سید فصیح احمد
لائبریرین
چک حاجیاں کی بڑی حویلی کے کچے صحن میں ایک بڑا کیکر سُلگتے سورج کے سامنے ڈٹا ہُوا تھا۔ اس کے سائے تلے بڑے پلنگ پر چوہدری بنارس بیٹھا تھا۔ سامنے ہی کرسی پر گاؤں کا پٹواری موجود تھا۔ چوہدری بنارس کے ساتھ بیٹھا اس کا بیٹا ایک کالے شکاری کُتے کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ہڈی تھی، جس کا دوسرا سِرا شکاری کتے نے اپنے جبڑوں میں دبوچ رکھا تھا۔
" چوہدری صاحب! آپ نے کرموُ کے ہاتھ بُلاوا بھیجا تھا، خیریت تھی؟ "
پٹواری نے ہاتھوں کو تقریباً جوڑتے ہُوئے اسے مخاطب کیا۔ چوہدری بنارس کے پیچھے ایک خادم اس کے کندھے انگلیوں کی پوروں سے دھیرے دھیرے مسل رہا تھا۔ چلم بردار نے دہکتے کوئلوں سے بھری نئی چلم حُقے پر جڑی تو اُس نے ایک کش بھرا اور دھُواں اُڑاتا پٹواری سے مُخاطب ہُوا؛
" کام تو کُچھ نہیی تھا بالے، بس ایک کانٹا اڑ گیا تھا۔ اسے نکالنا تھا! "
صحن کے ایک کونے میں مٹی کا تنور تھا جس پر چوہدری بنارس کے خاص کمّی، کرموُ کی بیوی روٹیاں لگانے میں مصروف تھی۔ اس کے ساتھ اس کی مدھر صورت بیٹی ہتھیلیوں میں آٹے کے پیڑے بنا بنا کر ساتھ رکھے تھال میں ڈھیر لگاتی جا رہی تھی۔ کومل چہرے سے پسینہ بہہ کر اس کی صراحی دار گردن سے نیچے ایک دھار سی بنا رہا تھا۔
" حکم کرو سائیں! "
پٹواری کے ہاتھے اب بھی اس کے چہرے کے سامنے جُڑے ہُوئے تھے۔"بالے! تجھے پتہ تو ہو گا، بِلّے شاہ کی زمین پر میرے شیر پُت نے قبضہ کر رکھا ہے ۔۔۔۔۔" اتنا کہہ کر چوہدری بنارس نے اپنے بیٹے کے شانوں پر زور سے ہاتھ مارا۔ پٹواری خاموش تھا۔ "ساری زندگی گوروں کے تلوے چاٹنے کے بعد وہ خنزیر اب واپس آ گیا ہے اور ہمارے کاموں میں ٹانگ اڑا رہا ہے۔ فصل جوان ہو چکی ہے اس لیئے میں اسے منہ نہیں لگانا چاہتا۔ اتنا کہہ کر چوہدری نے وقفہ لیا اور غور سے پٹواری کی آنکھوں میں جھانکنے لگا، جیسے اس کی پتلیوں میں قید بھوک کی تہہ جاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد جب اسے تہہ نہیں ملی تو وہ پٹواری سے پھر مخاطب ہُوا
" کام تو توُ سمجھ گیا ہو گا "
" جی سائیں! "
" پھِر کیا کہتا ہے؟ "
چوہدری کے بیٹے نے کُتے سے کھیلتے ہُوے ہڈی کو دوُر اچھالا تو ہڈی اُڑتی ہوئی تنور کے پاس رکھی ایک پرانی کھاٹ کے نیچے گھس گئی۔ کالا کُتا جست بھر کے کھاٹ کے پاس پہنچ گیا۔ مگر کوشش کے باوجود اس کا منہ ہڈی تک نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ ٹپکتی رال بڑھتی جا رہی تھی۔ کبھی وہ منہ کو تنگ جگہ پر گھسانے لگتا تو کبھی پنجوں سے زمین کُریدنے لگتا۔
" سائیں میں کیا بولوں! آپ کی عنایت ہے سب کچھ تو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ " اتنا کہہ کر وہ ذرا دیر خاموش رہا، پھر بولا
" مگر شادی اب تک نہیں ہوئی "
چوہدری بنارس اس کی بات سُن کر تنی ہوئی مونچھوں کو ذرا اور تاؤ دے کر مسکرانے لگا۔
" وہ تیری رکھیل مر گئی کیا؟ "
" نا سائیں! وہ مجھے مار کے مرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ہم رکھیلوں کے خون کو اپنا نام دینے لگے تو اپنی پگ تو مِٹی میں رُل جائے گی نا؟ "
چوہدری بنارس کچھ دیر خاموش رہا، پھِر پاس ہی زمین پر بیٹھے کرموُ سے مخاطب ہُوا۔
" اوئے کَمّیِا توُ نے اپنی دھی کا ہاتھ تو نہیں دیا کسی کو؟"
بھنگ کا پیالہ منہ سے ہٹا کر کرموُ خالی خالی نظروں سے چوہدری کو دیکھنے لگا، چھوہدری نے اس کی خالی آنکھوں کو دیکھا تو تہہ تک فوراً پہنچ گیا۔ پیچھے کھڑے خادم کو اشارہ کیا، جِس نے آگے بڑھ کر چند مُڑے ہُوئے نوٹ کرموُ کی جیب میں ٹھونس دیئے۔
" سائیں میری کیا مجال، میں تو آپ کے در کا بھکاری ہوں۔ آپ اس کا جوڑ جس سے چاہو باندھ دو "
چہرے کے سامنے بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس کی نظریں مسلسل اپنی جیب میں پڑے نوٹوں کا معائنہ کر رہی تھیں۔
" لے بھئی تیرا کام تو ہو گیا، اب میرا کام بھی ہو جانا چاہیئے! "
" جی سائیں! "
یہ سب سُن کر کرموُ کی بیٹی بے بسی سے کانپتے ہوئے سوالیہ نظروں سے اپنی ماں کو دیکھنے لگی، جِس کے سامنے روٹیاں تنور میں گِرتی جا رہی تھیں۔ صحن میں اچانک لکڑی ٹوٹنے کی آواز بلند ہوئی تو سب اس طرف دیکھنے لگے، کالا کُتا اپنی بھوک سے مجبور لکڑی کے کھاٹ کو توڑ کر ہڈی تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکا تھا، اور وہیں زمین پر بیٹھا رال میں لپٹی ہڈی کو مسلسل چاٹ رہا تھا۔
" چوہدری صاحب! آپ نے کرموُ کے ہاتھ بُلاوا بھیجا تھا، خیریت تھی؟ "
پٹواری نے ہاتھوں کو تقریباً جوڑتے ہُوئے اسے مخاطب کیا۔ چوہدری بنارس کے پیچھے ایک خادم اس کے کندھے انگلیوں کی پوروں سے دھیرے دھیرے مسل رہا تھا۔ چلم بردار نے دہکتے کوئلوں سے بھری نئی چلم حُقے پر جڑی تو اُس نے ایک کش بھرا اور دھُواں اُڑاتا پٹواری سے مُخاطب ہُوا؛
" کام تو کُچھ نہیی تھا بالے، بس ایک کانٹا اڑ گیا تھا۔ اسے نکالنا تھا! "
صحن کے ایک کونے میں مٹی کا تنور تھا جس پر چوہدری بنارس کے خاص کمّی، کرموُ کی بیوی روٹیاں لگانے میں مصروف تھی۔ اس کے ساتھ اس کی مدھر صورت بیٹی ہتھیلیوں میں آٹے کے پیڑے بنا بنا کر ساتھ رکھے تھال میں ڈھیر لگاتی جا رہی تھی۔ کومل چہرے سے پسینہ بہہ کر اس کی صراحی دار گردن سے نیچے ایک دھار سی بنا رہا تھا۔
" حکم کرو سائیں! "
