ہے غلط گر گُمان میں کچھ ہے، درد

ملائکہ

محفلین
ہے غلط گر گُمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے؟

دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے

"لے خبر" تیغِ یار کہتی ہے
"باقی اس نیم جان میں کچھ ہے"

ان دنوں کچھ عجب ہے میرا حال
دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے

اور بھی چاہیے سو کہیے اگر
دلِ نا مہربان میں کچھ ہے

درد تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے؟

خواجہ میر درد
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، لا جواب، میری پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ہے یہ غزل، شکریہ آپ کا پوسٹ کرنے کیلیئے۔

امید ہے اپنے پسندیدہ کلام سے محفل کو نوازتی رہیں گی۔
 
ہے غلط گر گُمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے؟

دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے

"لے خبر" تیغِ یار کہتی ہے
"باقی اس نیم جان میں کچھ ہے"

ان دنوں کچھ عجب ہے میرا حال
دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے

اور بھی چاہیے سو کہیے اگر
دلِ نا مہربان میں کچھ ہے

درد تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے؟

خواجہ میر درد
ان دنوں کچھ عجب ہے حال مرا
دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے
 
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے​
تعارفِ شاعر:
مندرجہ بالا شعر خواجہ میردرؔد کا ہے ۔ خواجہ صاحب اُردُو کے پہلے صوفی شاعر ہیں ۔میرتقی مؔیر کے ساتھ کے شاعر ہیں مگر میؔر نے عشقِ مجازی کو زبان دی اور درؔد نے عشقِ حقیقی اختیار کیا۔ اِن ہی کے زمانے میں اُردُو شعر وسخن ایک اور بڑے شاعر کی تراوشِ فکر سے مالامال ہوااور وہ تھے مرزا محمد رفیع السودؔا جنھوں نے قصیدہ نگاری کو کمال کی بلندیاں عطا کیں۔
شعرکا مرکزی خیال:
فکر وخیال ، سان و گمان اور دھیان گیان میں ایک ہی ذات جلوہ گرہے ،وہ ربِ کریم ، مالکِ حقیقی ،اللہ تعالیٰ شہنشاہِ کائنات کی ذاتِ بابرکات ہے۔
فرہنگِ الفاظ:
الفاظمعانی
ہے غلط
گر
گمان
کچھ ہے
تجھ سوا
جہان

صحیح نہیں ہے
اگر کا مخفف
فکر و خیال
(یہاں اِس کا مطلب ہے) کوئی اور
تیرے سوا (یہاں اشارہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ واحد کی طرف ہے)
دنیا
تشریح:
شاعر کہہ رہے ہیں کہ لوگ مجھے دنیا کی بعض چیزوں کو شوق اور دلچسپی سے دیکھ کر یہ خیال کرتے ہیں کہ میں صوفی ،درویش اور اللہ لوک ہوتے ہوئے بھی دنیا اور اِس کے سازوسامان میں دلچسپی لے رہا ہوں اور اِس طرح دین داری کی بجائے دنیاداری کی طرف پلٹ رہا ہوں تو میرے بارے میں لوگوں کا یہ گمان سراسر غلط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ میں تو دنیا کی جو چیز دیکھتا ہوں اُسے اپنے رب کی تخلیق،کمالِ ہنر، بے مثال قدرت اور لاجواب صنعت کا شہکار سمجھتا ہوں ۔ تو کسی بھی چیز کو دیکھ کر مجھے وہی رب ِ ذوالجلال و الاکرام یاد آجاتا ہے جس کی بنائی یہ کائنات اور اِس کے مظاہر نظر کو تو اپنے طرف کھینچتے ہیں مگر خیال کو اُسی رب کی ہی طرف لیجاتے ہیں جس نے ہر ہر شے بنائی ہے اور وہی اُسے جب تک چاہتاہے قائم رکھتا اور پروان چڑھاتا ہے اور وہی ایسی باکمال شے تخلیق کرسکتا ہے ، کوئی اورہرگز نہیں ، بالکل نہیں ، قطعی نہیں ، کبھی بھی ایسا نہیں کرسکتا ۔
مماثل شعر:
انہی شاعر نے ایک اور جگہ اِسی خیال کو یوں نظم کیا ہے:​
نظر میرے دل کی پڑی درؔد کس پر
جدھر دیکھتا ہوں وہی رو بہ رو ہے​
 
