محسن وقار علی
محفلین
جرمنی کے سابق آمر اڈولف ہٹلر کے بارے میں ایک نیا طنزیہ ناول آج کل جرمنی میں بہت فروخت ہو رہا ہے اور لوگ اسے مزے لے کر پڑھ رہے ہیں۔
ہٹلر کے بارے میں جرمنی میں جہاں لوگ عام طور پر بات کرنا پسند نہیں کرتے، وہاں ان پر ناول لکھنا اور اس کا اس قدر مقبول ہونا اپنے آپ میں خاصا دلچسپ ہے۔
اس ناول کے مطابق ہٹلر 17 سال بعد کوما سے باہر آتے ہیں اور آج کے برلن میں پہنچ جاتے ہیں جہاں لوگ انہیں ہٹلر کا ہم شكل سمجھ لیتے ہیں۔ وہ جرمنی کی سڑکوں پر ٹہلتے ہیں اور لوگوں سے مذاق کرتے ہیں۔
ہٹلر جدید برلن کو دیکھ کر الجھن میں پڑ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ سارے روسی فوجی کہاں چلے گئے؟ سڑکوں پر اتنے سائیکل سوار ہیلمٹ پہنے کیوں گھوم رہے ہیں؟
ہٹلر شہر میں اپنے پسندیدہ اخبار ’دی پیپلز آبزرور‘ تلاش کرتے ہیں لیکن انہیں صرف ترکی کے اخبار ملتے ہیں۔
اس ناول کو تیمور ورمیز نے لکھا ہے اور اس کی چار لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں
ایک دکاندار ان سے کہتا ہے ’چوری مت کرنا‘۔ ہٹلر پوچھتے ہیں، ’کیا میں چور نظر آتا ہوں‘؟ دکاندار جواب دیتا ہے، ’نہیں، آپ ہٹلر جیسے نظر آتے ہو‘۔
اس کے بعد ہٹلر ایک مقبول سیاسی لیڈر بن جاتے ہیں۔ وہ ترک نژاد ایک جرمن اینکر کے ساتھ ٹی وی پر ایک ٹاک شو میں حصہ بھی لیتے ہیں۔
یہ ناول جرمنی میں کافی مقبول ہو رہا ہے اور اب تک اس کی 4 لاکھ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اسے جرمن ناولوں کی سیریز میں سب سے انوکھا ناول مانا جا رہا ہے۔
یہی نہیں، اس کا آڈیو ورژن بھی مارکیٹ میں ہے اور 28 زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی کیا جا رہا ہے جبکہ اس پر فلم بنانے کی بھی تیاری ہے۔
اس حوالے سے یہ بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے جو شخص یہودیوں کے قتل عام جیسے سانحہ کا ذمہ دار تھا، کیا وہ مزاحیہ حس کا اہل ہو سکتا ہے؟۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ جرمنی میں بدلتے ہوئے رویوں کو ظاہر کرتا ہے۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو