی کر ڈالتے۔ اس معاملے میں یوگنڈا، کینیا اور نیروبی کے جنگلی لوگ خاصے تیز ہیں۔ وہ اپنے نیزوں، برچھوں اور تیرکمانوں ہی سے شیروں، چیتوں، گینڈوں اور ہاتھیوں تک کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ اگرچہ ایسی مہمّوں میں کئی لوگ موقعے پر مارے بھی جاتے ہیں، تاہم وہ اِس بات کی پروا نہیں کرتے، بہرحال میں اُن سب کو نصیحت کرتا اور بہادر لوگوں کے کارنامے سُناتا ہوا اسی پگڈنڈی کی طرف چلا جدھر سے یہ لوگ آ رہے تھے۔
یہاں جنگل کچھ زیادہ گھنا نہ تھا۔ زمین نرم اور دلدلی تھی اور جھاڑ جھنکار کثرت سے پگڈنڈی کے دونوں جانب اُگا ہوا تھا۔ اِن جھاڑیوں کو عبور کرنا انسان کے بس میں نہ تھا، کیونکہ تین تین انچ لمبے سوئیوں کی مانند نوکیلے کانٹے ان میں لگے تھے۔ مَیں نے ان آدمیوں سے کہہ دیا تھا کہ اونچی آواز میں گیت گاتے یا باتیں کرتے ہوئے چلیں تاکہ شیرنی اگر اب بھی یہاں موجود ہو تو اپنے آرام میں مداخلت پا کر دوبآ رہ غُرائے۔ تقریباً ڈھائی تین میل چلنے کے بعد یکایک ایک شخص چِلّایا:
‘دیکھیے جناب یہ رہے، اس کے پنجوں کے نشان۔’
مَیں نے ان نشانوں کو غور سے دیکھا اور دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ شیرنی ہے۔ مجھے ان شریف آدمیوں نے بتایا تھا کہ اُس کا قد پندرہ فٹ لمبا اور پانچ فٹ اونچا ہے، لیکن اس کے قد و قامت کا اندازہ کیا، وہ یہ تھا کہ قد دُم سے لے کر ناک تک سات فٹ لمبا اور تقریباً ڈھائی فٹ اونچا ہے اور نرم زمین پر اس کے پنجوں کے گہرے نشان بھی یہ ظاہر کرتے تھے کہ اُس کا وزن عام شیرنیوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی ہے۔ بہرحال ہم آگے بڑھتے گئے۔ حدِّنظر تک دونوں جانب خاردار جھاڑیاں بے حس و حرکت کھڑی تھیں۔ کہیں کہیں جنگلی چُوہوں اور نیولوں کے غول کے غول پھرتے نظر آتے، مگر ہمارے قدموں کی آہٹ پا کر چشم زدن میں غائب ہو جاتے۔ شیرنی کے پنجوں کے نشان جھاڑیوں کے ساتھ سیدھ میں مشرق کی طرف چلے گئے تھے۔ اب ہم یہ اُجاڑ اور ویران حَصّہ عبور کر کے ایک سرسبز و شاداب پہاڑی کے دامن میں داخل ہوئے جس کے پرلی طرف ایک گھنا اور ہیبت ناک ربڑ کے درختوں کا جنگل پھیلا ہوا تھا اور یہ مزدور اسی جنگل میں کام کرتے تھے۔ وہاں سے بے شمار لوگوں کے باتیں کرنے اور قہقہے لگانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کچھ لوگ ایک جانب لکڑی کا ایک چھوٹا سا مکان بنا رہے تھے۔ شیرنی اِسی جنگل میں کہیں چھپی ہوئی تھی، کیونکہ وہاں کام کرنے والے ایک شخص نے اُسے اُدھر جاتے دیکھا تھا۔ ان میں سے کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ اِس شیرنی کے منہ کو بچپن ہی سے انسانی خون لگ چکا ہے۔ بہرحال مَیں نے اس موقعے پر یہ خبر سنا کر افراتفری پھیلانا مناسب نہ سمجھا، البتّہ نِگران کو بتا دیا کہ شیرنی کا خاص خیال رکھے کہ وہ آدم خور ہے اور کِسی وقت بھی مزدوروں پر حملہ کر سکتی ہے۔ یہ سُن کر اُس کے چہرے پر دہشت کے آثار نمودار ہوئے اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ چند منٹ کے اندر اندر یہ خبرِ وحشت اثر سارے جنگل میں پھیل چکی تھی اور مزدور کام کاج بند کر کے ایک جگہ جمع ہو رہے تھے۔ غضب یہ ہوا کہ اس خبر کی تصدیق میرے ساتھ آنے والے مزدوروں نے بھی کر دی، حالانکہ ان میں سے کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ شیرنی اور اس کی جڑواں بہن دونوں آدم خور ہیں۔
اِس جنگل سے میرا کوئی تعلق نہ تھا۔ اس لیے مزدوروں کے یوں اچانک کام چھوڑ دینے سے مجھے تشویش ہوئی کہ جب ذمّے دار لوگوں کو پتہ چلے گا، تو مجھے قصوروار ٹھہرائیں گے۔ مَیں نے بڑی کوشش کی کہ وہ دوبارہ کام شروع کر دیں، مگر کوئی شخص ٹَس سے مِس نہ ہوا، بلکہ سب اپنے اپنے گھروں کو جانے کی تیّاریاں کرنے لگے۔ مَیں نے سوچا ممکن ہے مسٹر ولسن آ گئے ہوں، وہی اس معاملے میں کوئی مناسب قدم اٹھا سکیں گے، لہٰذا پنجور واپس چلنا چاہیے، چنانچہ پنجور میں رہنے والے مزدوروں کی ایک جماعت کے ساتھ مَیں واپس ہوا اور سورج غروب ہونے کے تھوڑی دیر بعد بستی میں پہنچ گیا۔ مسٹر ولسن کے بنگلے کے سامنے مَردوں، عورتوں اور بچّوں کا ہجوم تھا اور ان میں سے بعض کے رونے کی آوازیں سنائی دیں۔ یہ دیکھ کر میرے ہاتھ پاؤں پُھول گئے اور پہلا خیال دل میں یہی آیا کہ مسٹر ولسن کو کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے۔ مجمع مجھے دیکھ کر کائی کی طرح پھٹ گیا۔ مسٹر ولسن کا اردلی پامت دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے بچّوں کی طرح چلّا چلّا کر رو رہا تھا۔
‘کیا ہوا؟‘ مَیں نے اُسے جھنجھوڑ کَر کَہا: ‘مسٹر ولسن کہاں ہیں؟’
‘انہیں شیر پکڑ کر لے گیا۔‘ پامت نے جواب دیا اور میرا دل جیسے نیچے بیٹھنے لگا۔
‘شیر پکڑ کر لے گیا؟ کہاں؟ کس جگہ۔۔۔’
پامت نے سسکیوں اور آہوں کے درمیان جو لرزہ خیز کہانی مجھے سنائی اُس کا خلاصہ یہ ہے:
مسٹر ولسن اپنی پرانی جیپ گاڑی میں گئے تھے۔ ان کے پاس کوئی بندوق اور پستول نہ تھا۔ شام سے پہلے پنجور کی طرف واپس آ رہے تھے کہ ایک جگہ جیپ خراب ہو گئی۔ انہوں نے اسے ٹھیک کرنے کی بڑی کوشش کی، مگر بے سُود، چنانچہ جیپ وہیں چھوڑ کر پیدل چلے۔ اندھیرا لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا۔ پنجور ابھی پانچ میل دُور تھا کہ یکایک انہوں نے دیکھا ایک شیر ( وہ شیرنی تھی جو اندھیرے کے باعث اردلی کو شیر دکھائی دی) تعاقب میں چلا آتا ہے اور اس پیشتر کے وہ بچاؤ کے لیے کسی درخت پر پناہ لیں، شیر نے جست کی اور مسٹرولسن کو زمین پر گرا دیا اور پھر اردلی نے دیکھا کہ وہ صاحب کو مُنہ میں دبا کر چھلانگیں لگاتا ہوا ایک طرف غائب ہو گیا۔
