مسٹر گرزلی
محفلین
ابن صفی مرحوم کو جن لوگوں نے پڑھا ہے،وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں پیروڈی نگاری میں بھی ید طولی حاصل تھا۔انہوں نے جیمز بانڈ کی "ٰٹیمز فانڈ" ، الہ دین کے چراغ کی "چراغ الہ دین دائجسٹ" اور شیخ چلی کی "پرنس چلی"وغیرہ مشہور پیروڈیاں لکھی۔ایسی ہی ایک پیروڈی انہوں نے عمران سیریز ناول سوالیہ نشان میں بھی لکھی ہے،گو کہ مختصر ہے ، لیکن ہے جاندار،پڑھئے اور سر دھنیے:
بیکار باتیں نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو حسن وعشق ہی کی سرزمین ہے۔۔۔۔۔۔میں نے تمہارے یہاں کی کہانیاں سنی ہیں۔۔۔پڑھی ہیں! وہ کون تھے۔۔۔۔ہیر اور رانجھا۔۔۔۔!
ان کا تو نام ہی نہ لو۔۔۔۔! عمران برا سا منھ بنا کر بولا۔
کیوں ! ان کی داستان تو ساری دنیا میں مشہور ہے۔
بعد کے حالات سے تم واقف نہیں ہو۔خبروں پر سنسر ہوگیا تھا اور بعد کے حالات دنیا کو نہیں معلوم ہوسکے تھے۔
کیسے حالات۔۔۔۔۔!
"وہ دونوں رواوی کے کنارے ملا کرتے تھے۔عشق ہوگیا۔ہیر دراصل وہاں کپڑے دھونے آیا کرتی تھی۔رانجھا اس کاہاتھ بٹانے لگا۔ہاتھ کیا بٹانے لگا ہیر کو تو الگ بٹھا دیتا اور خود ہی اس کے کپڑے دھو دھاکر ڈھیر لگادیتا۔اچانک ایک دن اس نے محسوس کیا کہ اسے تقریبا ڈھائی سو کپڑے روزانہ دھونے پڑتے ہیں۔تب اسے ہوش آیا اور بری طرح بوکھلاگیا۔۔۔۔۔۔اس نے ہیر کی طرف دیکھا جو کچھ دور گھاس پر بیٹھی لسی پی چکنے کے بعد نسوار کی چٹکی چلانے جارہی تھی۔۔۔۔مگر وہ صرف دیکھ کر ہی رہ گیا کچھ بولا نہیں۔لیکن اسے چونکہ تشویش ہوگئی تھی اس لیے وہ نچلا نہیں بیٹھا! کپڑے تو اسے بہر حال دھونے پڑتے تھے اس سے جو وقت بچتا تھا اس معمے کو حل کرنے میں صرف کردیتا۔اب اسے ہیر سے عشق جتانے کا بھی کم موقع ملتا تھا۔
ویسے وہ لسی کاگھڑاسامنے رکھے بیٹھی اس کا دل بڑھایا کرتی تھی آخر ایک دن یہ راز کھل ہی گیا ۔بیچارے رانجھے کومعلوم ہواکہ ہیر کے بھائی نے مال روڈ پر ایک بہت بڑی لانڈری کھول رکھی ہے۔بس وہ غریب ویہں پٹ سے گرا اور ختم ہوگیا یہ ہے اصلی داستان ہیر رانجھا کی۔"
بیکار باتیں نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو حسن وعشق ہی کی سرزمین ہے۔۔۔۔۔۔میں نے تمہارے یہاں کی کہانیاں سنی ہیں۔۔۔پڑھی ہیں! وہ کون تھے۔۔۔۔ہیر اور رانجھا۔۔۔۔!
ان کا تو نام ہی نہ لو۔۔۔۔! عمران برا سا منھ بنا کر بولا۔
کیوں ! ان کی داستان تو ساری دنیا میں مشہور ہے۔
بعد کے حالات سے تم واقف نہیں ہو۔خبروں پر سنسر ہوگیا تھا اور بعد کے حالات دنیا کو نہیں معلوم ہوسکے تھے۔
کیسے حالات۔۔۔۔۔!
"وہ دونوں رواوی کے کنارے ملا کرتے تھے۔عشق ہوگیا۔ہیر دراصل وہاں کپڑے دھونے آیا کرتی تھی۔رانجھا اس کاہاتھ بٹانے لگا۔ہاتھ کیا بٹانے لگا ہیر کو تو الگ بٹھا دیتا اور خود ہی اس کے کپڑے دھو دھاکر ڈھیر لگادیتا۔اچانک ایک دن اس نے محسوس کیا کہ اسے تقریبا ڈھائی سو کپڑے روزانہ دھونے پڑتے ہیں۔تب اسے ہوش آیا اور بری طرح بوکھلاگیا۔۔۔۔۔۔اس نے ہیر کی طرف دیکھا جو کچھ دور گھاس پر بیٹھی لسی پی چکنے کے بعد نسوار کی چٹکی چلانے جارہی تھی۔۔۔۔مگر وہ صرف دیکھ کر ہی رہ گیا کچھ بولا نہیں۔لیکن اسے چونکہ تشویش ہوگئی تھی اس لیے وہ نچلا نہیں بیٹھا! کپڑے تو اسے بہر حال دھونے پڑتے تھے اس سے جو وقت بچتا تھا اس معمے کو حل کرنے میں صرف کردیتا۔اب اسے ہیر سے عشق جتانے کا بھی کم موقع ملتا تھا۔
ویسے وہ لسی کاگھڑاسامنے رکھے بیٹھی اس کا دل بڑھایا کرتی تھی آخر ایک دن یہ راز کھل ہی گیا ۔بیچارے رانجھے کومعلوم ہواکہ ہیر کے بھائی نے مال روڈ پر ایک بہت بڑی لانڈری کھول رکھی ہے۔بس وہ غریب ویہں پٹ سے گرا اور ختم ہوگیا یہ ہے اصلی داستان ہیر رانجھا کی۔"