محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ہیری پوٹر اور پارس پتھر
ایک لوک گیت
محمد خلیل الرحمٰن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیری پوٹر ہیری پوٹر کہاں گئے تھے
گھر میں اپنی کوٹھری میں سو رہے تھے
ڈڈلی نے لات ماری رونے لگے
امی نے یاد کیا ، ہنسنے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔
باب اول: وہ لڑکا جو زندہ رہا
محمد خلیل الرحمٰن
ایک چھوٹے سے لڑکے کی ہے داستاں
جس کی پیشانی پر تھا بنا اِک نشاں
اپنی خالہ کے گھر پر ہی رہتا تھا وہ
ظلم خالہ کے، خالو کے سہتا تھا وہ
یوں تو بیٹا خود ان کا ہی ڈڈلی بھی تھا
تھا شریر اِس قدر ، اس کا ثانی بھی تھا؟
حرکتوں سے تو اُس کی سبھی تنگ تھے
کام اُس کے جو تھے، باعثِ ننگ تھے
جب شرارت کا کوئی خیال آگیا
ہیری پوٹر ہی اُس کا نشانہ بنا
پھر بھی ماں باپ کا لاڈلا تھا وہی
بد تمیز اور شرارت کا پتلا وہی
یوں تو جب بھی کہیں آتے جاتے تھے وہ
ہیری پوٹر کو یوں ہی ستاتے تھے وہ
بس اکیلے ہی گھر چھوڑ جاتے اُسے
بند کرتے تھے گھر کو، ڈراتے اُسے
ایک دِن شام کو سیر کرنے گئے
ساتھ اپنے وہ ہیری کوبھی لے گئے
سیر کرنے چلے ، سانپ گھر آگیا
ڈڈلی حیرت سے اِس گھر کو دیکھا کیا
اِک کٹہرے میں اِک اژدھا بند تھا
ہیری مسحور جوں اُس کو دیکھا کیا
تب اچانک ہی ہیری نے اُس سے کہا
اتنے بےحِس ہیں یہ لوگ ،میرے خدا!
بات سنتے ہی یہ ، اژدھا اُٹھ گیا
سر ہلا کر وہ ہیری سے گویا ہوا
ہاں مرے دوست، کچھ سچ ہی کہتے ہوتم
کیا اِدھر ہی کسی گھر میں رہتے ہوتم؟
بس اسی دن سے اس کو پتہ چل گیا
پارسل ٹنگ ہے اور خدا جانے کیا
یوں کہیں سے جو اس کا گزر ہوگیا
ایک مجمع اِکٹھا اُدھر ہوگیا
دیکھ کر اُس کو ہر شخص کہنے لگا
کیایہی ہے وہ لڑکا جو زندہ رہا؟
للی پوٹرنے نازوں سے پالا جسے
جِس کے جادو نے اُس دِن سنبھالا جسے
جِس گھڑی تاک کر اُس نے حملہ کیا
نام بھی جِس کا لینا نہیں اب سدا
للی پوٹر نے خود تھا بچایا جسے
خود تو وہ مرگئے اور چھپایا اِسے
بس اسی دن سے خود وہ بھی غائب ہوا
نام بھی جس کا لینا نہیں اب سدا
یوں ہی ہنستے ہوئے دن گزرتے رہے
زخمِ ماضی جو تھے سب ہی بھرتے رہے
ایک دِن کیا ہوا ، ایک خط آگیا
دیکھتے ہی جسے ہیری گھبرا گیا
یوں تو خط کوئی نام اُس کے آتا نہ تھا
ملنے کوئی اُسے آتا جاتا نہ تھا
اب ذرا والڈے مارٹ کی بھی سنو
اِس کہا نی میں اُس کی کہا نی سنو
یوں تو قاتِل تھا وہ ، اِک درندہ تھا وہ
اِک پرانی سی کاپی میں زندہ تھا وہ
حال کچھ اب نہ اس کا سنائیں گے ہم
بعد کے واسطے کچھ بچائیں گے ہم
(باب دوم: گمنام خطوط کا معمہ)
ایک لوک گیت
محمد خلیل الرحمٰن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیری پوٹر ہیری پوٹر کہاں گئے تھے
گھر میں اپنی کوٹھری میں سو رہے تھے
ڈڈلی نے لات ماری رونے لگے
امی نے یاد کیا ، ہنسنے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔
باب اول: وہ لڑکا جو زندہ رہا
محمد خلیل الرحمٰن
ایک چھوٹے سے لڑکے کی ہے داستاں
جس کی پیشانی پر تھا بنا اِک نشاں
اپنی خالہ کے گھر پر ہی رہتا تھا وہ
ظلم خالہ کے، خالو کے سہتا تھا وہ
یوں تو بیٹا خود ان کا ہی ڈڈلی بھی تھا
تھا شریر اِس قدر ، اس کا ثانی بھی تھا؟
حرکتوں سے تو اُس کی سبھی تنگ تھے
کام اُس کے جو تھے، باعثِ ننگ تھے
جب شرارت کا کوئی خیال آگیا
ہیری پوٹر ہی اُس کا نشانہ بنا
پھر بھی ماں باپ کا لاڈلا تھا وہی
بد تمیز اور شرارت کا پتلا وہی
یوں تو جب بھی کہیں آتے جاتے تھے وہ
ہیری پوٹر کو یوں ہی ستاتے تھے وہ
بس اکیلے ہی گھر چھوڑ جاتے اُسے
بند کرتے تھے گھر کو، ڈراتے اُسے
ایک دِن شام کو سیر کرنے گئے
ساتھ اپنے وہ ہیری کوبھی لے گئے
سیر کرنے چلے ، سانپ گھر آگیا
ڈڈلی حیرت سے اِس گھر کو دیکھا کیا
اِک کٹہرے میں اِک اژدھا بند تھا
ہیری مسحور جوں اُس کو دیکھا کیا
تب اچانک ہی ہیری نے اُس سے کہا
اتنے بےحِس ہیں یہ لوگ ،میرے خدا!
بات سنتے ہی یہ ، اژدھا اُٹھ گیا
سر ہلا کر وہ ہیری سے گویا ہوا
ہاں مرے دوست، کچھ سچ ہی کہتے ہوتم
کیا اِدھر ہی کسی گھر میں رہتے ہوتم؟
بس اسی دن سے اس کو پتہ چل گیا
پارسل ٹنگ ہے اور خدا جانے کیا
یوں کہیں سے جو اس کا گزر ہوگیا
ایک مجمع اِکٹھا اُدھر ہوگیا
دیکھ کر اُس کو ہر شخص کہنے لگا
کیایہی ہے وہ لڑکا جو زندہ رہا؟
للی پوٹرنے نازوں سے پالا جسے
جِس کے جادو نے اُس دِن سنبھالا جسے
جِس گھڑی تاک کر اُس نے حملہ کیا
نام بھی جِس کا لینا نہیں اب سدا
للی پوٹر نے خود تھا بچایا جسے
خود تو وہ مرگئے اور چھپایا اِسے
بس اسی دن سے خود وہ بھی غائب ہوا
نام بھی جس کا لینا نہیں اب سدا
یوں ہی ہنستے ہوئے دن گزرتے رہے
زخمِ ماضی جو تھے سب ہی بھرتے رہے
ایک دِن کیا ہوا ، ایک خط آگیا
دیکھتے ہی جسے ہیری گھبرا گیا
یوں تو خط کوئی نام اُس کے آتا نہ تھا
ملنے کوئی اُسے آتا جاتا نہ تھا
اب ذرا والڈے مارٹ کی بھی سنو
اِس کہا نی میں اُس کی کہا نی سنو
یوں تو قاتِل تھا وہ ، اِک درندہ تھا وہ
اِک پرانی سی کاپی میں زندہ تھا وہ
حال کچھ اب نہ اس کا سنائیں گے ہم
بعد کے واسطے کچھ بچائیں گے ہم
(باب دوم: گمنام خطوط کا معمہ)
آخری تدوین: