ہو کے ہم با ہوش دھوکا کھاگئے۔ ایک غزل محفل کی نذر از: بسمؔل

غزل
(مزمل شیخ بسؔمل)
ہنس کے اتنے پھول وہ برسا گئے
میرے آنسو اپنی قیمت پا گئے
دل میں وہ اک آگ سی بھڑکا گئے
ہے وظیفہ اب یہی وہ آ گئے
اپنے غم دیکر مجھے وہ کیا گئے
میرے مہماں اور مجھ کو کھا گئے
کم سنی میں مجھ کو ان سے دکھ نہ تھا
پھٹ پڑے ، ہو کر جواں اترا گئے
ان سے چٹم چوٹ کچھ مہنگی نہ تھی
دوستی کرکے تو ہم اکتا گئے
کیا کشش تھی انکی ہر اک بات میں
ہو کے ہم با ہوش دھوکا کھاگئے
کوئی تو دیکھے مری بیچارگی
ظلم وہ اس جاں پے کتنے ڈھا گئے
مجھ کو ہر شے میں وہی آئے نظر
کائناتِ زندگی پر چھا گئے
مر کے بسمؔل کو ملی کامل حیات
قبر پر ٹسوے بہانے آگئے
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہ
مر کے بسمؔل کو ملی کامل حیات
قبر پر ٹسوے بہانے آگئے
کیا خوب استعمال کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ڈن۔۔ اینڈ بہنوں کو نو تھینکس

نہیں تھینکس تو بنتا ہے نا.
اتنی اچھی بہنیں ملتی کہاں ہیں جو بغیر کہے کام کردیا کریں :)

ویسے تو یہ بھی زبردست ہے جناب

بھیا میں تو آوارہ شاعر ہوں. آپ کا حسن نظر کہ آپ کو زبردست لگا وہ. :)
طریقہ لفظ کچھ واضح نہیں تھا کے مراد کیا ہے :)
 
Top