ہوں جب سے میں چاہت میں گرفتار وغیرہ

عاطف بٹ

محفلین
ہوں جب سے میں چاہت میں گرفتار وغیرہ
بھاتے نہیں دروازہ و دیوار وغیرہ

وحشت کا یہ عالم ہے کہ اب تو مجھے اکثر
لگتے ہیں برے اپنے ہی گھر بار وغیرہ

ہر بزم ترے نام سے موسوم رہی ہے
دیں گے یہ گواہی بھی مرے یار وغیرہ

میں دور کھڑا دیکھ رہا ہوں یہ تماشا
محفل میں تری بیٹھے ہیں اغیار وغیرہ

میں ماننے والا ہوں حسین ابنِ علی کا
خاطر میں کہاں لاتا ہوں دربار وغیرہ

پہچان مری ایک سی رہتی ہے ہمیشہ
گفتار وغیرہ ہو کہ کردار وغیرہ

یا رب! وہ چلے آتے ہیں شمشیر بکف کیوں
اچھے نہیں لگتے ہیں کچھ اطوار وغیرہ

ہر روپ میں وہ شوخ نرالا ہے جہاں سے
لگتی ہے مری جاں گل و گلزار وغیرہ

اس عشق کی بازی میں سبھی جان سے ہارے
فرہاد ہو یا عاطفِ بیمار وغیرہ​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔
اگرچہ اصلاح کے تحت تو نہیں ہے، لیکن ’ہوں کرتا‘ پر نا پسندیدیگی کا اظہار تو کر ہی دوں۔ اس کی جگہ ’رہی ہے‘ کر دیا جائے تو بھی مفہوم میں فرق نہیں پڑتا۔
 

تلمیذ

لائبریرین
پہلی مرتبہ آپ کی غزل نظر سے گزری ہے اور تعریف کرنے پر دل کرتا ہے۔ ماشاء اللہ، عروض پر آپ کی خوب دسترس ہے۔ اپنے کلام سے مستفیدکرتے رہا کریں۔
براہ کرم ایک ٹائپو درست کر لیں: ’میں ماننے والا ہوں حسین ابنِ علی کے‘
کے ‘کو’کا کرلیں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔
اگرچہ اصلاح کے تحت تو نہیں ہے، لیکن ’ہوں کرتا‘ پر نا پسندیدیگی کا اظہار تو کر ہی دوں۔ اس کی جگہ ’رہی ہے‘ کر دیا جائے تو بھی مفہوم میں فرق نہیں پڑتا۔
سر، بےحد شکریہ۔ ’رہی ہے‘ ہوگیا! :)
 

عاطف بٹ

محفلین
پہلی مرتبہ آپ کی غزل نظر سے گزری ہے اور تعریف کرنے پر دل کرتا ہے۔ ماشاء اللہ، عروض پر آپ کی خوب دسترس ہے۔ اپنے کلام سے مستفیدکرتے رہا کریں۔
براہ کرم ایک ٹائپو درست کر لیں: ’میں ماننے والا ہوں حسین ابنِ علی کے‘
کے ‘کو’کا کرلیں۔
سر، بہت شکریہ۔ تدوین کردی ہے میں نے۔ :)
 
Top