کاشفی
محفلین
غزل
ہے نگاہ لطف دشمن پر تو بندہ جائے ہے
یہ ستم اے بیمروت کس سے دیکھا جائے ہے
سامنے سے جب وہ شوخ دلربا آجائے ہے
تھامتا ہوں پر یہ دل ہاتھوں سے نکلا جائے ہے
حالِ دل کس سے کہوں میں کس سے دیکھا جائے ہے
سر اُٹھے بالیں سے کیا کچھ جی ہی بیٹھا جائے ہے
تاب و طاقت ، صبرو راحت، جان و ایماں، عقل و ہوش
ہائے کیا کہئے کہ دل کے ساتھ کیا کیا جائے ہے
غیر کے ہمراہ وہ آتا ہے میں حیراں ہوں
کس کے استقبال کو جی تن سے نکلا جائے ہے
جان نہ کھا وصل عدو سچ ہی سہی پر کیا کروں
جب گلہ کرتا ہوں ہمدم وہ قسم کھا جائے ہے