شفیق خلش ::::::ہو خیال ایسا جس میں دَم خَم ہو:::::: Shafiq-Khalish

طارق شاہ

محفلین

1.jpg

غزل
ہو خیال ایسا جس میں دَم خَم ہو
شاید اُس محوِیّت سے غم کم ہو

پھر بہار آئے میرے کانوں پر!
پھر سے پائل کی اِن میں چھم چھم ہو

اب میسّر کہاں سہولت وہ !
اُن کو دیکھا اور اپنا غم کم ہو

ہاتھ چھوڑے بھی اِک زمانہ ہُوا
اُس کی دُوری کا کچھ تو کم غم ہو

مِلنےآتے بھی ہیں، تو ایسے خلشؔ!
جیسے، دِل اُن کا مائلِ رم ہو

شفیق خلشؔ
 

طارق شاہ

محفلین
غزل
ہو خیال ایسا جس میں دَم خَم ہو
شاید اُس محوِیّت سے غم کم ہو

ہُوں مَرِیض ایسا جو لَبِ دم ہو
اذّیتِ فُرق تو، ذرا کم ہو

پھر بہار آئے میرے کانوں پر
پھر سے پائل کی اِن میں چھم چھم ہو

اب میسّر کہاں سہُولت وہ !
اُن کو دیکھا اور اپنا غم کم ہو

کب ملاقات اب وہ پہلی سی
ذکر تک اپنا اُن سے کم کم ہو

ہاتھ چھوڑے بھی اِک زمانہ ہُوا
اُس کی دُوری کا کچھ تو کم غم ہو

کھول لیتے ہیں در ہر آہٹ پر
سوچ کر یہ، کہِیں نہ ہمدم ہو

پیش رُو جائیں گے خلشؔ، لیکن!
کُچھ تو آنکھوں سے اپنی نم کم ہو

مِلنے آتے بھی ہیں تو ایسے خلؔش!
جیسے دِل اُن کا مائلِ رم ہو

شفیق خلؔش
 
Top