حسان خان
لائبریرین
ہٹلر اے خونیں درندے، اے مجسم سرکشی
جنگ کے میدان سے سر بر نہ ہوگا تو کبھی
تو ہے پتلا کبر و نخوت کا، ستم کا، جور کا
نام تازہ تجھ سے ہے چنگیز خانی دور کا
منحصر ہے ایک یورپ ہی پہ کیا اے بد نہاد
تیرے ظلم و جور سے سارا جہاں ہے پُرفساد
نوعِ انسانی کی جان و مال کا دشمن ہے تو
امنِ عالم کے لٹیرے واقعی رہزن ہے تو
تو نے دنیا کو اسیرِ رنج و آفت کر دیا
یورپی تہذیب کو دم بھر میں غارت کر دیا
تیرا ساغر کیا ہے اک پیغامِ ظلم و قہر ہے
دیکھنے میں خوشنما پینے میں خالص زہر ہے
تیرا منشا ہے حکومت تیرا منشا سامراج
امنِ دنیا کا مخالف اور حریصِ تخت و تاج
خون ہے دامن پہ تیرے بے گنہ اقوام کا
وقت اب نزدیک ہے ظالم ترے انجام کا
دیکھ اٹلی کی تباہی، جو تھا تیرا ہمنوا
درسِ عبرت ہے یہ تیرے واسطے او بے حیا
کوئی دن میں تو بھی ظالم منہ کی کھائے گا ضرور
دشمنِ انسانیت نازی، نہ کر اتنا غرور
کر رہا ہے قتل و خوں کا کس لئے اب بندوبست
مثل اٹلی کے بہت نزدیک ہے تیری شکست
آنے والا ہے بہت جلد اب وہ خونی انقلاب
نازیت کو تیری جو کردے گا تاراج و خراب
بڑھ رہے ہیں تان کر سینہ ہمارے سرفروش
جس طرح ساحل سے ابلے ایک سیلِ پرخروش
دشمنِ امن و اماں او ظالمِ بدعت شعار
پیس ڈالے گا تجھے آخر نظامِ روزگار
ہٹلریت اب جہاں میں پھول پھل سکتی نہیں
ناؤ کاغذ کی کبھی پانی میں چل سکتی نہیں
(بیدل مراد آبادی)
۱۹۴۳ء