یادوں نے مٹ جانا ہے

عبدالمغیث

محفلین
تُو خوش ہے یا اُداس ہے ، یہ وقت گزر ھی جانا ہے

تُو چاہے یا نہ چاہے ، نیا موسم پھر بھی آنا ہے

خزاں سدا خزاں نہیں ، اور بہار سدا بہار نہیں

رُت بدلے گی اور پھر سارے، پتوں نے جھڑ جانا ہے

بچپن گزرا لڑکپن گزرا، یہ جوانی بھی ڈھل جائے گی

اُدھیڑ عمر میں ماضی کی پھر یادوں نے تڑپانا ہے

سب کھیل کھلونے پیار محبت اور جذبوں کی آتش انگیزی

سب چھوٹیں گے اور پھر دل نے چاند راتوں میں گھبرانا ہے

پھر نیند ابد کی آئے گی ، ترا بستر ہو گا مٹی نیچے

تُو چھوڑ چلے گا دنیا کو ، تری یادوں نے رہ جانا ہے

تجھے چاہنے والے یاد کریں گے، ترا ذکر کریں گے کبھی کبھی

یوں گاہے بگاہے اِدھر اُدھر، ترے قصوں نے چھڑ جانا ہے

پھر وقت کا پہیہ گھومے گا اور ماند پڑے گا ماضی بھی

کبھی بستا تھا یاں عبدل اک، اِن یادوں نے مٹ جانا ہے

عبدالمغیث​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بچے کو چاہئے کہ خوب پڑھے اور مزاج میں ہی موزونیت پیدا کرے تاکہ عروض کی نا واقفیت کا ازالہ ہو سکے
 
Top