ہو گیا مانند ِ آب ارزاں مسلماں کا لہو

ایک تصویر نے بوسنیا کے مظلوم شہیدوں کی پھر یاد تازہ کر دی ہے۔ یہ ان 66 بوسنوی، مسلمان مردوں اور لڑکوں کے تابوتوں کی تصویر ہے، جن کے لاشے دریا سے نکلے ہیں، تصویر میں ایک با حجاب مسلم خاتون اپنے کسی پیارے کے تابوت کے پاس بیٹھی روتے ہوئے اسے چھو رہی ہے۔ مسلح سرب مسیحی درندوں نے 20 برس پہلے ان بے گناہ نہتے مسلمانوں کو صرف اس لئے شہید کر کے دریائے ڈرینا میں ڈمپ کر دیا تھا کہ وہ اسلام کے نام لیوا تھے۔ وزی گراڈ نامی قصبے کے ان شہداء کو سوگوار مسلمانوں نے گزشتہ ماہ مقامی قبرستان میں دفن کر دیا۔ جب جنازوں کا جلوس وزی گراڈ میں سے گزرا تو قصبے پر قابض سرب درندے چہروں پر آثار جرم لئے انہیں دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے بیشتر وہ مجرم تھے جنہوں نے وزی گراڈ کے قتل عام میں پورا پورا حصہ لیا تھا۔ یاد رہے دریائے ڈرینا سربیا اور موجودہ نام نہاد ’’سرب جمہوریہ‘‘ (سرپسکا ری پبلیکا) کی سرحد بناتا ہوا شمال میں دریائے ساوا سے جا ملتا ہے، جو دریائے ڈینیوب کا معاون دریا ہے۔ ’’سرپسکا ری پبلیکا‘‘ مشرقی اور شمال مغربی بوسنیا پر مشتمل ہے، نیٹو کے صلیبی چودھریوں نے پہلے ساڑھے تین سال (1992-95ئ) تک سرتاپا مسلح وحشی سربوں کو نہتے بوسنوی مسلمانوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی دی۔ اسلام دشمن برطانوی وزیراعظم جان میجر نے درندہ صفت بوسنوی سربوں کو اشارہ کر دیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ بوسنوی مسلمانوں کا صفایا کر دو تاکہ جزیرہ نما بلقان کے اندر البانیہ کے علاوہ ایک اور مسلم اکثریتی ریاست نہ ابھرنے پائے۔بوسنیا کے ریفرنڈم برائے آزادی (فروری 1992ئ) تک بوسنیا کی مسلم آبادی 50 فیصد کے لگ بھگ تھی جبکہ سرب اور کروٹ مسیحی مل کر 48.5 فیصد تھے لیکن ساڑھے تین سال کی مسلم کشی کے بعد جب فریقین میں نام نہاد ڈیٹن امن معاہدہ ہوا تو مسلم آبادی کم ہو کر 38 فیصد ہو چکی تھی گویا وحشی صلیبیوں نے تقریباً پانچ لاکھ مسلمان شہید کر دیئے تھے۔ مزید ظلم یہ ہوا کہ سربوں کی 31.5 فیصد آبادی ہونے کے باوجود انہیں ڈیٹن معاہدہ میں مفتوحہ علاقوں سمیت 49 فیصد رقبہ بخش دیا گیا جبکہ مسلمانوں اور کروٹ کیتھولک عیسائیوں کو وفاق بوسنیا (رقبہ 51 فیصد) میں جمع کر دیا گیا، پھر اس وفاق اور سرب جمہوریہ کو ایک ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن میں کس دیا گیا جس کی صدارت ایک ایک سال کے لئے باری باری مسلمان، کروٹ عیسائی اور سرب عیسائی کے حصے میں آتی ہے، مغربی صلیبیوں کی اس ابلیسی چال کی جتنی بھی مذمت کی جائے ، کم ہے۔
سربوں نے جس خونخوار، فوجی کمانڈر کی قیادت میں لاکھوں بوسنوی مسلمانوں کا قتل عام کیا، اس درندے کا نام راتکو ملاڈک ہے۔ 12مئی 1992ء کو خود ساختہ ’’سربین ری پبلک آف بوسنیا اینڈ ہرسیگوینا‘‘ کے صدر راڈوان کراجک نے نام نہاد سرب اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ ’’سربیا کے ساتھ زمینی رابطے کے لئے سرائیوو شہر (بوسنیا کے دارالحکومت) کو تقسیم کر کے اسے دیگر نسلی گروہوں (مسلمانوں)سے پاک کر دیا جائے‘‘ تو ملادک نے یہ کہہ کر اپنے خونیں ارادے کا اظہار کیا تھا کہ ’’اس کے لئے میری فوج کو ان کی نسل کشی کرنی ہو گی‘‘۔ اور پھر واقعی اگلے تین چار برسوں میں سربیا کی بھرپور مدد سے بوسنوی سربوں نے بوسنوی مسلمانوں کی ایک نسل شہید کر ڈالی جبکہ موستار کے علاقے میں یہی کام کروٹ عیسائیوں نے انجام دیا۔ 11جولائی 1995ء کو محصور سربرینیکا شہر کے آٹھ ہزار مسلم مرد اور لڑکے اس قافلے سے الگ کر کے وحشیانہ طور پر شہید کر دیئے گئے جو رات کی تاریکی میں پناہ کی تلاش میں نکلا تھا۔ ایسا ہی خونیں ڈرامہ 19 جولائی کو زیپا شہر میں دہرایا گیا اور آج ان دونوں شہروں میں مسلمانوں کے بجائے سرب درندے بستے ہیں۔ اس ظلم و وحشت کو تاریخ ’سربریت‘ کا نام دے گی۔ راتکو ملاڈک نے 11جولائی کو اپنی فوج کو پیغام دیا تھا۔ آج میں سربرینیکا سرب قوم کو سلام پیش کرتا ہوں، ترک (بوسنوی مسلمان) جو اس علاقے میں رہتے ہیں، ان سے انتقام لینے کا وقت آ گیا ہے‘‘۔
آج برسوں بعد کراجک اور ملاڈک، انٹرنیشنل کریمنل ٹربیونل (ہیگ) میں اپنے جرائم کی سزا بھگتنے کوپیش ہوئے ہیں۔ ملاڈک 16 سال تک پہلے سرپسکا ری پبلیکا اور پھر سربیا میں چھپا رہا۔ گزشتہ سال حکومت سربیا نے عالمی دبائو پر ملاڈک کو اس کے عم زاد کے مکان سے گرفتار کر کے عالمی ٹربیونل کے حوالے کر دیا۔ گرفتاری کے وقت وہ اپنے عم زاد کے سؤر چرانے نکلا تھا۔ سرب عیسائیوں کی اکثریت ملاڈک اور کراجک دونوں کو اپنے ہیرو سمجھتی ہے۔ چند سال پہلے ڈاکٹر (سائیکٹرسٹ) راڈوان کراجک بھی سربیا کے ایک گائوں سے گرفتار ہوا تھا۔ اس درندے کے حکم پر 6 اپریل 1992ء کو سرائیوو کا خونیں محاصرہ (جدید تاریخ میں طویل ترین) شروع ہوا تھا جس میں اندھا دھند بمباری سے ہزاروں مسلمان شہری شہید کر دیئے گئے۔ گزشتہ 6 اپریل کو اس قتل عام کی بیسویں برسی تھی۔ اس روز سرائیوو کی بڑی شاہراہوں پر 11541 سرخ کرسیاں لگائی گئیں۔ ہر کرسی ایک شہید بوسنوی مسلمان کے نام پر تھی۔ 1000 کرسیاں ننھے شہداء کے نام پر تھیں۔
نیٹو کے شاطروں نے کیا ظلم کیا کہ بچے کھچے بوسنوی مسلمانوں کو ظالم سربوں کے ساتھ ایک بے جوڑ سیاسی نظام میں باندھ دیا، تاکہ کٹے پھٹے تقسیم شدہ بوسنیا و ہرسیگوینا میں بھی مسلم اکثریتی ریاست نہ بننے پائے۔ ادھر سربوں کی مکاری دیکھیے کہ 6 اپریل کی تقریب کے موقع پر سرپسکا ری پبلیکا کے صدر میلوارڈ ڈوڈک نے ٹی وی پر انتہائی بے شرمی سے اعلان کیا کہ ’’سرائیوو کا کبھی محاصرہ نہیں ہوا، اس تاریخ کو تو سرائیوو سے سربوں کا صفایا کرنے کا آغاز ہوا تھا‘‘۔ صدر ڈوڈک انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے سربرینیکا وغیرہ میں مسلمانوں کے قتل عام کا بھی منکر ہے۔ وہ سرب جنگی مجرموں راڈوان کراجک اور اس کے نائب بلحانا پلافسک کو سراہتا ہے اور بوسنیا کے موجودہ ڈھانچے کو توڑ دینے کا خواہش مند ہے۔ ادھر یورپی یونین کے گرگے اس درندے کی بلائیں لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سرپسکا ری پبلیکا اور بوسنیا کو ’’ترقی کی معراج‘‘ پر لے جائے گا جس کی ایک مثال سربرینیکا ہے، وہاں میونسپل انتخابات کے لئے جتنے مسلم ووٹ درج ہیں، ان سے کہیں زیادہ قریبی گائوں پوٹو کاری میں شہدائے سربرینیکا کی قبریں ہیں۔ بوسنوی صحافی رفیق خواجہ (Refik Hodzic) کہتے ہیں ’’جب تک سربرینیکا اور باقی بوسنیا سے ظلم کے نشانات نہیں مٹائے جاتے، ہیگ کے مقدمات ایک مذاق سے کم نہیں‘‘۔ اس برس سربرینیکا کے میونسپل انتخابات میں پہلی بار ایک سرب کے میئر بن جانے کا امکان ہے۔
ایک اور تصویر 91 فلسطینی شہداء کے تابوتوں کی چھپی ہے جو رام اللہ میں اسرائیلیوں نے سلطہ فلسطینیہ کے حوالے کئے ہیں۔ یہ ان فلسطینیوں کی باقیات ہیں جو اسرائیلی جیلوں اور عقوبت گاہوں میں تشدد سے شہادت پا گئے۔ ان میں سے بعض 40 سال پہلے شہید کر دیئے گئے تھے۔ 79 شہداء کا تعلق غرب اردن (West Bank) سے ہے اور 12 کا غزہ کی پٹی سے، فلسطینی جنرل کمیٹی فار سول افیئرز کے سربراہ حسین الشیخ کے بقول ’’انہیں اسرائیلیوں نے وادی اردن میں غیر انسانی اور غیر اخلاقی طریقے سے نمبر لگی قبروں میں دفن کر دیا تھا‘‘۔ 79 تابوت فلسطینی صدر محمود عباس کے ہیڈ کوارٹرز ’’مقاطعہ‘‘ (رام اللہ) لائے گئے جہاں نماز جنازہ کے بعد ان کی تدفین عمل میں آئی، باقی تابوت غزہ بھیج دیئے گئے جہاں انہیں 21 توپوں کی سلامی دی گئی اور جنازے کے بعد سپرد خاک کیا گیا۔ دیریاسین، صبرہ، شتیلا اور غزہ میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام کی داستان بھی درد ناک ہے۔
کفار کے ہاتھوں مسلمانوں کی شہادتوں کا سلسلہ افغانستان، کشمیر، پاکستان، یمن، شام، صومالیہ، تھائی لینڈ، بھارت اور فلپائن تک دراز ہے۔ شام میں بشار الاسد کی قیادت میں ظالم علوی (نصیری) اقلیت برسر اقتدار ہے اور اس نے سوا سال سے شامی مسلمانوں کا مسلسل خون بہانے کا وتیرہ اختیار کیا ہوا ہے۔ بشار حکومت کی خونیں کارروائیوں سے اب تک تیرہ چودہ ہزار مسلمان شہید ہو چکے ہیں، تازہ واقعہ حمص کے قریبی قصبے حولہ میں پیش آیا جہاں حکومت کی حامی علوی ’’شبیہہ‘‘ ملیشیا نے 108 نہتے شہری وحشیانہ حملے میں گولیوں سے اڑا دیئے، ان میں پچاس سے زیادہ بچے تھے جن کی عمریں 10سال سے کم تھیں۔ بشار حکومت نے پہلے جھوٹ بولا کہ حکومت کے مخالفین کی کارروائی ہے مگر فی زمانہ ظلم کب چھپ سکتا ہے، عالمی میڈیا کے ذریعے سچ منظر عام پر آ گیا، اس پر بطور احتجاج بیشتر یورپی ممالک اور جاپان نے شامی سفیروں کو ملک سے نکال دیا ہے۔
مسلمانان عالم پر کڑا وقت مسلم معاشروں اور ان کے باطل پرست حکمرانوں کی بدعملیوں کے نتیجے میں آیا ہے، جب مسلمانوں کی ایک بڑی سلطنت خلافت کی شکل میں قائم تھی تو عثمانی بحری بیڑا رودبار انگلستان تک پرچم لہراتا تھا اور ملکہ برطانیہ الزبتھ اول عثمانی خلیفہ مراد ثالث (1574-95ئ) کو نہایت احترام سے شکریے کے خطوط لکھتی تھی کہ عثمانی بیڑے نے ہسپانوی بیڑے آرمیڈا کو تباہ کرنے میں انگریزوں کی مدد کر کے ان کے دل جیت لئے ہیں، لیکن آج وہی انگریز اور ان کے بھائی بند امریکی میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے مسلمانوں کا خون بہانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ یاد رہے سولھویں صدی عیسوی میں پادریوں کی قیادت میں ہسپانیہ (سپین) سے مسلمانوں کا صفایا کیا جا رہا تھا۔

بشکریہ ۔۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام ،،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 
Top