فرخ منظور
لائبریرین
غزل
ہے تیرے کان زلفِ معنبر لگی ہوئی
رکھے گی یہ نہ بال برابر لگی ہوئی
بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خُمِ مے کی طرح ہم
پر کیا کریں کہ مہر ہے منہ پر لگی ہوئی
چاٹے بغیر خون کوئی رہتی ہے تیری تیغ
ہے یہ تو اس کو چاٹ ستمگر لگی ہوئی
میت کو غسل دیجو نہ اس خاکسار کی
ہے تن پہ خاک کوچۂ دلبر لگی ہوئی
عیسیٰ بھی گر ہے پاس تو ممکن نہیں شفا
خورشید کو وہ تپ ہے فلک پر لگی ہوئی
نکلے ہے کب کسی سے کہ اُس کی مژہ کی نوک
ہے پھانس سی کلیجے کے اندر لگی ہوئی
کرتی ہے زیرِ برقع فانوس تانک جھانک
پروانہ سے ہے شمع مقرّر لگی ہوئی
بیٹھے ہیں دل کے بیچنے والے ہزار ہا
گزرے ہیں اُس کی رہگزر پر لگی ہوئی
یہ چاہتا ہے شوق کہ قاصد بجائے مہر
آنکھ اپنی ہو لفافۂ خط پر لگی ہوئی
منہ سے لگا ہوا ہے اگر جامِ مے تو کیا
ہے دل سے یاد ساقیِ کوثر لگی ہوئی
اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
(شیخ ابراہیم ذوق)
ہے تیرے کان زلفِ معنبر لگی ہوئی
رکھے گی یہ نہ بال برابر لگی ہوئی
بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خُمِ مے کی طرح ہم
پر کیا کریں کہ مہر ہے منہ پر لگی ہوئی
چاٹے بغیر خون کوئی رہتی ہے تیری تیغ
ہے یہ تو اس کو چاٹ ستمگر لگی ہوئی
میت کو غسل دیجو نہ اس خاکسار کی
ہے تن پہ خاک کوچۂ دلبر لگی ہوئی
عیسیٰ بھی گر ہے پاس تو ممکن نہیں شفا
خورشید کو وہ تپ ہے فلک پر لگی ہوئی
نکلے ہے کب کسی سے کہ اُس کی مژہ کی نوک
ہے پھانس سی کلیجے کے اندر لگی ہوئی
کرتی ہے زیرِ برقع فانوس تانک جھانک
پروانہ سے ہے شمع مقرّر لگی ہوئی
بیٹھے ہیں دل کے بیچنے والے ہزار ہا
گزرے ہیں اُس کی رہگزر پر لگی ہوئی
یہ چاہتا ہے شوق کہ قاصد بجائے مہر
آنکھ اپنی ہو لفافۂ خط پر لگی ہوئی
منہ سے لگا ہوا ہے اگر جامِ مے تو کیا
ہے دل سے یاد ساقیِ کوثر لگی ہوئی
اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
(شیخ ابراہیم ذوق)