کوئی بھی نام نہ ملا تو بس نشان بن گئے۔۔۔ ہمیں زمین لے اڑی، تم آسمان بن گئے
//مفہوم سے عاری؟
یہی سوال آج کل اپنے ہر مطلعے پر کر رہا ہوں، امید ہے کہ صورتحال میں جلد بہتری آئے گی:
کوئی بھی نام نہ ملا تو بس نشان بن گئے، نہ ہم زمیں پہ رہ سکے نہ آسمان بن گئے، لیکن یہاں آسمان بن سکے کا خیال ہونا چاہئے تھا، تو ایک اور کوشش ہے:
کوئی بھی نام نہ ملا تو بس نشان بن گئے، سفر میں تھے کہ گرد راہ کاروان بن گئے
**میں آگ میں جلا تو یوں جلا کہ راکھ ہوگیا۔۔۔ ۔ وہ دیکھنے میں خاک تھے، مگر چٹان بن گئے
//دیکھنے میں ہی کیوں؟ ’مگر‘ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کچھ اور بننا چاہئے تھا۔ یہ صورت کچھ بہتر ہو۔
جو خاک لگ رہے تھے، کس طرح چٹان بن گئے
÷÷مجھے تو ٹھیک لگتی ہے یہ صورت یعنی: میں آگ میں جلا تو یوں جلا کہ راکھ ہوگیا، جو خاک لگ رہے تھے کس طرح چٹان بن گئے، کیا آپ کو بھی ٹھیک لگتی ہے؟
تمہارے میرے پیار میں کئی جہان بن گئے۔۔۔ کئی جہاں تمہارے میرے درمیان بن گئے
پیار میں جہان کا بننا سمجھ میں نہیں آیا۔
÷÷ تمہارے انتظار میں کئی جہان بن گئے، کئی جہاں تمہارے میرے درمیان بن گئے۔۔۔ کیا یہ صورت بہتر ہے؟
**میں کارواں کا راہبر تھا، دفن کردیا گیا۔۔۔ وہ رہزنی کے شوق ہی میں پاسبان بن گئے
//راہبر کی تدفین کی جگہ گمراہی بہتر ہوگی۔
میں کارواں کا راہبر تھا، راہ گم کیا گیا
÷÷ اور راہزنی کا شوق؟ِ کیا محترم اسد قریشی کی بات مان لی جائے؟
میں پر خلوص ہو کے بھی جہاں میں نامراد تھا۔۔۔ وہ نفرتوں میں کامیاب و کامران بن گئے
بن گئے یا ہو گئے؟ ہر جگہ بن گئے درست نہیں ہوتا۔ اگر رکھنا بھی ہو تو یہ شکل بہتر ہے
وہ نفرتوں کے باوجود کامران بن گئے
÷÷÷درست۔۔۔
مسافروں کی ہڈیاں بھی راہ سے نہیں ملیں۔۔۔ وہ پتھروں کا ڈھیر تھے جو کاروان بن گئے
راہ سے یا راہ ’میں‘؟ کاروان کس طرح بن گئے۔ اس شعر کو بھی نکال دو،
÷÷÷درست(شعر رد)۔۔۔
وہ شعر خون سے لکھے گئے تھے اپنے وقت میں ۔۔۔ جو کاغذوں میں قید ہوکے داستان بن گئے
شعر تو نثری داستان نہیں بن سکتے۔ پہلے مصرع میں محض تحریر کا ذکر کرو تو بہتر ہے۔ لیکن پھر ردیف کہاں جائے گی؟
وہ فقرے خون سے لکھے گئے تھے اپنے وقت میں ۔۔۔ جو کاغذوں میں قید ہو کے داستان بن گئے، فقرے کی جگہ لفظ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔
**مریض غم کو جن پہ اعتماد و اعتبار تھا۔۔۔ ۔ وہ چارہ گر تو خود عدوئے جسم و جان بن گئے
//درست
ستم کے شوق سے جو تھک نہیں سکے نہ مر سکے۔۔۔ ۔ وہ خون پی کے مفلسوں کا حکمران بن گئے
ستم کا شوق یا ستم گری کا شوق؟ اس کے علاوہ تھکن اور موت سے کیا مراد ہے ظالموں کی۔
ستم گروں پہ پتھروں کی بارشیں نہیں ہوئیں ۔۔ وہ خون پی کے مفلسوں کا حکمران بن گئے۔۔۔
**سراغ جو بھی مل گیا، الٹ پلٹ دیا گیا۔۔۔ گماں یقیں سے جا ملے، یقیں گمان بن گئے
//درست
محبتوں کی داستاں، جمال یار کا فسوں۔۔۔ کبھی مکین ہو گئے، کبھی مکان بن گئے
//شعر دو لخت ہے۔
محبتوں کی داستاں جمال یار کا فسوںکبھی یقین ہوگیا، کبھی گمان بن گئے، یہ اسد قریشی صاحب کا مشورہ تھا، لیکن کیا یہ بھی دو لخت ہےِ؟کیونکہ سوائے مکین اور مکان کو یقین و گمان سے بدلنے کے، اور کچھ نہیں کیا گیا۔۔۔ اگر یہی بات ہے تو اس پر بھی کوشش کروں گا کہ کوئی اور شعر لکھ دوں۔۔۔