کاشفی
محفلین
غزل
(حسرت موہانی)
ہے مشقِ سخن جاری، چکّی کی مشقّت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
جو چاہو سزا دے لو ، تم اور بھی کُھل کھیلو !
پر ہم سے قسم لے لو ، کی ہو جو شکایت بھی
دشوار ہے رندوں پر انکارِ کرم یکسر
اے ساقیء جاں پرور کچھ لطف و عنایت بھی
دل بسکہ ہے دیوانہ اس حُسنِ گلابی کا
رنگیں ہے اسی رو سے شاید غمِ فرقت بھی
خود عشق کی گستاخی ، سب تجھ کو سِکھا لےگی
اے حُسنِ حیا پرور! شوخی بھی شرارت بھی
برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی
عشاق کے دل نازک، اس شوخ کی خو نازک
نازک اسی نسبت سے ہے کارِ محبت بھی
رکھتے ہیں مِرے دل پر کیوں تہمتِ بیتابی
یاں نالۂ مضطر کی جب مجھ میں ہو قوّت بھی
اے شوق کی بیباکی وہ کیا تِری خواہش تھی
جس پر اُنہیں غصہ ہے، انکار بھی حیرت بھی
ہر چند ہے دل شیدا ، اس حریتِ کامل کا
منظورِ دُعا لیکن ہے قید محّبت بھی
ہیں شادؔ و صفی ؔ شاعر یا شوقؔ و وفاؔ حسرتؔ
پھر ضامنؔ و محشرؔ ہیں، اقبالؔ بھی وحشتؔ بھی
(حسرت موہانی)
ہے مشقِ سخن جاری، چکّی کی مشقّت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
جو چاہو سزا دے لو ، تم اور بھی کُھل کھیلو !
پر ہم سے قسم لے لو ، کی ہو جو شکایت بھی
دشوار ہے رندوں پر انکارِ کرم یکسر
اے ساقیء جاں پرور کچھ لطف و عنایت بھی
دل بسکہ ہے دیوانہ اس حُسنِ گلابی کا
رنگیں ہے اسی رو سے شاید غمِ فرقت بھی
خود عشق کی گستاخی ، سب تجھ کو سِکھا لےگی
اے حُسنِ حیا پرور! شوخی بھی شرارت بھی
برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی
عشاق کے دل نازک، اس شوخ کی خو نازک
نازک اسی نسبت سے ہے کارِ محبت بھی
رکھتے ہیں مِرے دل پر کیوں تہمتِ بیتابی
یاں نالۂ مضطر کی جب مجھ میں ہو قوّت بھی
اے شوق کی بیباکی وہ کیا تِری خواہش تھی
جس پر اُنہیں غصہ ہے، انکار بھی حیرت بھی
ہر چند ہے دل شیدا ، اس حریتِ کامل کا
منظورِ دُعا لیکن ہے قید محّبت بھی
ہیں شادؔ و صفی ؔ شاعر یا شوقؔ و وفاؔ حسرتؔ
پھر ضامنؔ و محشرؔ ہیں، اقبالؔ بھی وحشتؔ بھی
آخری تدوین: