محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
ابھی آنکھ پوری طرح کھولی بھی نہیں تھی لیکن یاد ہے کہ وارث ڈرامہ گھر میں چلا کرتا تھا۔ چاہے سفر کر رہے ہوں، کراچی میں ہوں، پشاور میں ہوں، جب وارث لگ جاتا تو سب کے سب ٹی وی کے آگے ہوتے۔ اسی کے ساتھ بچپن کی قدیم ترین یادوں میں سے ایک عمو جان کی ہے۔ عمو جان بینک میں ملازمت کرتے تھے، بہترین انگریزی جاننے والے بلکہ ہر وقت انگریزی ہی پڑھنے والوں میں سے تھے۔ انہیں شوگر تھی۔ وہ کراچی میں ہوتے تھے اور بہت پہلے ان کی وفات ہو گئی جب فقیر ایسے ہی پانچ سات برس کا تھا۔ تو پھوپھو کا کراچی والا گھر ہے، عمو جان بیٹھے ہوئے ہیں، ٹی وی پر وارث ڈرامہ ری ٹیلی کاسٹ ہو رہا ہے، پیر سامنے کو پھیلائے ہوئے ہیں کہ ایک بچہ سامنے سے گذرتا ہے اور ان کا انگوٹھا بری طرح سے رگڑتا ہوا چلا جاتا ہے۔ اب شوگر کا مریض اور پیر کا انگوٹھا، معاملے کی نزاکت کا اندازہ کر لیجیے۔ خیر، پیار بھرے غصے سے گھورا اور کہا، ”چٌندھے، کہاں دیکھ رہے تھے؟“ اور یہ حقیقت ہے کہ چندھا آج بھی راستہ دیکھ کر نہیں چلتا، کوئی سواری نیچے ہو تب بھی سپیڈ بریکر اور گڑھے نظر نہیں آتے۔ تو وارث ڈرامہ جب بھی جہاں بھی چلتا ہے، نہ معلوم کیوں یہ عمو جان والا سین یاد آ جاتا ہے۔
آنگن ٹیڑھا کی بات کریں تو شاید اس سے لطیف مزاحیہ ڈرامہ اردو زبان میں لکھنا دوبارہ ممکن نہ ہو۔ سلیم ناصر ایسا کام کر گئے جو ہمیشہ یاد رکھا جانے والا تھا۔ لہک لہک کر چلنا، طنزیہ فقرے ایسے تاثرات سے ادا کرنا جیسے بس ابھی ان کے ذہن میں آئے ہوں، کتھک سے ان کی دلچسپی اور روٹیاں پکاتے وقت اس کا اظہار، دو تین منظر تو اس وقت بھی دماغ میں چل رہے ہیں۔ بشری انصاری لڑ رہی ہیں ان سے اور کہتی ہیں، ”آج اس گھر میں فیصلہ ہو کر رہے گا“ اور یہ ترنت کہتے ہیں، ”یا میں رہوں گی اس گھر میں یا تو رہے گا“ تو بشری انصاری کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔
یا وہ محبوب صاحب کے آنے پر جب سلیم ناصر کو صندوق میں بند کر دیتے ہیں، اور ان کا صرف ایک ہاتھ باہر لہرا رہا ہوتا ہے، یا پھر وہ جب شکیل لوٹا لیے باتھ روم سے آ رہے ہوتے ہیں تو سلیم پوچھتے ہیں، ”صاحب آپ دفتر جا رہے ہیں یا وہاں سے آ رہے ہیں“ شکیل پوچھتے ہیں کیوں بھئی، تو سلیم طنزیہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ”ویسے ہی یہ آپ کے ہاتھ میں بریف کیس (لوٹا) دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔ “ شکیل نے بھی اس ڈرامے میں کمال کردار نبھایا، جھولے میں پڑے ہیں یا بستر پر دراز ہیں، ایک ہاتھ سے ہلکے ہلکے مونچھ سہلائے جاتے ہیں اور کچھ گنگنا رہے ہیں، ریٹائرمنٹ کی زندگی ہے، کم آمدن ہے، مزے ہیں اور ہم ہیں۔ بیگم جو مرضی کہتی رہیں، ادھر سے سن کر ادھر سے نکال رہے ہیں، زیر لب تبسم ہے، تہذیب سے بات ہوتی ہے، مجسم ڈھل چکے اپنے کردار میں اور پورا ڈرامہ اسے انجوائے کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔
بشری انصاری کی بات کیجیے تو کہنے کو کچھ نہیں رہتا۔ ایسی اداکارہ کہ آج تک جس کردار کو ادا کیا، اسے یادگار بنا دیا۔ ہماری نسل انہیں آنگن ٹیڑھا یا اٹس مائی لائف وغیرہ سے یاد کرے گی تو نئی نسل انہیں تاکے کی بارات کے حوالے سے یاد کرتی ہے۔ شوخ کردار تو خیر کیا ہی خوب نبھائے لیکن ٹریجک معاملات میں بھی ان کا کوئی جواب نہیں ہے، ابھی اڈاری کی مثال ہمارے سامنے ہے، اداکاری، ایسی اداکاری جس کا کوئی پاسنگ نہ ہو بہت مشکل کام ہے اور وہ ایسی ہی لاجواب فن کارہ ہیں۔ چودھری صاحب اور ان کی بہن کا کردار دیکھ لیجیے، ایسے کئی کردار ہم روزانہ کی زندگی میں اب بھی دیکھتے ہیں لیکن، اب اگر ان دو کرداروں کو دیکھا جائے تو کچھ علاقائی تعصب بھی نظر آتا ہے، یہ اپنے دماغ کا فتور ہے شاید، اس لیے اس بات کا مکو ادھر ہی ٹھپ دیتے ہیں۔ ہاں اس کا وہ ساؤنڈ ٹریک بھی بہت شاندار تھا، اب لاگی ناہی چھوٹے۔
کیسے کیسے کردار تھے، کیا اداکاری تھی، وارث دو مرتبہ دیکھا، کسی ایک اداکار پر آپ انگلی نہیں رکھ سکتے کہ اس سے بہتر اداکاری کر لیتا، مطلب جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔ چودھری حشمت عرف محبوب عالم کو دیکھ لیجیے، اس کے بعد زندگی بھر جو مرضی کرتے گئے، رہے وہ چودھری حشمت ہی، اس کردار کی چھاپ سے نکلنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ منور سعید، ثمینہ احمد، فردوس جمال، عابد علی، اورنگزیب لغاری، عظمیٰ گیلانی، طاہرہ نقوی، شجاعت ہاشمی، غیور اختر، سجاد کشور، آغا سکندر کس کس کو یاد کیا جائے۔
اندھیرا اجالا ہوا کرتا تھا۔ یا خدا اس قدر شہرت، بڑوں سے زیادہ بچوں کو پسند تھا اور دونوں مل کر شوق سے دیکھتے تھے۔ آج کل کا سی آئی ڈی اور ہمارا اندھیرا اجالا دیکھ لیجیے، فرق صاف نظر آ جائے گا کہ تمام عمر کے آڈئینس کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈرامہ کیسے بنایا جائے۔ اندھیرا اجالا کس قدر مشہور تھا اس کا اندازہ یہاں سے کیجیے کہ قوی خان اور عرفان کھوسٹ کی شکلوں والے گتے کے ماسک گلی گلی بکتے تھے اور بیچتا کون تھا، غبارے والے۔ چونی یا اٹھنی کا ایک ماسک لگائے ہم لوگ ایسے خوش ہوتے تھے جیسے آج بچے سپر مین کا مہنگا ترین کاسٹیوم پہن کر اچھلتے پھرتے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک اعلی پولیس افسر کا امیج ہمارے ذہن میں یہی رہا کہ قوی خان جیسا کوئی دراز قد، خوب صورت اور ایماندار جوان ہوتا ہے، غصہ، سنجیدگی اور اصول پرستی جس کے ناخنوں میں بھرے ہوتے ہیں اور جو تمام جونیر افسروں کی، بشمول جعفر حسین ڈائریکٹ حوالدار دن میں دو مرتبہ کلاس لیتا ہے۔ پنجاب پولیس کو اس سے بہتر ٹریبیوٹ شاید ہی کبھی پیش کیا جا سکتا ہو۔ ”داہ جماعت پاس ہوں، ڈریکٹ حوالدار ہوں“۔ یہ ڈائیلاگ آج بھی بولا جاتا ہے، اس سے زیادہ کامیابی کسی ڈرامے کی کیا ہو سکتی ہے؟
یا خدا لکھتے لکھتے پانچ سو صفحے کالے ہو جائیں پر اس دور کے فنکاروں کا حق ادا نہیں ہو گا، دماغ بھٹکا ہے تو بس ایک گھوڑا ہے جو سرپٹ دوڑے چلا جا رہا ہے، طلعت حسین، اورنگزیب لغاری، فردوس جمال، عابد علی، خیام سرحدی، شفیع محمد، سہیل اصغر، رضوان واسطی، قاسم جلالی، گلاب چانڈیو، انیتا کیمفر اور نہ جانے کن کن کے نام آتے جا رہے ہیں۔
طلعت حسین بھی اپنی ذات میں ایک ادارہ ہوئے، جو کردار کیا، ایسے جم کر کیا کہ اسے امر کر گئے۔ کشکول، پرچھائیاں، دیس پردیس، ہوائیں، کیا کیا یاد کیا جائے۔ شفیع محمد اور اورنگزیب لغاری نے دھیمے لہجے میں وہ ستم ڈھائے کہ بلند آہنگ صدا کار بھی دبنے لگے، کسی ظالم وڈیرے کا کردار ہو شفیق باپ کا یا بڑے بھائی کا، یہ دونوں اداکار اپنے ہی انداز میں اسے نبھاتے اور جان بھر دیتے۔ فردوس جمال کی بات ہو تو وہ اسی ورسیٹیلیٹی کا شاہ کار دکھتے ہیں جو نصیر الدین شاہ، طلعت حسین، خیام سرحدی، عابد علی یا سہیل اصغر میں پائی جاتی ہے۔ کیا ہم چودھری حشمت کا لاڈلا جوان بیٹا بھول سکتے ہیں، یا وہ موچی جو من چلے کا سودا میں دل کے بھید بتاتا نظر آتا تھا؟
ان کہی، دھوپ کنارے، مراة العروس، چاند گرہن، با ادب باملاحظہ ہوشیار، اور نہ جانے کون کون سے ڈرامے ہوتے تھے۔ کیا کیا صفت گنوائی جائے ان ڈراموں کی، بندہ بشر ہے اور کام لافانی تھے، رہتی دنیا تک رہنے والے تھے۔ مرینہ خان زویا بنیں اور اس زمانے میں پیدا ہونے والی تمام بچیاں زویا ہو گئیں۔ پھر مرینہ خان کے بال بہت جلد سفید ہو گئے، پھر انہوں نے کام بھی بہت کم کیا، لیکن زویا جیسی بوائے کٹ خوب صورت لڑکی آج تک دوبارہ نظر نہیں آئی۔ دنیا کی ان چند لڑکیوں میں سے ایک جنہیں چھوٹے بال بھی سوٹ کرتے ہیں اور واللہ کیا سوٹ کرتے ہیں۔ شہناز شیخ کا بھی یہی معاملہ ہے، انہوں نے بھی بہت جلد بال سفید کر لیے، مرینہ خان کا نام ذہن میں آتے ہی ان کا نام بھی یاد آ جاتا ہے، ٹی وی ڈرامے کا فن کیا تھا، کس عروج پر تھا، اس سے اندازہ کر لیجیے۔ بہروز سبزواری قباچہ بنے اور آج تک فقیر کو ان کا اصل نام ذہن پر زور دے کر یاد کرنا پڑتا ہے، قطب الدین قباچہ ہمارے ذہنوں کا حصہ ہے۔ڈرامے کا نام یاد نہیں لیکن عابد علی شاید اس میں ٹرک ڈرائیور بنے تھے، انہوں نے دیوث دا پتر کا لفظ استعمال کیا، آہا، تب پتہ لگا کہ یہ کوئی گالی ہے لیکن گالی آج تک یاد ہے۔ پھر وہ طلعت حسین کا عالی جاہ بننا بھی یاد ہے، قریشی اپنا یار، کیا نقل اتارتا تھا عالیجاہ کی۔ کیا کیا لوگ یاد آتے جا رہے ہیں، گلاب چانڈیو نے چاند گرہن میں ولن کو اوج ثریا پر پہنچا دیا، ”ہائے ہائے ہائے ہائے گلو رانی“، جس طرح دل کو تھام کر بولتے، منفی کردار کے باوجود دماغوں میں اتر جاتے تھے۔
