ہو کوئی محفل میں مجھ جیسا تو دکھلانا مجھے

احباب آج ایک گفتگو کے دوران ایک شعر فی البدیہہ ہوا تھا، جس کا تعلق شائد تحت الشعور سے تھا ۔ بہرحال اس کے بعد چند اشعار اور ہوئے ہیں۔ دیکھیں شائد کسی قابل ہوں۔۔

کہنے کو تو لاکھ کہہ دے کوئی دیوانہ مجھے
ہو کوئی محفل میں مجھ جیسا تو دکھلانا مجھے !

پھر تو کہہ دیں شوق سے وہ ننگِ میخانہ مجھے
گر نہ پائیں عارفِ افکارِ رندانہ مجھے

بے سبب دیتے نہیں بھر بھر کے پیمانہ مجھے
ان کو ہے منظور شائد اور بہکانا مجھے

بھولنا ہے تم کو کیسے یہ نہ سمجھانا مجھے
تم سے خود ہی ہو سکے تو یاد مت آنا مجھے

گرمیِ فریاد سے ہے خاک آئینہ صفات
اب برابر کا ہی سمجھے آئینہ خانہ مجھے

کس کو ہے ادراکِ نشہ؟ آزمانا ہو اگر!
سارا میخانہ انہیں دو، ایک پیمانہ مجھے!

ہائے میری ناتوانی اور صحرا عشق کا
راس آیا اشک پینا اور غم کھانا مجھے​
 
آخری تدوین:
مصرع سازی تو کوئی آپ سے سیکھے۔ اتنے چست مصرعے ہیں کہ رشک آتا ہے!
بہت عمدہ۔ ہمیں پتا نہیں تھا کہ آپ اپنے تنقیدی آدرش کے ساتھ اتنے وفادار ہیں۔ دل خوش کر دیا ٹوٹے ہوئے دل کی آواز نے۔
 
مصرع سازی تو کوئی آپ سے سیکھے۔ اتنے چست مصرعے ہیں کہ رشک آتا ہے!
بہت عمدہ۔ ہمیں پتا نہیں تھا کہ آپ اپنے تنقیدی آدرش کے ساتھ اتنے وفادار ہیں۔ دل خوش کر دیا ٹوٹے ہوئے دل کی آواز نے۔

بہت شکریہ راحیل بھائی،
آپ نے پسند فرمایا محنت سوارت ہوئی۔
 
ایک پیمانہ انہیں دو، سارا میخانہ مجھے;)

جی ہاں خالد محمود چوہدری بھائی، خمریات کی روائت
تو یہی ہے کہ ظرف کی آزمائش کے لیے کثرتِ مئے کا تذکرہ ہو ۔
مگر یہاں میں نے قدرے مختلف مضمون باندھنے کی کوشش کی ہے ۔ کہ ہم قطرے سے دریا کشید کر لیتے ہیں ۔
 
Top