طارق شاہ
محفلین
غزل
عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا
وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا
یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا
کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا
جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا!
وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا
ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی، اس پہ کیا تکرار
وُرُودِ صُبح پہ دِل نے تو کُچھ کہا ہوگا
خیال آئے یہ فُرقت کی ہچکیوں پہ ضرُور
ہمارا ذکر کسی سے وہ کر رہا ہوگا
رہائی سے تِری موقوف ہے حیات مِری
فراق تجھ سے، کب اے دردِ اِنتہا ہوگا
مَلال و حُزن بس اِس سوچ پر ہوختم، خلشؔ!
ہمارے ہاتھ وہی وقتِ بے بہا ہوگا
قلیل گوئی سے پُہنچے کمال پر ہیں خلشؔ
ہُنر میں اُن سے کوئی اور کیا مَہا ہوگا
شفیق خلشؔ
عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا
وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا
یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا
کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا
جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا!
وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا
ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی، اس پہ کیا تکرار
وُرُودِ صُبح پہ دِل نے تو کُچھ کہا ہوگا
خیال آئے یہ فُرقت کی ہچکیوں پہ ضرُور
ہمارا ذکر کسی سے وہ کر رہا ہوگا
رہائی سے تِری موقوف ہے حیات مِری
فراق تجھ سے، کب اے دردِ اِنتہا ہوگا
مَلال و حُزن بس اِس سوچ پر ہوختم، خلشؔ!
ہمارے ہاتھ وہی وقتِ بے بہا ہوگا
قلیل گوئی سے پُہنچے کمال پر ہیں خلشؔ
ہُنر میں اُن سے کوئی اور کیا مَہا ہوگا
شفیق خلشؔ