نور محمد لاشاری کا وہ ملاکھڑے والا سین جس میں جانو جرمن مراد علی شاہ سے انگریزی زبان کا ملاکھڑا کرتا ہے، اور وہ پنچ بنتے ہیں، یا افتخار قیصر کا اب میں بولوں یا نہ بولوں، یا پھر وہ اسماعیل شاہد کا دا جی بننا اور جھوٹ کی عادت نہیں مجھے کو سپر ہٹ کر دینا۔ اللہ و اکبر، کیا زمانہ تھا، کیا لوگ تھے۔
جس اداکار کو میں بچپن سے دیکھتا آیا، چاہتا آیا، پسند کرتا آیا، جس کی نقل میں ہم لوگ وہ ڈائیلاگ دہراتے تھے۔ ایک روپا، ایک روپا، دو دھڑ والا بچہ دیکھو، ایک روپا۔ اس ڈائیلاگ کو بولنے والا رلیا امر ہو گیا۔ وہ سہیل اصغر جو گاتا پھرتا تھا، چمبیلی کے بازار میں وچھی گرا رے۔ جو سرائیکی لہجے میں کہتا تھا، صدقے تھیواں، میں بندہ ہوں ذرا وکھری ٹائپ کا، تو یہ ڈائیلاگ رکشوں تک کے پیچھے لکھا نظر آتا تھا۔ اور جو آنکھوں میں مکمل جلال بھر کے کہتا تھا، ”بابا ہم مالک ہیں اس زمین کے، ہمارے حکم کے بغیر یہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی“ تو چاند گرہن دیکھنے کے لیے بچے بھی بڑوں کے ساتھ چوکڑی مارے بیٹھے ہوتے تھے۔ اس سہیل اصغر کو میں آج مبارک باد دے سکتا ہوں سالگرہ کی۔
پھر وہ لکھنے والے تھے کہ جو ڈرامے کی کامیابی کی سند ہوتے تھے۔ حسینہ معین، انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا، نور الہدی شاہ، یونس جاوید، عطا الحق قاسمی، منشا یاد، اشفاق احمد، مستنصر حسین تارڑ، شوکت صدیقی، ایوب خاور، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، اقبال حسن خان اور نہ جانے کون کون۔ خدا سلامت رکھے، اکثر حیات ہیں پر اب ٹی وی چینل اتنے ہیں کہ کون کہاں کیا لکھتا ہے، کوئی خبر نہیں آتی۔
یہ سب اس لیے یاد آیا کہ پچھلے دنوں اسلم اظہر گزر گئے اور اب یاور حیات چل بسے۔ سنا جاتا ہے شہر عشق کے گرد، مزاریں ہی مزاریں ہو گئی ہیں، تو پی ٹی وی، ہمارا شہر عشق، ایک اور مزار لیے بیٹھا ہے۔ ان کے بارے میں سوچا تو اتنا سب کچھ یاد آتا چلا گیا کہ بندہ کیا لکھے اور کیا چھوڑ دے۔ یاور حیات پی ٹی وی تھے اور پی ٹی وی یاور حیات تھا۔ من تو شدم تو من شدی تھا۔ اور پھر ایک اور کام ہوا۔ سہیل اصغر صاحب کی سالگرہ آ گئی۔ وہ ادھر فیس بک پر ایڈ ہیں، مہربانی ہے ان کی، تو اکثر نظر آتے رہتے ہیں۔ خیال آیا کہ یار خدا زندگی دے، جو موجود ہیں انہیں تو سیلیبریٹ کیا جائے۔
"سر، خدا آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ طویل عمر عطا کرے۔ ہمیشہ اداکاری کرتے رہیں، ہمیشہ کامیاب رہیں!“