آخری تدوین:

فہیم

لائبریرین
اس لڑی کو دیکھ کر یاد آیا کہ ملائکہ بھی محفل سے گم ہوئے لگ بھگ 4 سال ہوگئے۔
 
دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے ، ۔آن میں کچھ ہے​
تعارفِ شاعر:
میرتقی مؔیر، خواجہ میردرؔد اور مرزامحمد رفیع سوؔدا کا زمانہ ہم سے کہیں دور جاپڑا ہے مگر اُردُو شعر و ادب میں اُن کے کارہاے فضیلت مآب سے جو فروتنی اور خود انحصاری ،تمول، تونگر اور ثروت کا احساسِ استغنی ٰابھرکر سامنے آیا تھا وہ اب تک پوری شان اور آب وتاب سے موجود ہے اور اللہ کرے اِسی آن بان سے ہم میں رہے۔یہ شعر اِنہی تین بڑے شاعروں میں سے ایک یعنی حضرت میردرؔد رحمتہ اللہ علیہ کا ہے جنھوں نے اُردُو میں پہلی بار شاعری کے ہنر کو علم و آگہی اور معرفت ِ الہٰی کے مضامین کے لیے مختص کرناسکھایا اور پھر جو دیگر شعرا نے صاحبِ مذکور کی قائم کردہ عمارت میں فکر و احساس کے چراغ روشن کیے ہیں توآج تک وہ بقعہ ٔ نور اور مجسم طور ہے۔
شعر کا مرکزی خیال:
مظاہر کائنات دم بہ دم ہیئت اور کیفیت بدل رہے ہیں سو میں نے بھی منشاے حبیب جان کر یہی طور اپنا لیا ہے
فرہنگِ الفاظ:
الفاظمعانی
تیرے
ڈھنگ
آن
کچھ ہے
ربِ کریم کی طرف اشارہ ہے
طورطریق، رنگ ڈھنگ
وقت کی چھوٹی سی اِکائی گویا ایک پل
تبدیلی اور تغیر کا کنایہ
تشریح:
یہ ہمارے روزمرہ کے مشاہدے میں آنیوالی بات ہےکہ کائنات میں جو چیزیں ہمیں دکھائی دے رہی ہیں وہ دم بدم اپنی ہئیت حالت اور نام و مقام بدل رہی ہیں جیسے چاند ، سورج، ستارے، سیارے، پتے ، پودے ، درخت،ندی،دریا، سمندر،چرند، پرند اور ہم انسان سب کے سب ایک حالت پر زیادہ دیر رہتے نہیں یا رہ سکتے نہیں کہ یہ حکمِ خدا اور منشاے ایزدی ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔شاعر کہتےہیں کہ میرے رب کو اپنی مخلوق کے تغیرتبدل کی یہ ادا پسند ہے سو میں نے بھی یہی طریق اختیار کرلیا ہے ۔ اب جو دنیا کبھی مجھے خوش کبھی غمگین، کبھی مطمئن اور کبھی بیقراردیکھتی ہے تو یہ کیفیات مجھ میں اپنے محبوب کو متوجہ کرنے ، راضی رکھنے اور اُسے اپنی تسلیم و رضا دکھانے کے لیے ہیں۔میری حالت کا یہ تغیر میرے محبوب کو محبوب ہے پس مجھے بھی محبوب ہے۔
مماثل شعر:
خواجہ میردرؔد کے کہے اِس شعر کے مماثل حضرت بلھے شاہ ؒکا کہا یہ شعر ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کرارہا ہے تو سنیے:
رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی
سدو نی مینوں دھیدو۔، رانجھا ہیر نا آکھو کوئی​
ترجمہ:
ہیر کہہ رہی ہے کہ ہرپل ، ہر ساعت ، ہر آن رانجھے کا نام میرے لب پر ہے ، اُس کا تصورخیالوں میں رچا ہے اور اُس کی محبت میرے دل میں جاگزیں ہے ۔ اِس حال میں اب میں ہیر نہیں رہی سراپا رانجھا ہوگئی ہوں ۔ اے سہیلیو!۔مجھے ہیر کہہ کرنہیں رانجھا کہہ کر پکارو۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
لے خبر۔،، تیغِ یار کہتی ہے
باقی اِس نیم جان میں کچھ ہے​
تعارفِ شاعر:
کیا ہم ہندُستان میں سلطنتِ مغلیہ کے زوال کو ملک کی آیندہ تاریخ میں نازل ہونے والے ایک سے ایک وبال کا پیش خیمہ کہیں؟بالکل ایسا ہی ہے اور یہی کہا جائے گاکہ 1707ء اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد جو نالائق شہزادے مسندِ اقتدار پر براجمان ہوئے وہ بادشاہ کم مصیبت زیادہ تھے چنانچہ مندرجہ بالا شعر کے شاعر حضرت خواجہ میردرؔد یہ کہنے پر مجبورہوگئے :​
زندگی ہے ۔یا ۔،کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مرچلے​
کیا اُن کی یہ بات،یہ پکار یہ فریاد بادشاہِ وقت نے نہیں سنی ہوگی؟ ضرور سنی ہوگی مگر وہ اِسے سن کر واہ کرنے کےسوا کچھ بھی تو اور کرنہیں سکتے تھے۔ حکومت ہل رہی ہے تو ہلے ، ملک ڈوب رہا ہے تو ڈوبے ، قوم برباد ہے تو ہوا کرے شعر وادب تو ترقی پر ہے ،شعرائے کرام کا فکربلندپرواز اظہارِ خیال کے لیے سنگلاخ شعری زمینوں کے آگے بے بس اور معذور تو نہیں ہے۔یوں لگتا تھا یہی اُن کے اختیار و اقتدار کا اولیں مقصد تھا۔ایسے میں خواجہ میردرؔد نے اُردُو شاعری کو مسلسل ایسے مضامین سے روشناس کرایا جس میں قرب الہٰی کی جستجونمایاں اور دنیا سے بے التفاتی ظاہرتھی۔​
فرہنگِ الفاظ:
الفاظمعانی
لے خبر

تیغ ِ یار
نیم جان
اِس کے دومعنی ہیں لمبر ایک حال معلوم کرنا اور لمبر دو
سزادینا(نمبر کو لمبر کہنے میں غالب کا اتباع کیا ہے)
محبوب کی بھنوؤں کا استعارہ جوساخت میں تلوار کی طرح ہوتی ہیں
نیم مردہ (حال)
تشریح:
شاعر نے عمومی شاعرانہ پیرائے میں جوبات کہی ہے وہ اُن کے عقائد اور نظریات سے سراسر مطابقت رکھتی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ محبوب کے ایک بارنظر کرنے سے کمزور دل عاشق نیم جاں ہوکر گر پڑتا ہے ۔نیم جاں ہوکر گرپڑنے کی یہ لذت ایک عاشق ہی جانتا ہے ۔ اِس حال میں وہ زبانِ حال سے محبوب سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنے عاشق کو دیکھے اور اُس کا کا م تمام کردے یعنی کچھ جان باقی جو رہ گئی ہوتووہ بھی تن سے نکل جائے۔صوفیانہ مسلک کے تحت اِس شعر کا مطلب موسیٰ ؑکے واقعہ ٔ طور سے ملتا جلتا ہے۔عارفوں اور زاہدوں پر اسرارِ الہٰی کے بعض معمے جب قریب قریب حل ہوتے نظر آتےہیں مگر اِن کے استغراقِ توجہ اور شوق کی بیتابی کے سبب سے ایک بار پھر راز اور اسرار ہوجاتے ہیں تو یہاں شاعر اِن گر جانے والے پردوں کو ایک بار پھر اٹھادینے کی التجااور ہٹا دینے کی درخواست کررہے ہیں۔ باوجود اِس کے کہ موسیٰ ؑ کی طرح اِن میں بھی تاب و تواں نہیں کہ دید و باز دید کے مرحلے جھیل سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مماثل شعر:
خواجہ میردرؔد کے کلام میں کچھ اِسی طرح کی باتیں بعض دیگر مقامات پر بھی ملتی ہیں جیسے:​
روتی ہے چشم اب تئیں یہ تیری داد خواہ
کتنے ہی تیغ ِ ابرو نے۔۔۔ قصے چکا دئیے
٭٭٭
دونوں جہاں کی نہ رہی ۔۔۔۔۔پھر خبر اُسے
دو پیالے تیری آنکھوں نے جس کو پلا دئیے​
 
آخری تدوین:
Top