وہ رات انتہائی ڈراونی اور بھیانک تھی۔ بار بار مسٹر ولسن کا چہرہ میری نظروں کے سامنے گھومتا اور ان کی باتیں یاد کر کے دل اُمڈ اُمڈ آتا۔ گاؤں کے لوگ بھی ان کی موت پر بے حد افسردہ اور خاموش خاموش تھے۔ بچّے سہمے ہوئے، عورتیں لرازاں و ترساں اور مرد حیران پریشان۔ میں علی الصبح اُٹھا، اپنا سامان تیّار کیا۔ گاؤں سے چند ہٹّے کٹّے اور جی دار لوگ جمع کیے اور مسٹر ولسن کی لاش کے بچے کھچے اجزا کی تلاش میں روانہ ہوا۔ رہنمائی کے لیے اردلی پامت کو ساتھ لیا۔ پنجور سے پانچ میل شمال کی جانب ایک جگہ جنگل کے عین وسط میں ان کی جیپ کھڑی دکھائی دی۔ کچھ فاصلے پر شیرنی کے پنجوں کے نشانت بھی واضح تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ خاصی دُور سے جیپ کے تعاقب میں چلی آ رہی تھی اور یہ حرکت شیرنی کی فطرت سے بعید ہے۔ ممکن ہے جیپ خراب نہ ہوتی، تو اسے مسٹر ولسن یا اردلی پر حملہ کرنے کا موقع نہ ملتا، لیکن جب قضا ہی سر پر کھیل رہی ہو، تو ایسے حالات کا پیدا ہو جانا کچھ مشکل نہیں۔ ذرا میری حیرت کا اندازہ کیجیے کہ جب مَیں نے جیپ کا معائنہ کیا، تو اس میں کوئی خرابی نہ تھی وہ فوراً چالو ہو گئی۔
شیرنی نے جس جگہ مسٹر ولسن کو گرایا تھا، وہاں جما ہوا خُون بڑی مقدار میں بکھرا ہوا تھا اور اُن کے کپڑوں کی دھجیاں بھی جابجا پھیلی نظر آئیں۔ یہ منظر اتنا دل دوز تھا کہ مَیں اپنے آنسو ضبط نہ کر سکا اور اردلی پامت کی تو روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔
مسٹر ولسن کی لاش (بشرطیکہ اُسے لاش کہنا درست ہو) ڈھونڈنے میں کچھ زیادہ دقّت نہ ہوئی۔ ایک گھنی جھاڑی کے اندر اُن کی کھوپڑی، ہاتھ پیروں کی انگلیاں، چند پسلیاں، ایک ٹانگ اور آنتیں وغیرہ پڑی نظر آئیں۔ شیرنی غالباً کئی دن کی بُھوکی تھی کہ اُس نے جی بھر کر پیٹ بھرا تھا۔ مَیں نے ان اعضاء کو وہیں رہنے دیا اور اِدھر اُدھر جائزہ لے کر اندازہ کیا کہ کون سی جگہ مناسب ہے جہاں رات کو چُھپ کر مَیں شیرنی کا انتظار کروں۔ یہ تو طے تھا کہ وہ دوبارہ اِدھر ضرور آئے گی۔
تقریباً پچیس فٹ کے فاصلے پر ایک ٹیلا نظر آیا جس کے اِردگرد جھاڑ جھنکاڑ کثرت سے اُگا ہوا تھا۔ یہ ٹیلا بہترین کمین گاہ بن سکتا تھا، چنانچہ مَیں نے اچّھی طرح دیکھ بھال کرنے کے بعد رات اس ٹیلے پر گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ ممکن ہے مَیں ایسی حماقت آمیز جرأت نہ کرتا، لیکن وِلسن کی دردناک موت سے میرے تن بدن میں انتقام کی آگ بھڑک اُٹھی اور مَیں ہر قیمت پر اس شیرنی کو جہنّم واصل کر دینا چاہتا تھا۔ مَیں نے گاؤں والوں کو واپس بھیج دیا اور خود پامت کے ساتھ ٹیلے کے گرد حفاظتی اقدامات کرنے میں مصروف ہو گیا۔ اردگرد سے مزید خاردار جھاڑیاں کاٹ کاٹ کر ٹیلے کے چاروں طرف پھیلائی گئیں تاکہ شیرنی اگر اس پر چڑھنے کی کوشش کرے بھی، تو ناکام رہے۔ اس کام سے فارغ ہو کر مَیں نے شیرنی کے پنجوں کے نشانات تلاش کیے۔ معلوم ہوا کہ اپنا پیٹ بھرنے کے بعد وہ جنگل کے اندرونی حَصّے میں چلی گئی۔ پنجوں کے نشان سیدھ میں چلے گئے تھے۔ پامت نے بتایا کہ دو تین میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی چشمہ ہے اور شیرنی اپنی پیاس بجھانے وہیں گئی ہو گی۔ مَیں نے چشمہ دیکھنے کا ارادہ کیا، تو وہ کچھ پس و پیش کرنے لگا۔ غالباً ڈر رہا تھا، لیکن ہمّت بندھانے پر اور مسٹر ولسن کی سابقہ مہربانیوں کا خیال کر کے آخر چل ہی پڑا، تاہم خوفزدہ ںظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتا جاتا تھا۔ مَیں اُس کے پیچھے پیچھے رائفل سنبھالے جا رہا تھا۔
شیرنی نے چشمے تک پہنچنے کے لیے نہایت چالاکی سے کام لیا تھا۔ وہ سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے چکّر کاٹ کر وہاں تک پہنچی تھی، بہرحال ہم نے بہت جلد چشمہ تلاش کر لیا۔ چشمہ کیا تھا، ایک بلند اور سرسبز پہاڑی ٹیلے کے چند ننّھے سوراخوں سے پانی رِس رِس کر ایک نشیبی گڑھے میں جمع ہوتا جاتا تھا۔ اس گڑھے کے گِرد شیرنی کے علاوہ کئی اور جانوروں کے پیروں کے نشانات بھی دکھائی دیے پانی پینے کے بعد شیرنی نے اپنا رُخ یکایک مشرق کی طرف کر لیا تھا۔ اَب میں نے واپسی کا ارادہ کیا اور مجھے پورا یقین تھا کہ شیرنی اس جنگل میں کہیں موجود ہے اور رات کو لاش پر ضرور آئے گی۔ واپسی میں ہم ایک راستے سے گزرے اور یہاں بھی ہم نے شیرنی کے پنجوں کے نشانات دیکھے۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ شیرنی کو بیک وقت دو مختلف راستوں پر آنے جانے کی کیا ضرورت پیش آئی، لیکن جب غور سے ان نشانوں کو دیکھا، تو حیرت کا ایک نیا باب کھل گیا۔ یہ نشان اُن نشانوں سے مختلف تھے جو مَیں نے مسٹر ولسن کی لاش اور چشمے کے اردگرد دیکھے تھے۔ یکایک خیال آیا کہ یہ اُس کی جڑواں بہن دوسری شیرنی ہو گی۔ گویا وہ دونوں یہاں جمع ہو گئی تھیں۔ ایک بار پھر مَیں ولسن کے بچے کھچے اعضاء کو دیکھنے پہنچا اب وہاں یہ بھی انکشاف ہوا کہ لاش کو دونوں شیرنیوں نے مِل کر کھایا ہے، ورنہ ایک ہی شیرنی خواہ کتنی ہی بھوکی ہو، ساری کی ساری لاش ہڑپ نہ کر سکتی تھی۔