یہ پیراگراف لکھا اور انہیں مبارک باد دی۔ اس کے بعد سے اب تک ایک ایک کر کے کتنے اداکار یاد آ رہے ہیں اور قلم لکھے جاتا ہے۔ اس زمانے میں پی ٹی وی ہمارا فیملی فرینڈ ہوا کرتا تھا اور یہ سب لوگ ایسے جیسے خاندان کے افراد۔ ہر گھر میں یہ لوگ اس طرح ڈسکس ہوتے تھے جیسے کوئی بھی وہ رشتہ دار جو تھوڑا دور رہا کرتا تھا۔ جو ولن تھا وہ باقاعدہ گالیاں کھاتا اور جو ہیرو ہوتا اس کے لیے آنسو بہائے جاتے۔ کئی بار ڈرامے کے دوران مڑ کر دیکھتا کہ امی رو تو نہیں رہیں، اور امی رو رہی ہوتی تھیں۔
ربط
آنگن ٹیڑھا کی بات کریں تو شاید اس سے لطیف مزاحیہ ڈرامہ اردو زبان میں لکھنا دوبارہ ممکن نہ ہو۔ سلیم ناصر ایسا کام کر گئے جو ہمیشہ یاد رکھا جانے والا تھا۔ لہک لہک کر چلنا، طنزیہ فقرے ایسے تاثرات سے ادا کرنا جیسے بس ابھی ان کے ذہن میں آئے ہوں، کتھک سے ان کی دلچسپی اور روٹیاں پکاتے وقت اس کا اظہار، دو تین منظر تو اس وقت بھی دماغ میں چل رہے ہیں۔ بشری انصاری لڑ رہی ہیں ان سے اور کہتی ہیں، ”آج اس گھر میں فیصلہ ہو کر رہے گا“ اور یہ ترنت کہتے ہیں، ”یا میں رہوں گی اس گھر میں یا تو رہے گا“ تو بشری انصاری کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔
یا وہ محبوب صاحب کے آنے پر جب سلیم ناصر کو صندوق میں بند کر دیتے ہیں، اور ان کا صرف ایک ہاتھ باہر لہرا رہا ہوتا ہے، یا پھر وہ جب شکیل لوٹا لیے باتھ روم سے آ رہے ہوتے ہیں تو سلیم پوچھتے ہیں، ”صاحب آپ دفتر جا رہے ہیں یا وہاں سے آ رہے ہیں“ شکیل پوچھتے ہیں کیوں بھئی، تو سلیم طنزیہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ”ویسے ہی یہ آپ کے ہاتھ میں بریف کیس (لوٹا) دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔ “ شکیل نے بھی اس ڈرامے میں کمال کردار نبھایا، جھولے میں پڑے ہیں یا بستر پر دراز ہیں، ایک ہاتھ سے ہلکے ہلکے مونچھ سہلائے جاتے ہیں اور کچھ گنگنا رہے ہیں، ریٹائرمنٹ کی زندگی ہے، کم آمدن ہے، مزے ہیں اور ہم ہیں۔ بیگم جو مرضی کہتی رہیں، ادھر سے سن کر ادھر سے نکال رہے ہیں، زیر لب تبسم ہے، تہذیب سے بات ہوتی ہے، مجسم ڈھل چکے اپنے کردار میں اور پورا ڈرامہ اسے انجوائے کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔
بشری انصاری کی بات کیجیے تو کہنے کو کچھ نہیں رہتا۔ ایسی اداکارہ کہ آج تک جس کردار کو ادا کیا، اسے یادگار بنا دیا۔ ہماری نسل انہیں آنگن ٹیڑھا یا اٹس مائی لائف وغیرہ سے یاد کرے گی تو نئی نسل انہیں تاکے کی بارات کے حوالے سے یاد کرتی ہے۔ شوخ کردار تو خیر کیا ہی خوب نبھائے لیکن ٹریجک معاملات میں بھی ان کا کوئی جواب نہیں ہے، ابھی اڈاری کی مثال ہمارے سامنے ہے، اداکاری، ایسی اداکاری جس کا کوئی پاسنگ نہ ہو بہت مشکل کام ہے اور وہ ایسی ہی لاجواب فن کارہ ہیں۔ چودھری صاحب اور ان کی بہن کا کردار دیکھ لیجیے، ایسے کئی کردار ہم روزانہ کی زندگی میں اب بھی دیکھتے ہیں لیکن، اب اگر ان دو کرداروں کو دیکھا جائے تو کچھ علاقائی تعصب بھی نظر آتا ہے، یہ اپنے دماغ کا فتور ہے شاید، اس لیے اس بات کا مکو ادھر ہی ٹھپ دیتے ہیں۔ ہاں اس کا وہ ساؤنڈ ٹریک بھی بہت شاندار تھا، اب لاگی ناہی چھوٹے۔
کیسے کیسے کردار تھے، کیا اداکاری تھی، وارث دو مرتبہ دیکھا، کسی ایک اداکار پر آپ انگلی نہیں رکھ سکتے کہ اس سے بہتر اداکاری کر لیتا، مطلب جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔ چودھری حشمت عرف محبوب عالم کو دیکھ لیجیے، اس کے بعد زندگی بھر جو مرضی کرتے گئے، رہے وہ چودھری حشمت ہی، اس کردار کی چھاپ سے نکلنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ منور سعید، ثمینہ احمد، فردوس جمال، عابد علی، اورنگزیب لغاری، عظمیٰ گیلانی، طاہرہ نقوی، شجاعت ہاشمی، غیور اختر، سجاد کشور، آغا سکندر کس کس کو یاد کیا جائے۔
اندھیرا اجالا ہوا کرتا تھا۔ یا خدا اس قدر شہرت، بڑوں سے زیادہ بچوں کو پسند تھا اور دونوں مل کر شوق سے دیکھتے تھے۔ آج کل کا سی آئی ڈی اور ہمارا اندھیرا اجالا دیکھ لیجیے، فرق صاف نظر آ جائے گا کہ تمام عمر کے آڈئینس کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈرامہ کیسے بنایا جائے۔ اندھیرا اجالا کس قدر مشہور تھا اس کا اندازہ یہاں سے کیجیے کہ قوی خان اور عرفان کھوسٹ کی شکلوں والے گتے کے ماسک گلی گلی بکتے تھے اور بیچتا کون تھا، غبارے والے۔ چونی یا اٹھنی کا ایک ماسک لگائے ہم لوگ ایسے خوش ہوتے تھے جیسے آج بچے سپر مین کا مہنگا ترین کاسٹیوم پہن کر اچھلتے پھرتے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک اعلی پولیس افسر کا امیج ہمارے ذہن میں یہی رہا کہ قوی خان جیسا کوئی دراز قد، خوب صورت اور ایماندار جوان ہوتا ہے، غصہ، سنجیدگی اور اصول پرستی جس کے ناخنوں میں بھرے ہوتے ہیں اور جو تمام جونیر افسروں کی، بشمول جعفر حسین ڈائریکٹ حوالدار دن میں دو مرتبہ کلاس لیتا ہے۔ پنجاب پولیس کو اس سے بہتر ٹریبیوٹ شاید ہی کبھی پیش کیا جا سکتا ہو۔ ”داہ جماعت پاس ہوں، ڈریکٹ حوالدار ہوں“۔ یہ ڈائیلاگ آج بھی بولا جاتا ہے، اس سے زیادہ کامیابی کسی ڈرامے کی کیا ہو سکتی ہے؟
یا خدا لکھتے لکھتے پانچ سو صفحے کالے ہو جائیں پر اس دور کے فنکاروں کا حق ادا نہیں ہو گا، دماغ بھٹکا ہے تو بس ایک گھوڑا ہے جو سرپٹ دوڑے چلا جا رہا ہے، طلعت حسین، اورنگزیب لغاری، فردوس جمال، عابد علی، خیام سرحدی، شفیع محمد، سہیل اصغر، رضوان واسطی، قاسم جلالی، گلاب چانڈیو، انیتا کیمفر اور نہ جانے کن کن کے نام آتے جا رہے ہیں۔
