لے خبر۔،، تیغِ یار کہتی ہے
باقی اِس نیم جان میں کچھ ہے
تعارفِ شاعر:
کیا ہم ہندُستان میں سلطنتِ مغلیہ کے زوال کو ملک کی آیندہ تاریخ میں نازل ہونے والے ایک سے ایک وبال کا پیش خیمہ کہیں؟بالکل ایسا ہی ہے اور یہی کہا جائے گاکہ 1707ء اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد جو نالائق شہزادے مسندِ اقتدار پر براجمان ہوئے وہ بادشاہ کم مصیبت زیادہ تھے چنانچہ مندرجہ بالا شعر کے شاعر حضرت خواجہ میردرؔد یہ کہنے پر مجبورہوگئے :
زندگی ہے ۔یا ۔،کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مرچلے
کیا اُن کی یہ بات،یہ پکار یہ فریاد بادشاہِ وقت نے نہیں سنی ہوگی؟ ضرور سنی ہوگی مگر وہ اِسے سن کر واہ کرنے کےسوا کچھ بھی تو اور کرنہیں سکتے تھے۔ حکومت ہل رہی ہے تو ہلے ، ملک ڈوب رہا ہے تو ڈوبے ، قوم برباد ہے تو ہوا کرے شعر وادب تو ترقی پر ہے ،شعرائے کرام کا فکربلندپرواز اظہارِ خیال کے لیے سنگلاخ شعری زمینوں کے آگے بے بس اور معذور تو نہیں ہے۔یوں لگتا تھا یہی اُن کے اختیار و اقتدار کا اولیں مقصد تھا۔ایسے میں خواجہ میردرؔد نے اُردُو شاعری کو مسلسل ایسے مضامین سے روشناس کرایا جس میں قرب الہٰی کی جستجونمایاں اور دنیا سے بے التفاتی ظاہرتھی۔
فرہنگِ الفاظ:
الفاظ | | معانی |
---|
لے خبر
تیغ ِ یار
نیم جان | | اِس کے دومعنی ہیں لمبر ایک حال معلوم کرنا اور لمبر دو
سزادینا(نمبر کو لمبر کہنے میں غالب کا اتباع کیا ہے)
محبوب کی بھنوؤں کا استعارہ جوساخت میں تلوار کی طرح ہوتی ہیں
نیم مردہ (حال) |
تشریح:
شاعر نے عمومی شاعرانہ پیرائے میں جوبات کہی ہے وہ اُن کے عقائد اور نظریات سے سراسر مطابقت رکھتی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ محبوب کے ایک بارنظر کرنے سے کمزور دل عاشق نیم جاں ہوکر گر پڑتا ہے ۔نیم جاں ہوکر گرپڑنے کی یہ لذت ایک عاشق ہی جانتا ہے ۔ اِس حال میں وہ زبانِ حال سے محبوب سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنے عاشق کو دیکھے اور اُس کا کا م تمام کردے یعنی کچھ جان باقی جو رہ گئی ہوتووہ بھی تن سے نکل جائے۔صوفیانہ مسلک کے تحت اِس شعر کا مطلب موسیٰ ؑکے واقعہ ٔ طور سے ملتا جلتا ہے۔عارفوں اور زاہدوں پر اسرارِ الہٰی کے بعض معمے جب قریب قریب حل ہوتے نظر آتےہیں مگر اِن کے استغراقِ توجہ اور شوق کی بیتابی کے سبب سے ایک بار پھر راز اور اسرار ہوجاتے ہیں تو یہاں شاعر اِن گر جانے والے پردوں کو ایک بار پھر اٹھادینے کی التجااور ہٹا دینے کی درخواست کررہے ہیں۔ باوجود اِس کے کہ موسیٰ ؑ کی طرح اِن میں بھی تاب و تواں نہیں کہ دید و باز دید کے مرحلے جھیل سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مماثل شعر:
خواجہ میردرؔد کے کلام میں کچھ اِسی طرح کی باتیں بعض دیگر مقامات پر بھی ملتی ہیں جیسے:
روتی ہے چشم اب تئیں یہ تیری داد خواہ
کتنے ہی تیغ ِ ابرو نے۔۔۔ قصے چکا دئیے
٭٭٭
دونوں جہاں کی نہ رہی ۔۔۔۔۔پھر خبر اُسے
دو پیالے تیری آنکھوں نے جس کو پلا دئیے