ہو کوئی تدبیر، خوئے یار سمجھیے

La Alma

لائبریرین
ہو کوئی تدبیر، خوئے یار سمجھیے
گر نہ سمجھ آئے، بار بار سمجھیے

یہ دلِ صد ناز، تار تار سمجھیے
راہِ محبت ہے خاردار، سمجھیے!

بسکہ ہیں نادان ہم، جو کچھ بھی نہ سمجھے
آپ ذرا ٹھہرے ہوشیار، سمجھیے!

آتشِ نوکِ قلم سے ہیں سیہ اوراق
خامہ سمجھیے، کہ اب شرار سمجھیے

کھل نہ سکا ہم پہ رازِ عالمِ ہستی
فہم ہے دشوار، گو ہزار سمجھیے

دُھن کبھی چھیڑے گا کوئی بربطِ دل پر
آپ ہمیں محوِ انتظار سمجھیے

آج ہے عکسِ حیات، کل نہیں ہو گا
آئنہء جاں کو مستعار سمجھیے
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب! اچھی غزل ہے المیٰ صاحبہ!
مشکل زمین میں کئی اچھے اشعار نکالے ہیں آپ نے!!
میری ناقص رائے میں دوتین مقامات پر یوں لگا کہ یہاں مزید توجہ کی ضرورت تھی ۔
مطلع کے مصرع ثانی میں سمجھ آنا درست استعمال نہیں ہوا ۔ کسی بات یا شے کا سمجھ آنا نہیں بلکہ سمجھ میں آنا فصیح ہے ۔ "سمجھ آنا" عقل آنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔
رازِ عالمِ ہستی والا شعر اچھا ہے لیکن اس کے مصرع ثانی میں گر کا نہیں بلکہ اگرچہ کا محل ہے ۔ گر کی جگہ گو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
کھل نہ سکا ہم پہ رازِ عالمِ ہستی
فہم ہے دشوار، گو ہزار سمجھیے
مقطع بہت خوب ہے ۔ اگر تخلص کی جگہ "ہوگا" لکھیں تو شعر کا معیار بہت بلند ہوجائے گا۔ اگر ضروری ہی ہے تو اس کے بجائے کسی اور شعر کو مقطع بنایا جاسکتا ہے ۔
آج ہے عکسِ حیات ، کل نہیں ہوگا
آئنۂ جاں کو مستعار سمجھیے
آتشِ نوکِ قلم والے شعر کا خیال بہت اعلیٰ ہے اور اچھا نظم کیا ہے لیکن بھلے کا لفظ اس شعر کے شایانِ شان نہیں ۔ عوامی ہے ۔ بھلے کے بجائے "کہ اب" رکھ کر دیکھئے ۔
آتشِ نوکِ قلم سے ہیں سیہ اوراق
خامہ سمجھیے کہ اب شرار سمجھیے
 

La Alma

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب! اچھی غزل ہے ہ
آپ کا خاص طور پر شکریہ کہ آپ نہ صرف تبصرہ فرماتے ہیں بلکہ اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتے ہیں۔یقینا آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔
مطلع کے مصرع ثانی میں سمجھ آنا درست استعمال نہیں ہوا ۔ کسی بات یا شے کا سمجھ آنا نہیں بلکہ سمجھ میں آنا فصیح ہے

گر نہ سمجھ آئے، بار بار سمجھیے”

اس مصرعے کے متعلق آپ کی بات پہلے تو “سمجھ نہیں آئی” لیکن بار بار سمجھنے پر “سمجھ میں آگئی”۔:)
محاورے کی رو سے یہ واقعی فصیح نہیں لیکن روزمرہ بول چال کے لحاظ سے مدعا تو بیان ہو رہا ہے۔ اتنی شعری رعایت تو دے دیجئے۔
۔ گر کی جگہ گو استعمال کیا جاسکتا ہے
درست! “گو “ کا ہی محل ہے۔غیر ارادی طور پر “گر “ لکھ دیا
مقطع بہت خوب ہے ۔ اگر تخلص کی جگہ "ہوگا" لکھیں تو شعر کا معیار بہت بلند ہوجائے گا۔ اگر ضروری ہی ہے تو اس کے بجائے کسی اور شعر کو مقطع بنایا جاسکتا ہے ۔
آج ہے عکسِ حیات ، کل نہیں ہوگا
آئنۂ جاں کو مستعار سمجھیے
جیسے ہم کہیں، زندگی کا کیا اعتبار ہے یہ “آج ہے کل نہیں” یہ اسی تناظر میں کہاتھا۔ لیکن شاید تعقید کی وجہ سے زیادہ واضح نہیں ہو پایا۔ آپ کی تجویز بجاہے۔
بھلے کے بجائے "کہ اب" رکھ کر دیکھئے
یہ زیادہ بہتر ہے ۔ بہت شکریہ۔
 