طلعت حسین بھی اپنی ذات میں ایک ادارہ ہوئے، جو کردار کیا، ایسے جم کر کیا کہ اسے امر کر گئے۔ کشکول، پرچھائیاں، دیس پردیس، ہوائیں، کیا کیا یاد کیا جائے۔ شفیع محمد اور اورنگزیب لغاری نے دھیمے لہجے میں وہ ستم ڈھائے کہ بلند آہنگ صدا کار بھی دبنے لگے، کسی ظالم وڈیرے کا کردار ہو شفیق باپ کا یا بڑے بھائی کا، یہ دونوں اداکار اپنے ہی انداز میں اسے نبھاتے اور جان بھر دیتے۔ فردوس جمال کی بات ہو تو وہ اسی ورسیٹیلیٹی کا شاہ کار دکھتے ہیں جو نصیر الدین شاہ، طلعت حسین، خیام سرحدی، عابد علی یا سہیل اصغر میں پائی جاتی ہے۔ کیا ہم چودھری حشمت کا لاڈلا جوان بیٹا بھول سکتے ہیں، یا وہ موچی جو من چلے کا سودا میں دل کے بھید بتاتا نظر آتا تھا؟
ان کہی، دھوپ کنارے، مراة العروس، چاند گرہن، با ادب باملاحظہ ہوشیار، اور نہ جانے کون کون سے ڈرامے ہوتے تھے۔ کیا کیا صفت گنوائی جائے ان ڈراموں کی، بندہ بشر ہے اور کام لافانی تھے، رہتی دنیا تک رہنے والے تھے۔ مرینہ خان زویا بنیں اور اس زمانے میں پیدا ہونے والی تمام بچیاں زویا ہو گئیں۔ پھر مرینہ خان کے بال بہت جلد سفید ہو گئے، پھر انہوں نے کام بھی بہت کم کیا، لیکن زویا جیسی بوائے کٹ خوب صورت لڑکی آج تک دوبارہ نظر نہیں آئی۔ دنیا کی ان چند لڑکیوں میں سے ایک جنہیں چھوٹے بال بھی سوٹ کرتے ہیں اور واللہ کیا سوٹ کرتے ہیں۔ شہناز شیخ کا بھی یہی معاملہ ہے، انہوں نے بھی بہت جلد بال سفید کر لیے، مرینہ خان کا نام ذہن میں آتے ہی ان کا نام بھی یاد آ جاتا ہے، ٹی وی ڈرامے کا فن کیا تھا، کس عروج پر تھا، اس سے اندازہ کر لیجیے۔ بہروز سبزواری قباچہ بنے اور آج تک فقیر کو ان کا اصل نام ذہن پر زور دے کر یاد کرنا پڑتا ہے، قطب الدین قباچہ ہمارے ذہنوں کا حصہ ہے۔ڈرامے کا نام یاد نہیں لیکن عابد علی شاید اس میں ٹرک ڈرائیور بنے تھے، انہوں نے دیوث دا پتر کا لفظ استعمال کیا، آہا، تب پتہ لگا کہ یہ کوئی گالی ہے لیکن گالی آج تک یاد ہے۔ پھر وہ طلعت حسین کا عالی جاہ بننا بھی یاد ہے، قریشی اپنا یار، کیا نقل اتارتا تھا عالیجاہ کی۔ کیا کیا لوگ یاد آتے جا رہے ہیں، گلاب چانڈیو نے چاند گرہن میں ولن کو اوج ثریا پر پہنچا دیا، ”ہائے ہائے ہائے ہائے گلو رانی“، جس طرح دل کو تھام کر بولتے، منفی کردار کے باوجود دماغوں میں اتر جاتے تھے۔
نور محمد لاشاری کا وہ ملاکھڑے والا سین جس میں جانو جرمن مراد علی شاہ سے انگریزی زبان کا ملاکھڑا کرتا ہے، اور وہ پنچ بنتے ہیں، یا افتخار قیصر کا اب میں بولوں یا نہ بولوں، یا پھر وہ اسماعیل شاہد کا دا جی بننا اور جھوٹ کی عادت نہیں مجھے کو سپر ہٹ کر دینا۔ اللہ و اکبر، کیا زمانہ تھا، کیا لوگ تھے۔
