غزل قاضی
محفلین
غزل
ہُوئی ایجاد نئی طرزِ خوشامد کہ نہیں
کل کا آئین ہے اب تک سرِ مسند کہ نہیں
آگئی اے مِرے سائے سے بھی بچنے والی
رفتہ رفتہ ترے اقرار کی سرحد کہ نہیں
نہر خوں ہو چکی ، فرہاد کی مزدوری کو
اب کے تیشے سے ملی قیمتِ ساعد کہ نہیں
ناصحا اس لئے میں گوش بر آواز نہ تھا
تری آواز سے چھوٹا ہے ترا قد کہ نہیں
(مصطفیٰ زیدی از کوہِ ندا)
اپریل،مئی۱۹۶۴ء
ہُوئی ایجاد نئی طرزِ خوشامد کہ نہیں
کل کا آئین ہے اب تک سرِ مسند کہ نہیں
آگئی اے مِرے سائے سے بھی بچنے والی
رفتہ رفتہ ترے اقرار کی سرحد کہ نہیں
نہر خوں ہو چکی ، فرہاد کی مزدوری کو
اب کے تیشے سے ملی قیمتِ ساعد کہ نہیں
ناصحا اس لئے میں گوش بر آواز نہ تھا
تری آواز سے چھوٹا ہے ترا قد کہ نہیں
(مصطفیٰ زیدی از کوہِ ندا)
اپریل،مئی۱۹۶۴ء