عرفان سعید
محفلین
(اقبال سے معذرت)
ہے ایسا بحر کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں
جو بیوی کو سمجھا آبجو تو چارہ نہیں
مرے مقام کو انجم شناس کیا جائے
قریب میں رہتی کوئی بھی ستارہ نہیں
وہ کانپ جاتی ہے دیکھ کر شہد کی مکھی
تو اس مکھی کو دانستہ میں نے مارا نہیں
جو روٹھ کر بیوی میکے چلی جاتی ہے
ابالتا ہوں انڈے کہ میں بچارہ نہیں
بڑے ہی چاؤ سے شمعیں میں نے جلائی تھیں
کہا تھا اس نے ترے ہاتھ میں غبارا نہیں
کبھی یہ سالے کبھی ساس میرے گھر میں رہیں
گیارہ بچوں کے ہمراہ اب یہ یارا نہیں
حیات کیمیا پڑھتے گزر گئی ہے مری
میں ایسا پاپڑ ہوں گویا جو کرارا نہیں
۔۔۔ عرفان ۔۔۔
جو بیوی کو سمجھا آبجو تو چارہ نہیں
مرے مقام کو انجم شناس کیا جائے
قریب میں رہتی کوئی بھی ستارہ نہیں
وہ کانپ جاتی ہے دیکھ کر شہد کی مکھی
تو اس مکھی کو دانستہ میں نے مارا نہیں
جو روٹھ کر بیوی میکے چلی جاتی ہے
ابالتا ہوں انڈے کہ میں بچارہ نہیں
بڑے ہی چاؤ سے شمعیں میں نے جلائی تھیں
کہا تھا اس نے ترے ہاتھ میں غبارا نہیں
کبھی یہ سالے کبھی ساس میرے گھر میں رہیں
گیارہ بچوں کے ہمراہ اب یہ یارا نہیں
حیات کیمیا پڑھتے گزر گئی ہے مری
میں ایسا پاپڑ ہوں گویا جو کرارا نہیں
۔۔۔ عرفان ۔۔۔