رضا ہے لبِ عیسیٰ سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں

مہ جبین

محفلین
ہے لبِ عیسیٰ سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں​
سنگریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں​
بے نواؤں کی نگاہیں ہیں کہاں تحریر دست​
رہ گئیں جو پا کے جودِ لایزالی ہاتھ میں​
جود شاہِ کوثر اپنے پیاسوں کا جویا ہے آپ​
کیا عجب اُڑ کر جو آپ آئے پیالی ہاتھ میں​
مالکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں​
دو جہاں کی نعمتیں ہیں اُنکے خالی ہاتھ میں​
سایہ افگن سر پہ ہو پرچم الٰہی جھوم کر​
جب لواءالحمد لے ، امت کا والی ہاتھ میں​
دستگیِر ہر دوعالم کردیا سبطین کو​
اے میں قرباں جانِ جاں انگشت کیا لی ہاتھ میں​
آہ وہ عالم کہ آنکھیں بند اور لب پر درود​
وقف سنگِ در جبیں روضہ کی جالی ہاتھ میں​
جس نے بیعت کی بہارِ حسن پر قرباں رہا​
ہیں لکیریں نقش تسخیرِ جمالی ہاتھ میں​
کاش ہو جاؤں لبِ کوثر میں یوں وارفتہ ہوش​
لے کر اُس جانِ کرم کا ذیل عالی ہاتھ میں​
آنکھ محوِ جلوہء دیدار دل پُرجوشِ وجد​
لب پہ شکر بخشش ساقی پیالی ہاتھ میں​
حشر میں کیا کیا مزے وارفتگی کے لوں رضا​
لوٹ جاؤں پاکے وہ دامانِ عالی ہاتھ میں​
اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃاللہ علیہ​
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ​
مالکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں​
دو جہاں کی نعمتیں ہیں اُنکے خالی ہاتھ میں​
 

الف نظامی

لائبریرین
تضمین بر کلام حضرت رضا بریلوی از سید نصیر الدین نصیر

رکھ دیا قدرت نے اعجازِ مثالی ہاتھ میں
منتظر ہے حکم کا گنج لآلی ہاتھ میں
سبز ہوجائیں جو پکڑیں خشک ڈالی ہاتھ میں
ہے لب عیسی سے جاں بخشی نرالی ہاتھ
سنگ ریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں

اس کا فیضِ عام سائل کو صدا دیتا ہے آپ
وہ جہانِ لطف و احسان میں جواب اپنا ہے آپ
میں یہ جانچا ہے ، یہ پرکھا ہے ، یہ دیکھا ہے آپ
جودِ شاہ کوثر اپنے پیاسوں کا پیاسا ہے آپ
کیا عجب اڑ کر جو آپ آ جائے پیالی ہاتھ میں

ان کا اندازِ عطا کچھ بے خرد ، سمجھے نہیں
مانگنے والوں کے یوں‌ہی رابطے ان سے نہیں
ہم نے دیکھے ہیں ، مگر ایسے غنی دیکھے نہیں
مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں

میرے خالق! حشر میں امت کا یہ مقسوم کر
پل سے گزرے ان کے نعلینِ مبارک چوم کر
ہر طرف سے اک یہی آواز آئے گھوم کر
سایہ افگن سر پہ ہو پرچم الہی جُھوم کر
جب لواءُ الحمد لے امت کا والی ہاتھ میں

زانووں کا پیار سے منبر دیا سبطین کو
کیا شباہت کا حسیں منظر دیا سبطین کو
نعمتِ باطن سے ایسا بھر دیا سبطین کو
دستگیر ہر دو عالم کردیا سبطین کو
اے میں قرباں جانِ جاں انگشت کیا لی ہاتھ میں

بانٹنے کو آئے جب وہ ساقی کاکُل بدوش
ہر ادا جس کی خود اک ہنگامہ محشر خموش
سرد پڑ جائے مرے بحر تعقل کا خروش
کاش ہو جاوں لبِ کوثر میں‌یوں وارفتہ ہوش
لے کر اس جانِ کرم کا ذَیلِ عالی ہاتھ میں

حاضری کا کیا وہ منظر تھا نہِ چرخِ کبود
ہاتھ اٹھتے ہی وہ ابوابِ اجابت کی کشود
دل کی دنیا پر وہ انوارِ سکینت کا وُرُود
آہ وہ عالم کی انکھیں بند اور لب پر دُرُود
وقفِ سنگِ در جبیں ، روضے کی جالی ہاتھ میں

اے نصیر اس نعت میں لائے ہیں کیا مضموں ، رضا
کملی والے کے ثنا خواں ، عاشق و مفتوں رضا
شاہ کے پائے مبارک پر جو بوسہ دوں رضا
حشر میں کیا کیا مزے وارفتگی کے لوں رضا
لوٹ جاوں پا کے ان کو ذَیلِ عالی ہاتھ میں

چھوٹاغالبؔ
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
واہ سائیں واہ
آپی جی نے کیا کمال کا کلام شیئر کیا
اور نظامی برادر کیا کمال کی تضمین لائے
نور علی نور
جزاکم اللہ بے شمار
 

مہ جبین

محفلین
نایاب بھائی ، حسیب نذیر گِل ، الف نظامی بھائی ، چھوٹاغالبؔ اور زحال مرزا بھائی !

آپ سب حضرات کا نعت کی پسندیدگی کا بہت شکریہ

خصوصاً الف نظامی کا بے حد شکریہ کہ انہوں نے سید نصیر الدین نصیر رحمۃاللہ علیہ کی تضمین پوسٹ کی تو اعلیٰ حضرت کا کلام مزید نکھر کر سامنے آیا

جزاکم اللہ و احسن الجزاء
 
Top