جس اداکار کو میں بچپن سے دیکھتا آیا، چاہتا آیا، پسند کرتا آیا، جس کی نقل میں ہم لوگ وہ ڈائیلاگ دہراتے تھے۔ ایک روپا، ایک روپا، دو دھڑ والا بچہ دیکھو، ایک روپا۔ اس ڈائیلاگ کو بولنے والا رلیا امر ہو گیا۔ وہ سہیل اصغر جو گاتا پھرتا تھا، چمبیلی کے بازار میں وچھی گرا رے۔ جو سرائیکی لہجے میں کہتا تھا، صدقے تھیواں، میں بندہ ہوں ذرا وکھری ٹائپ کا، تو یہ ڈائیلاگ رکشوں تک کے پیچھے لکھا نظر آتا تھا۔ اور جو آنکھوں میں مکمل جلال بھر کے کہتا تھا، ”بابا ہم مالک ہیں اس زمین کے، ہمارے حکم کے بغیر یہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی“ تو چاند گرہن دیکھنے کے لیے بچے بھی بڑوں کے ساتھ چوکڑی مارے بیٹھے ہوتے تھے۔ اس سہیل اصغر کو میں آج مبارک باد دے سکتا ہوں سالگرہ کی۔
پھر وہ لکھنے والے تھے کہ جو ڈرامے کی کامیابی کی سند ہوتے تھے۔ حسینہ معین، انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا، نور الہدی شاہ، یونس جاوید، عطا الحق قاسمی، منشا یاد، اشفاق احمد، مستنصر حسین تارڑ، شوکت صدیقی، ایوب خاور، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، اقبال حسن خان اور نہ جانے کون کون۔ خدا سلامت رکھے، اکثر حیات ہیں پر اب ٹی وی چینل اتنے ہیں کہ کون کہاں کیا لکھتا ہے، کوئی خبر نہیں آتی۔
یہ سب اس لیے یاد آیا کہ پچھلے دنوں اسلم اظہر گزر گئے اور اب یاور حیات چل بسے۔ سنا جاتا ہے شہر عشق کے گرد، مزاریں ہی مزاریں ہو گئی ہیں، تو پی ٹی وی، ہمارا شہر عشق، ایک اور مزار لیے بیٹھا ہے۔ ان کے بارے میں سوچا تو اتنا سب کچھ یاد آتا چلا گیا کہ بندہ کیا لکھے اور کیا چھوڑ دے۔ یاور حیات پی ٹی وی تھے اور پی ٹی وی یاور حیات تھا۔ من تو شدم تو من شدی تھا۔ اور پھر ایک اور کام ہوا۔ سہیل اصغر صاحب کی سالگرہ آ گئی۔ وہ ادھر فیس بک پر ایڈ ہیں، مہربانی ہے ان کی، تو اکثر نظر آتے رہتے ہیں۔ خیال آیا کہ یار خدا زندگی دے، جو موجود ہیں انہیں تو سیلیبریٹ کیا جائے۔
"سر، خدا آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ طویل عمر عطا کرے۔ ہمیشہ اداکاری کرتے رہیں، ہمیشہ کامیاب رہیں!“
یہ پیراگراف لکھا اور انہیں مبارک باد دی۔ اس کے بعد سے اب تک ایک ایک کر کے کتنے اداکار یاد آ رہے ہیں اور قلم لکھے جاتا ہے۔ اس زمانے میں پی ٹی وی ہمارا فیملی فرینڈ ہوا کرتا تھا اور یہ سب لوگ ایسے جیسے خاندان کے افراد۔ ہر گھر میں یہ لوگ اس طرح ڈسکس ہوتے تھے جیسے کوئی بھی وہ رشتہ دار جو تھوڑا دور رہا کرتا تھا۔ جو ولن تھا وہ باقاعدہ گالیاں کھاتا اور جو ہیرو ہوتا اس کے لیے آنسو بہائے جاتے۔ کئی بار ڈرامے کے دوران مڑ کر دیکھتا کہ امی رو تو نہیں رہیں، اور امی رو رہی ہوتی تھیں۔
ربط
آخری تدوین: