شاہد شاہنواز
لائبریرین
ہے قدموں کے تلے زمیں نہ سر پہ آسمان ہے
یہ پتھروں سے سخت قلب والوں کا جہان ہے
یہ شور، یہ دھواں، یہ آگ، یہ لہو، یہ زلزلے
سزا ہے میرے جرم کی یا میرا امتحان ہے
کہیں پہ تیز بارشیں، کہیں پہ خشک سالیاں
کہیں پہ ہے حلق میں دل، کہیں لبوں پہ جان ہے
یہ آندھیاں اڑا کے لے کے جائیں گی مجھے کہاں
ہوا میں کوئی گھر نہیں، نہ خاک پر مکان ہے
کہاں پہ خاک میں دبا کے چل دئیے ہو دوستو
نہیں ہے روح نہ سہی، یہ جسم تو جوان ہے
وہ خالی ہاتھ ہیں مگر ہرا کے رکھ دیا ہمیں
ہیں گولیاں، نہ اسلحہ، نہ تیر نہ کمان ہے
چلو وہ پھول نہ سہی کہ جس کو پھول کہہ دیا
وہ خار بھی ہے کیا کہ جس پہ خار کا گمان ہے
عجیب سے ہیں لوگ ہم، عجب ہمارے حوصلے
دھواں دھواں سی زندگی پہ موت مہربان ہے
طبیب خود تڑپ رہا ہے جب دوا نہیں ملی
جسے نہ مل سکی ذرا سی گندم، اک کسان ہے
عظیم لوگ چل بسے تو شاہد آج ہم بچے
نہ جسم ہے نہ جان ہے، نہ نام ، نہ نشان ہے
ایک اور کوشش، اسی بحر میں، اتفاق سے قافیہ بھی یہی ہے:
کوئی بھی نام نہ ملا تو بس نشان بن گئے
ہمیں زمین لے اڑی، تم آسمان بن گئے
میں آگ میں جلا تو یوں جلا کہ راکھ ہوگیا
وہ دیکھنے میں خاک تھے، مگر چٹان بن گئے
تمہارے میرے پیار میں کئی جہان بن گئے
کئی جہاں تمہارے میرے درمیان بن گئے
میں کارواں کا راہبر تھا، دفن کردیا گیا
وہ رہزنی کے شوق ہی میں پاسبان بن گئے
میں پر خلوص ہو کے بھی جہاں میں نامراد تھا
وہ نفرتوں میں کامیاب و کامران بن گئے
مسافروں کی ہڈیاں بھی راہ سے نہیں ملیں
وہ پتھروں کا ڈھیر تھے جو کاروان بن گئے
وہ شعر خون سے لکھے گئے تھے اپنے وقت میں
جو کاغذوں میں قید ہوکے داستان بن گئے
مریض غم کو جن پہ اعتماد و اعتبار تھا
وہ چارہ گر تو خود عدوئے جسم و جان بن گئے
ستم کے شوق سے جو تھک نہیں سکے نہ مر سکے
وہ خون پی کے مفلسوں کا حکمران بن گئے
سراغ جو بھی مل گیا، الٹ پلٹ دیا گیا
گماں یقیں سے جا ملے، یقیں گمان بن گئے
محبتوں کی داستاں، جمال یار کا فسوں
کبھی مکین ہو گئے، کبھی مکان بن گئے
بن آئی جان پر تو شہنواز یہ کرم ہوا
سب ایک جسم و جان، ایک خاندان بن گئے
ان دو طویل کاوشوں پر تنقید کی درخواست ہے۔۔۔
الف عینمزمل شیخ بسمل
محمد وارث
مہدی نقوی حجاز
سیدہ سارا غزل
محمد اظہر نذیر
فاتح
سیدہ شگفتہ
ابن سعید
شمشاد
اسد قریشی
محمد بلال اعظم