La Alma

لائبریرین
واہ المی ماشاء اللہ بہت اچھی غزل ہے، ظہیراحمدظہیر کے مشورے صائب ہیں
سر، پسندیدگی کے لیے بہت شکر گزار ہوں۔ جزاک اللہ
اصلاح کے ضمن میں آپ سب کی تجاویز میرے لیے نہایت قیمتی ہیں۔ زمرہ چونکہ پابند بحور شاعری کا ہے، اس لیے میں نے اصل مراسلے میں ہی ترمیم کردی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
غزل تو اچھی کہی لاالمی بہن آپ نے ۔ (ہمیشہ کی طرح )
لیکن بھئی یہ بحر کون سی ہے اور اس کے اجزاء و افاعیل وغیرہ کیا ہیں ۔
کیا اس میں کوئی اور معروف غزلیات بھی ہیں ؟ متقدمین متاخرین میں سے ۔
 

La Alma

لائبریرین
غزل تو اچھی کہی لاالمی بہن آپ نے ۔ (ہمیشہ کی طرح )
لیکن بھئی یہ بحر کون سی ہے اور اس کے اجزاء و افاعیل وغیرہ کیا ہیں ۔
کیا اس میں کوئی اور معروف غزلیات بھی ہیں ؟ متقدمین متاخرین میں سے ۔

بحر ہے
منسرح مثمن مطوی منحور

مفتَعِلن فاعلاتُ مفتَعِلن فِع
غالب کی ایک یہ غزل سرچ کرنے پر ملی ہے۔
آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے - مرزا اسد اللہ خان غالب - منسرح مثمن مطوی منحور - غزل
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گر نہ سمجھ آئے، بار بار سمجھیے”
اس مصرعے کے متعلق آپ کی بات پہلے تو “سمجھ نہیں آئی” لیکن بار بار سمجھنے پر “سمجھ میں آگئی”۔:)
محاورے کی رو سے یہ واقعی فصیح نہیں لیکن روزمرہ بول چال کے لحاظ سے مدعا تو بیان ہو رہا ہے۔ اتنی شعری رعایت تو دے دیجئے۔
اجی رعایت ہی رعایت ہے ، کوئی پابندی نہیں ۔ جس طرح چاہے لکھئے ۔زبان لچکدار شے ہے ، آہستہ آہستہ شکل بدلتی رہتی ہے ۔ اپنے آپ کو بولنے والوں میں ڈھال لیتی ہے ۔ :):):)
"بات سمجھ آنا" اہلِ پنجاب کا محاورہ ہے اوربوجوہ بہت وسیع پیمانے پرمستعمل ہوچکا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ ایک دو نسلوں بعد یہی باقی رہ جائے اور "بات سمجھ میں آنا" معدوم ہوجائے ۔ آپ کی زبان بیشک بہت اچھی ہے ، سینکڑوں غزلوں سے بہتر ہے کہ جو انٹر نیٹ پر عام نظر آتی ہیں ۔ میں تو ویسے ہی افادۂ عام کی خاطر ایک دو نکات لکھ ڈالتا ہوں ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اجی رعایت ہی رعایت ہے ، کوئی پابندی نہیں ۔ جس طرح چاہے لکھئے ۔زبان لچکدار شے ہے ، آہستہ آہستہ شکل بدلتی رہتی ہے ۔ اپنے آپ کو بولنے والوں میں ڈھال لیتی ہے ۔ :):):)
"بات سمجھ آنا" اہلِ پنجاب کا محاورہ ہے اوربوجوہ بہت وسیع پیمانے پرمستعمل ہوچکا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ ایک دو نسلوں بعد یہی باقی رہ جائے اور "بات سمجھ میں آنا" معدوم ہوجائے ۔ آپ کی زبان بیشک بہت اچھی ہے ، سینکڑوں غزلوں سے بہتر ہے کہ جو انٹر نیٹ پر عام نظر آتی ہیں ۔ میں تو ویسے ہی افادۂ عام کی خاطر ایک دو نکات لکھ ڈالتا ہوں ۔
ویسے ایک محاورہ سمجھ لگنا بھی ہے ۔ :LOL:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
غزل تو اچھی کہی لاالمی بہن آپ نے ۔ (ہمیشہ کی طرح )
لیکن بھئی یہ بحر کون سی ہے اور اس کے اجزاء و افاعیل وغیرہ کیا ہیں ۔
کیا اس میں کوئی اور معروف غزلیات بھی ہیں ؟ متقدمین متاخرین میں سے ۔
عاطف بھائی ، اردو میں یہ وزن بہت ہی قلیل الاستعمال رہا ہے ۔ عروض کی کتابوں میں متقدمین کے کچھ اشعار اس بحر کے ذیل میں ملتے ہیں ۔ ان اشعار کی کھوج کی جائے تو شاید پوری غزلیں بھی مل جائیں ۔ انشاء کی ایک غزل عبدالغنی رامپوری صاحب نے مذکور کی ہے جس کے کچھ اشعار یہ ہیں ۔
کوئی نہیں آس پاس ، خوف نہیں کچھ
ہوتے ہو کیوں بے حواس ، خوف نہیں کچھ
یہ نہیں فتنے کا عطر جس سے کہ ڈر ہو
آتی ہے پھولوں کی باس ، خوف نہیں کچھ
کچھ یہ نہیں چوکیدار ، جس سے جھجک ہو
ٹیلہ ہے ، اُس پہ گھاس ، خوف نہیں کچھ

