ہوں میں کل سنسار سے اوبا ہوا

میم الف

محفلین
ہوں میں کل سنسار سے اوبا ہوا
اور اپنے آپ میں ڈوبا ہوا

ہو گئی تقدیر آخر کامیاب
اپنا ہر ناکام منصوبا ہوا

تو محب اپنا ہوا نہ ایک دل
میں ترا سارا ہی محبوبا ہوا

جب ہوئی ہم کو طلب تیری ہوئی
جب ہوا تب تو ہی مطلوبا ہوا

اِس طرح سے ہو گیا تن خشک تر
جس طرح پنجاب کا صوبا ہوا

میں ہوا یعنی کہ ناممکن ہوا
میں مٹا یعنی کہ اعجوبا ہوا

ہر نگر اپنے لیے جنت ہوا
ہر شجر اپنے لیے طوبا ہوا

جس پہ غالب ہو گئی دنیا کی فکر
آخرش فکروں کا ملغوبا ہوا

میم ہے کوئی نہ کوئی ہے الف
اِس تخلص سے بھی ہوں اوبا ہوا​
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ہوں میں کل سنسار سے اوبا ہوا
اور اپنے آپ میں ڈوبا ہوا

ہو گئی تقدیر آخر کامیاب
اپنا ہر ناکام منصوبا ہوا

تو محب اپنا ہوا نہ ایک دل
میں ترا سارا ہی محبوبا ہوا

جب ہوئی ہم کو طلب تیری ہوئی
جب ہوا تب تو ہی مطلوبا ہوا

اِس طرح سے ہو گیا تن خشک تر
جس طرح پنجاب کا صوبا ہوا

میں ہوا یعنی کہ ناممکن ہوا
میں مٹا یعنی کہ اعجوبا ہوا

ہر نگر اپنے لیے جنت ہوا
ہر شجر اپنے لیے طوبا ہوا

جس پہ غالب ہو گئی دنیا کی فکر
آخرش فکروں کا ملغوبا ہوا

میم ہے کوئی نہ کوئی ہے الف
اِس تخلص سے بھی ہوں اوبا ہوا
عمدہ غزل ہے منیب بھائی۔
جیتے رہیئے۔ آمین۔
 

یاسر شاہ

محفلین
میں ہوا یعنی کہ ناممکن ہوا
میں مٹا یعنی کہ اعجوبا ہوا



جس پہ غالب ہو گئی دنیا کی فکر
آخرش فکروں کا ملغوبا ہوا
واہ۔کیا کہنے۔
تو محب اپنا ہوا نہ ایک دل
میں ترا سارا ہی محبوبا ہوا
یہاں درست اردو یہ ہو گی:
میں تری ساری ہی محبوبہ ہوئی

فی الحال جب تک گال فارغ البال ہیں مصرع سوٹ کرے گا۔اور جہاں تک سوال ہے ردیف بدلنے کا تو فیشن کہہ دیجیے گا۔آخر جینز کے گھٹنے میں بھی تو پیوند لگتا ہے۔😊
 

میم الف

محفلین
یہاں درست اردو یہ ہو گی:
میں تری ساری ہی محبوبہ ہوئی

فی الحال جب تک گال فارغ البال ہیں مصرع سوٹ کرے گا۔اور جہاں تک سوال ہے ردیف بدلنے کا تو فیشن کہہ دیجیے گا۔آخر جینز کے گھٹنے میں بھی تو پیوند لگتا ہے۔😊
اچھی بات ہے راشدی صاحب کہ آپ ہماری اردو کی تصحیح فرماتے رہتے ہیں
اس سے ہمیں بھی وضاحت کا موقع مل جاتا ہے
اصل میں اس شعر میں جو محبوبا ہے، وہ عربی کا مؤنث محبوبہ نہیں ہے، فارسی کا ندائیہ محبوبا ہے۔
جیسے واعظا، ناصحا، دلا
اسی طرح محبوبا یعنی اے محبوب!
لہذا شعر کی نثری حالت کچھ یوں ہے:
کہ اے محبوب! تو مرا محب ایک دل نہ ہوا جبکہ میں ترا کل کا کل (محب) ہوا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
اچھی بات ہے راشدی صاحب کہ آپ ہماری اردو کی تصحیح فرماتے رہتے ہیں
اس سے ہمیں بھی وضاحت کا موقع مل جاتا ہے
اصل میں اس شعر میں جو محبوبا ہے، وہ عربی کا مؤنث محبوبہ نہیں ہے، فارسی کا ندائیہ محبوبا ہے۔
جیسے واعظا، ناصحا، دلا
اسی طرح محبوبا یعنی اے محبوب!
لہذا شعر کی نثری حالت کچھ یوں ہے:
کہ اے محبوب! تو مرا محب ایک دل نہ ہوا جبکہ میں ترا کل کا کل (محب) ہوا۔
آپ کی رسیلی باتیں پڑھ پڑھ کر دن بدن آپ سے ملاقات کا اشتیاق بڑھ رہا ہے۔
 

میم الف

محفلین

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
Top