وہ رات مَیں ساری عمر نہ بُھول سکوں گا۔ تاریک جنگل میں اس ٹیلے پر بیٹھا ہوا مَیں سوچ رہا تھا کہ اگر ان آدم خور شیرنیوں کو بچ کر نکل جانے کا موقع مِل گیا، تو اس کے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ بستیاں ویران ہو جائیں گی اور اس علاقے میں آدم زاد ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گا۔ ہر طرف ایک ہولناک سنّاٹا طاری تھا اور کبھی کبھی مغرب کی جانب سے مینڈکوں کے ٹرّانے کی مدّھم آوازیں سنائی دے جاتی تھیں۔ ہوا بند تھی، درختوں کے پتّے ساکن اور شاخیں بے حِس و حرکت تھیں۔ میرے پاس رات کاٹنے کا پورا سامان تھا۔ تمباکو کی تھیلی، پائپ، قہوے سے بھرا ہوا تھرماس، شکاری چاقو، ٹارچ اور طاقتور رائفل۔ وقت کاٹنے کے لیے پائپ بَھرا، لیکن ماچس کی تیلی جلاتے ہوئے ڈر لگتا تھا کہ اس کا شُعلہ روشن ہوتے ہی شیرنیاں اگر قریب ہوئیں، تو راہِ فرار اختیار کریں گی، چنانچہ دم سادھے بیٹھا رہا۔ آسمان پر مطلع صاف تھا اور تارے جِھل مِل کر رہے تھے۔ مَیں نے کلائی موڑ کر گھڑی پر نظر ڈالی، چمکتی ہوئی سوئیوں نے بتایا کہ بارہ بج کر پندرہ منٹ ہوئے ہیں۔ یکایک ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا سرسراتا ہوا میرے پاس سے نِکل گیا اور پھر ایسی آہٹ ہوئی جیسے کوئی جانور دبے پاؤں قریبی جھاڑیوں میں حرکت کر رہا ہے۔
ابتدا میں یوں محسوس ہوا جیسے یہ آواز دائیں جانب سے آئی، پھر بائیں جانب سے میرے حواس پوری طرح بیدار تھے اور اعصاب چاق چوبند۔ رائفل سختی سے تھام کر مَیں نے سر ذرا اُوپر اٹھایا اور اردگرد دیکھا۔ آواز چند لمحے تک رُکی رہی اور پھر وہی کھڑبڑ۔۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ یک لخت مَیں نے تاروں کی مدّھم روشنی میں دیکھا کہ وہ دونوں شیرنیاں دائیں بائیں سے نکلیں اور مسٹر ولسن کے اعضاء کی طرف بڑھیں۔ ان کا قد و قامت ایک جیسا تھا۔ پھر ہڈیاں چٹخنے اور گوشت چبانے کی آواز سنائی دی۔ اَب میں نے ٹارچ کا بٹن دبایا اور اس کے ساتھ میری رائفل سے یکے بعد دیگرے دو گولیاں نکلیں۔ خدا کی پناہ۔۔۔ فائروں کے دھماکے، شیرنیوں کی گرج، جنگلی پرندوں اور جانوروں کی آوازوں سے گویا حشر برپا ہو گیا۔ چند لمحے تک ان بھیانک آوازوں سے جنگل کی فضا لرزتی رہی، پھر حسب معمول خاموشی چھا گئی۔ مَیں نے ٹارچ کی روشنی جھاڑیوں پر ڈالی اور دیکھ کر مسّرت کی انتہا نہ رہی کہ گولیاں نشانے پر بیٹھی تھیں اور شیرنیوں کے بھیجے اڑ گئے تھے اور اس طرح کیجال کی ان دو آدم خور شیرنیوں کا قصہ پاک ہوا۔