اضافتوں کا وزن نہیں ہوتا لیکن کسرہ یا 'زیر' کی عروض میں ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ جہاں ضرورت ہو اس کو کھینچ کر 'یے' بنا لیتے ہیں اور اس سے وزن پورا ہو جاتا ہے۔ جیسے اس رباعی میں 'آخر' جس مقام پر ہے وہاں یہ لفظ وزن کے مطابق آ نہیں سکتا، اسی لیئے میں اسے "آخری" سمجھا۔ جبکہ شاعر نے اس "آخرِ" (اضافت کے ساتھ) "آخرے" وزن کیا ہے آخری اور آخرے کا وزن ایک ہی ہے، یعنی کسرہ کو کھینچ کر 'یے' بنا لیا۔
اس کو 'اشباع' کہتے ہیں یعنی کھینچنا لیکن یہ عمل صرف وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں ضرورت ہو وگرنہ اگر اشباع کے بغیر وزن پورا ہو رہا ہو تو پھر اس کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
رباعی کی تقطیع میں کر دیتا ہوں:
رخ مہر ہے، قد خطِّ شعاعی کی طرح (مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع)
رخ مہر - مفعول
ہ قد خط اے - مفاعیل
شعاعی کی - مفاعیلن
طرح - فاع (طرح کو رے ساکن، فاع اور متحرک فَعَل دونوں طرح تلفظ کرنا جائز ہے اس پوری رباعی میں رے ساکن یا فاع کے وزن پر ہے)
وہ گلّہِ امّت میں ہے راعی کی طرح (مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع)
وہ گل لَ - مفعول
اے ام مت مِ - مفاعیل
ہ راعی کی - مفاعیلن
طرح - فاع
اس خاتمِ انبیاء کا آخر میں ظہور (مفعول مفاعلن مفاعیل فعول)
اس خا تَ - مفعول
مِ ام بِ یا - مفاعلن
کَ آخر مِ - مفاعیل
ظہور - فعول
ہے مصرع آخرِ رباعی کی طرح (مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع)
ہے مصرع - مفعولن
آ خ رے - فاعلن (یہاں پر اگر اضافت نہ ہو تو آخر فعلن کے وزن پر آئے گا جو کے رباعی کے وزن میں نہیں آ سکتا)
رباعی کی - مفاعیلن
طرح - فاع