حسیب نذیر گِل
محفلین
ہیکرز نے انٹرنیٹ پر فائلز شیئرنگ یا تبادلے کی سہولت فراہم کرنے والی ویب سائٹ ’میگا اپ لوڈ‘ بند کرنے پر امریکی حکومت اور کاپی رائٹس سے متعلق تنظیموں کی ویب سائٹس پر حملہ کیا ہے۔
امریکی حکام نے انٹرنیٹ صارفین کو فائل کے تبادلے کی سہولت فراہم کرنے والی ویب سائٹ ’میگا اپ لوڈ‘ کو جعل سازی کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی بناء پر بند کر دیا ہے
ان اداروں کی ویب سائٹ پر جانے والے یا پتے پر کلک کرنے والے صارفین کے بھی کمپیوٹر سسٹم حملے سے متاثر ہو جاتے ہیں۔
نامعلوم ہیکرز گروپ’ ہیکرز اینونیمس‘ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ہیکرز کی جانب سے شائع کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ ہم گمنام، امریکی حکومت اور میوزک انڈسٹری کی ویب سائٹ پر اب تک کے سب سے بڑے حملے کا آغاز کر رہے ہیں، ایف بی آئی نہیں سمجھتی کہ وہ اس سے نکل پائیں گے، کیا وہ سمجھتے ہیں؟‘
ہیکرز کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ میگا اپ لوڈ بند کرنے کے ردعمل میں ایف بی آئی، یونیورسل میوزک سمیت دس ویب سائٹس کو بند کر دیا گیا ہے۔
جمعہ کو یونیورسل ویب سائٹ پر بیان درج تھا کہ ویب سائٹ پر کام جاری ہے اور اسے جلد ہی صارفین کے لیے دوبارہ دستیاب ہو گی
انٹرنیٹ سکیورٹی کے ادارے سوفوز بلاگ کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر کے ذریعے اور اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر معلومات کے تبادلے کے حوالے سے دستیاب دیگر ذرائع سے لنکس کو پھیلایا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے امریکی استغاثوں نے ویب سائٹ میگا اپ لوڈ پر جملہ حقوق رکھنے والوں کو پانچ سو ملین ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچانے کا الزام لگایا۔
تاہم امریکی محکمۂ انصاف کے مطابق میگا اپ لوڈ کے دو شریکِ بانی کم ڈاٹ کام اور متھیاس آرٹمین کو امریکی حکام کے کہنے پر نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ادارے کی ویب سائٹ پر درج کیے گئے ایک بیان کے مطابق میگا اپ لوڈ کے خلاف کارروائی امریکہ میں جملہ حقوق کی خلاف ورزی کی سب سے بڑی کارروائیوں میں سے ہے اور اس کارروائی کے تحت ان ویب سائٹوں کو نشانہ بنایا جائے گا جو جعل سازی میں ملوث ہیں۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے بروز بدھ آن لائن انسائیکلوپیڈیا ’وکی پیڈیا‘ سمیت ہزاروں دیگر ویب سائٹز نے امریکہ میں جملہ حقوق کے تحفظ کے مجوزہ قوانین کے خلاف احتجاجاً اپنی ویب سائٹز بند کر دی تھیں۔
یہ احتجاج ’سوپا‘ یعنی سٹاپ آن لائن پائریسی ایکٹ اور ’پیپا‘ یعنی پروٹیکٹ انٹیلیکچوئل پراپرٹی ایکٹ کے خلاف کیا گیا جو اس وقت کانگریس میں زیرِ بحث ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو
امریکی حکام نے انٹرنیٹ صارفین کو فائل کے تبادلے کی سہولت فراہم کرنے والی ویب سائٹ ’میگا اپ لوڈ‘ کو جعل سازی کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی بناء پر بند کر دیا ہے
ان اداروں کی ویب سائٹ پر جانے والے یا پتے پر کلک کرنے والے صارفین کے بھی کمپیوٹر سسٹم حملے سے متاثر ہو جاتے ہیں۔
نامعلوم ہیکرز گروپ’ ہیکرز اینونیمس‘ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ہیکرز کی جانب سے شائع کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ ہم گمنام، امریکی حکومت اور میوزک انڈسٹری کی ویب سائٹ پر اب تک کے سب سے بڑے حملے کا آغاز کر رہے ہیں، ایف بی آئی نہیں سمجھتی کہ وہ اس سے نکل پائیں گے، کیا وہ سمجھتے ہیں؟‘
ہیکرز کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ میگا اپ لوڈ بند کرنے کے ردعمل میں ایف بی آئی، یونیورسل میوزک سمیت دس ویب سائٹس کو بند کر دیا گیا ہے۔
جمعہ کو یونیورسل ویب سائٹ پر بیان درج تھا کہ ویب سائٹ پر کام جاری ہے اور اسے جلد ہی صارفین کے لیے دوبارہ دستیاب ہو گی
انٹرنیٹ سکیورٹی کے ادارے سوفوز بلاگ کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر کے ذریعے اور اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر معلومات کے تبادلے کے حوالے سے دستیاب دیگر ذرائع سے لنکس کو پھیلایا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے امریکی استغاثوں نے ویب سائٹ میگا اپ لوڈ پر جملہ حقوق رکھنے والوں کو پانچ سو ملین ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچانے کا الزام لگایا۔
تاہم امریکی محکمۂ انصاف کے مطابق میگا اپ لوڈ کے دو شریکِ بانی کم ڈاٹ کام اور متھیاس آرٹمین کو امریکی حکام کے کہنے پر نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ادارے کی ویب سائٹ پر درج کیے گئے ایک بیان کے مطابق میگا اپ لوڈ کے خلاف کارروائی امریکہ میں جملہ حقوق کی خلاف ورزی کی سب سے بڑی کارروائیوں میں سے ہے اور اس کارروائی کے تحت ان ویب سائٹوں کو نشانہ بنایا جائے گا جو جعل سازی میں ملوث ہیں۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے بروز بدھ آن لائن انسائیکلوپیڈیا ’وکی پیڈیا‘ سمیت ہزاروں دیگر ویب سائٹز نے امریکہ میں جملہ حقوق کے تحفظ کے مجوزہ قوانین کے خلاف احتجاجاً اپنی ویب سائٹز بند کر دی تھیں۔
یہ احتجاج ’سوپا‘ یعنی سٹاپ آن لائن پائریسی ایکٹ اور ’پیپا‘ یعنی پروٹیکٹ انٹیلیکچوئل پراپرٹی ایکٹ کے خلاف کیا گیا جو اس وقت کانگریس میں زیرِ بحث ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو