ہُن اے کھڑکی کدے نیئں کھلنی ۔۔۔

عمر سیف

محفلین
فیسبک پہ یہ تحریر نظر سے گزری اچھی لگی، شئیر کر رہا ہوں، مصنف کا نام اگر کسی محفلی کو معلوم ہو تو ضرور بتائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بہت عرصہ مجھے اس راز کا پتہ ہی نہ چل سکا کہ ماں کو میرے آنے کی خبر کیسے ہو جاتی ہے۔
میں اسکول سے آتا تو دستک دینے سے پہلے دروازہ کھل جاتا۔
کالج سے آتا تو دروازے کے قریب پہنچتے ہی ماں کا خوشی سے دمکتا چہرہ نظر آ جاتا۔
وہ پیار بھری مسکراہٹ سے میرا استقبال کرتی، دعائیں دیتی اور پھر میں صحن میں اینٹوں سے بنے چولہے کے قریب بیٹھ جاتا۔
ماں گرما گرم روٹی بناتی اور میں مزے سے کھاتا ۔

جب میرا پسندیدہ کھانا پکا ہوتا تو ماں کہتی چلو مقابلہ کریں۔
یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہوتا تھا۔
ماں روٹی چنگیر میں رکھتی اور کہتی اب دیکھتے ہیں کہ پہلے میں دوسری روٹی پکاتی ہوں یا تم اسے ختم کرتے ہو۔ ماں کچھ اس طرح روٹی پکاتی ... ادھر آخری نوالہ میرے منہ میں جاتا اور ادھر تازہ تازہ اور گرما گرم روٹی توے سے اتر کر میری پلیٹ میں آجاتی۔
یوں میں تین چار روٹیاں کھا جاتا۔
لیکن مجھے کبھی سمجھ نہ آئی کہ فتح کس کی ہوئی!

ہمارے گھر کے کچھ اصول تھے۔ سب ان پر عمل کرتے تھے۔
ہمیں سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔
لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے لاہور میں ایک اخبار میں ملازمت ایسی ملی کہ میں رات گئے گھر آتا تھا۔ ماں کا مگر وہ ہی معمول رہا۔
میں فجر کے وقت بھی اگر گھر آیا تو دروازہ خود کھولنے کی ضرورت کبھی نہ پڑی۔

لیٹ ہو جانے پر کوشش ہوتی تھی کہ میں خاموشی سے دروازہ کھول لوں تاکہ ماں کی نیند خراب نہ ہو لیکن میں ادھر چابی جیب سے نکالتا، ادھر دروازہ کھل جاتا۔

میں ماں سے پوچھتا تھا.... آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ میں آ گیا ہوں؟
وہ ہنس کے کہتی مجھے تیری خوشبو آ جاتی ہے۔

پھر ایک دن ماں دنیا سے چلی گئی !

ماں کی وفات کے بعد ایک دفعہ میں گھر لیٹ پہنچا، بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑا رہا، پھر ہمت کر کے آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کچھ دیر انتظار کیا اور جواب نہ ملنے پر دوبارہ دستک دی۔ پھر گلی میں دروازے کے قریب اینٹوں سے بنی دہلیز پر بیٹھ گیا۔

سوچوں میں گم نجانے میں کب تک دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا رہا اور پتہ نہیں میری آنکھ کب لگی۔ بس اتنا یاد ہے کہ مسجد سے اذان سنائی دی، کچھ دیر بعد سامنے والے گھر سے امّی کی سہیلی نے دروازہ کھولا۔ وہ تڑپ کر باہر آئیں۔

انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی پتر! تیری ماں گلی کی جانب کھلنے والی تمہارے کمرے کی کھڑکی سے گھنٹوں جھانکتی رہتی تھی۔ ادھر تو گلی میں قدم رکھتا تھا اور ادھر وہ بھاگم بھاگ نیچے آ جاتی تھیں۔

وہ بولی پتر تیرے لیٹ آنے، رات گئے کچن میں برتنوں کی آوازوں اور شور کی وجہ سے تیری بھابی بڑی بڑ بڑ کیا کرتی تھی کیونکہ ان کی نیند خراب ہوتی تھی۔
پھر انہوں نے آبدیدہ نظروں سے کھڑکی کی طرف دیکھا اور بولیں "پتر ھن اے کھڑکی کدے نیئں کھلنی"۔
کچھ عرصہ بعد میں لاہور سے اسلام آباد آ گیا جہاں میں گیارہ سال سے مقیم ہوں۔
سال میں ایک دو دفعہ میں لاہور جاتا ہوں۔
میرے کمرے کی وہ کھڑکی اب بھی وہاں موجود ہے۔
لیکن ماں کا وہ مسکراہٹ بھرا چہرہ مجھے کبھی نظر نہیں آیا۔

بشکریہ فیسبک
 

محمداحمد

لائبریرین
شاید زبردست زبردست لکھتا چلا جاؤں اور گنتی بھول جاؤں تب بھی اس تحریر کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔

ماں کی محبت کے آگے کیا رہ جاتا ہے۔

آنکھوں کو اشکبار کر دینے والی اس تحریر کو شامل محفل کرنے اور خاکسار کو یاد رکھنے کا بہت بہت شکریہ عمر بھائی۔۔۔!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آج صبح فیس بک پر میں نے بھی یہ تحریر دیکھی تھی۔۔۔ :)
عمدہ اور اعلیٰ تحریر ہے۔۔۔
بیشک الفاظ ماں کی ذات کا ایک پہلو بھی بیان کرنے میں ناکام ہی رہیں گے۔۔۔ شکریہ عمر بھائی
 
دراصل ما ں کی محبت ہے ہی ایسی کہ ہم اس کے کچھ واقعات تو شاید قلم بند کر لیں لیکن اس محبت کو قلم بند نہیں کر سکتے۔
شکر گزار ہوں اتنی عمدہ تحریر پڑھنے کے لیے شئیر کی، جانے کیوں اب ایسی تحریروں سے آنکھوں کے گوشے کچھ نم ہو جاتے ہیں۔ اور گلا بیٹھنے لگتا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہ
ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد آتی ہے تیری دعا ۔۔۔۔۔۔۔
کیا خوب ممتا بھری شراکت ہے ۔ بچپن یاد دلا گئی ۔ رلا گئی ۔
بہت دعائیں محترم سیف بھائی
 

غدیر زھرا

لائبریرین
جہانِ زیست میں الفت کا آسماں ہے ماں
درونِ دل سے مسرت کی ترجماں ہے ماں

اللہ سب کی ماؤں کا سایہ ان کے سر پر سلامت رکھے اور جن کی مائیں حیات نہیں اُن کو اُن کی ماؤں کی دعاؤں کے صدقے کامیابیاں عطا فرمائے----آمین--
 
Top