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انشاء صاحب آخر یہ کس کو دلاسے دے رہے ہیں اور ان کے ارادے کیا ہیں ؟!
 

عاطف ملک

محفلین
ہم نے تو بحر سمجھتے سمجھتے ہی پوری غزل پڑھ ڈالی:LOL:
عمدہ غزل ہے۔بالخصوص یہ اشعار بہت اچھے لگے۔
آتشِ نوکِ قلم سے ہیں سیہ اوراق
خامہ سمجھیے، کہ اب شرار سمجھیے

دُھن کبھی چھیڑے گا کوئی بربطِ دل پر
آپ ہمیں محوِ انتظار سمجھیے

آج ہے عکسِ حیات، کل نہیں ہو گا
آئنہء جاں کو مستعار سمجھیے
بہت سی داد:)
 

La Alma

لائبریرین
ہم نے تو بحر سمجھتے سمجھتے ہی پوری غزل پڑھ ڈالی:LOL:
عمدہ غزل ہے۔بالخصوص یہ اشعار بہت اچھے لگے۔





بہت سی داد:)
بہت شکریہ!
ہم نے بھی اسی لیے اس بحر کا انتخاب کیا ہے کہ کوئی اور کچھ سمجھے یا نہ سمجھے، بحر ہی سمجھے۔:)
 

La Alma

لائبریرین
سمجھیے کا تلفظ فعولن کے وزن پر ہے اور سمجھیے کا وزن فاعلن کے طور پر بھی ہوتا ہے. دونوں طرز سے جائز ہے؟
نور وجدان، صحیح رہنمائی تو اساتذہ کرام ہی کر سکتے ہیں لیکن گمان غالب یہی ہے کہ درست تلفظ فعولن کے وزن پر ہی ہے۔ شاید فاعلن کے وزن پر بھی مستعمل ہو کیونکہ عروض ڈاٹ کام اس املاء کے ساتھ بر وزن فاعلن ہی بتا رہا ہے۔ اس سےپہلے میں نے اپنی کسی غزل میں “سمجھیے “ کو فاعلن کے وزن پر برتا تھا جسے سرالف عین نے نا درست قرار دیا تھا۔
درج ذیل مثالوں میں بھی لفظ “ سمجھیے” فعولن کے وزن پر ہی باندھا گیا ہے۔
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
غالب

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجیے پھر سمجھیے، زندگی کیا چیز ہے
ندا فاضلی
 
Top