پٹواری کے ہاتھے اب بھی اس کے چہرے کے سامنے جُڑے ہُوئے تھے۔"بالے! تجھے پتہ تو ہو گا، بِلّے شاہ کی زمین پر میرے شیر پُت نے قبضہ کر رکھا ہے ۔۔۔۔۔" اتنا کہہ کر چوہدری بنارس نے اپنے بیٹے کے شانوں پر زور سے ہاتھ مارا۔ پٹواری خاموش تھا۔ "ساری زندگی گوروں کے تلوے چاٹنے کے بعد وہ خنزیر اب واپس آ گیا ہے اور ہمارے کاموں میں ٹانگ اڑا رہا ہے۔ فصل جوان ہو چکی ہے اس لیئے میں اسے منہ نہیں لگانا چاہتا۔ اتنا کہہ کر چوہدری نے وقفہ لیا اور غور سے پٹواری کی آنکھوں میں جھانکنے لگا، جیسے اس کی پتلیوں میں قید بھوک کی تہہ جاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد جب اسے تہہ نہیں ملی تو وہ پٹواری سے پھر مخاطب ہُوا
" کام تو توُ سمجھ گیا ہو گا "
" جی سائیں! "
" پھِر کیا کہتا ہے؟ "
چوہدری کے بیٹے نے کُتے سے کھیلتے ہُوے ہڈی کو دوُر اچھالا تو ہڈی اُڑتی ہوئی تنور کے پاس رکھی ایک پرانی کھاٹ کے نیچے گھس گئی۔ کالا کُتا جست بھر کے کھاٹ کے پاس پہنچ گیا۔ مگر کوشش کے باوجود اس کا منہ ہڈی تک نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ ٹپکتی رال بڑھتی جا رہی تھی۔ کبھی وہ منہ کو تنگ جگہ پر گھسانے لگتا تو کبھی پنجوں سے زمین کُریدنے لگتا۔
" سائیں میں کیا بولوں! آپ کی عنایت ہے سب کچھ تو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ " اتنا کہہ کر وہ ذرا دیر خاموش رہا، پھر بولا
" مگر شادی اب تک نہیں ہوئی "
چوہدری بنارس اس کی بات سُن کر تنی ہوئی مونچھوں کو ذرا اور تاؤ دے کر مسکرانے لگا۔
" وہ تیری رکھیل مر گئی کیا؟ "
" نا سائیں! وہ مجھے مار کے مرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ہم رکھیلوں کے خون کو اپنا نام دینے لگے تو اپنی پگ تو مِٹی میں رُل جائے گی نا؟ "
چوہدری بنارس کچھ دیر خاموش رہا، پھِر پاس ہی زمین پر بیٹھے کرموُ سے مخاطب ہُوا۔
" اوئے کَمّیِا توُ نے اپنی دھی کا ہاتھ تو نہیں دیا کسی کو؟"
بھنگ کا پیالہ منہ سے ہٹا کر کرموُ خالی خالی نظروں سے چوہدری کو دیکھنے لگا، چھوہدری نے اس کی خالی آنکھوں کو دیکھا تو تہہ تک فوراً پہنچ گیا۔ پیچھے کھڑے خادم کو اشارہ کیا، جِس نے آگے بڑھ کر چند مُڑے ہُوئے نوٹ کرموُ کی جیب میں ٹھونس دیئے۔
" سائیں میری کیا مجال، میں تو آپ کے در کا بھکاری ہوں۔ آپ اس کا جوڑ جس سے چاہو باندھ دو "
چہرے کے سامنے بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس کی نظریں مسلسل اپنی جیب میں پڑے نوٹوں کا معائنہ کر رہی تھیں۔
" لے بھئی تیرا کام تو ہو گیا، اب میرا کام بھی ہو جانا چاہیئے! "
" جی سائیں! "
یہ سب سُن کر کرموُ کی بیٹی بے بسی سے کانپتے ہوئے سوالیہ نظروں سے اپنی ماں کو دیکھنے لگی، جِس کے سامنے روٹیاں تنور میں گِرتی جا رہی تھیں۔ صحن میں اچانک لکڑی ٹوٹنے کی آواز بلند ہوئی تو سب اس طرف دیکھنے لگے، کالا کُتا اپنی بھوک سے مجبور لکڑی کے کھاٹ کو توڑ کر ہڈی تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکا تھا، اور وہیں زمین پر بیٹھا رال میں لپٹی ہڈی کو مسلسل چاٹ رہا تھا۔