لٹریری دنیا میں بہت سے صاحب کمال ایسے گزرے ہیں جن کے زمانے میں ان کی قدر و منزلت کا پورا پورا اندازہ نہیں کیا گیا، مگر آخر کار ان کا کمال ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہا۔ سعدی کے زمانے میں اس کے اکثر ہمعصر امامی ہروی کو اس پر ترجیح دیتے تھے۔ مگر کچھ بہت عرصہ نہ گزرا تھا کہ سعدی کا نام اور اس کا کلام اطراف عالم میں منتشر ہو گیا اور امامی کا کلام صرف تذکروں میں باقی رہ گیا۔ شکسپیر کے عہد میں اس کو ایک ایکٹر سے زیادہ رتبہ نہیں دیا گیا، مگر آج اسی شکسپیر کے ورکس بائبل کے ہم پلہ سمجھے جاتے ہیں۔ خود مرزا بھی اپنے کلام کی نسبت ایسا ہی خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک فارسی غزل میں فرماتے ہیں؛
تاز دیوانم کہ سرمست سخن خواہد شدن
ایں مے از قحط داری کہن خواہد شدن
کوکبم را در عدم اوج قبولی بودہ است
شہرت شعرم بہ گیتی بعد من خواہد شدن
اگرچہ اس لحاظ سے کہ ایشیائی شاعری کا مذاق یورپین سولزیشن میں روز بروز جذب ہوتا جاتا ہے اور فارسی لٹریچر ہندوستان سے ایسا رخصت ہوا ہے کہ بظاہر اس کے مراجعت کرنے کی توقع نہیں رہی، یہ امید رکھنی تو فضول ہے کہ مرزا کی فارسی نظم و نثر اب یا آئندہ زمانے میں مقبول خاص و عام ہوگی، لیکن جو تو بر تو پردے مرزا کی شاعری اور نکتہ پردازی پر ان کی زندگی میں پڑے رہے اور جو اب تک مرتفع نہیں ہوئے، کیا عجب ہے کہ ہماری یا ہمارے بعد کسی دوسرے شخص کی کوشش سے رفع ہو جائیں۔
مرزا کو بحیثیت شاعر پبلک سے روشناس کرنے اور ان کی شاعری کا پایہ لوگوں کی نظر میں جلوہ گر کرن ےکا عمدہ طریقہ ی ہتھا کہ ان کے اصناف کلام میں سے ایک معتد بہ حصہ نقل کیا جاتا۔ ہر صنف میں جو باتیں مرزا کی خصوصیات سے میں، وہ نقل کی جاتیں؛ جو کالم نقل کیا جاتا اس کی لفظی و معنوی خوبیاں، نزاکتیں اور باریکیاں ظاہر کی جاتیں، شعرا کے جس طبقے میں مرزا کو جگہ دینی چاہیے، اس طبقے کے شاعروں کے کلام سے مرزا کے کلام کا موازنہ کیا جاتا۔ ان کی غزل سے مرزا کی غزل کو، قصیدے سے قصیدے کو، اور ای طرح ہر صنف سے اسی صنف کو ٹکرایا جاتا، اور اس طرح مرزا کے پایہ شاعری اور ان کے کلام کی حقیقت سے اہل وطن کو خبردار کیا جاتا۔ مگر یہ طریقہ جس قدر مصنف کے حق میں دشوار گزار تھا، اسی قدر پبلک کےلیے، خاص کر اس زمانے میں غیر مفید بھی تھا۔ اگر ہم اس دشوار گزار منزل کے طے کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے تو ہماری وہی مثل ہوتی کہ “مرغی اپنی جان سے گئی اور کھانے والوں کو مزا نہ آیا۔“
ناچار ہم نے بجائے اس طریقہ مذکورہ کے جو حالت موجودہ میں باوجود دشوار ہونے کے غیر مفید بھی ہے، اس موقع پر ایسا طریقہ اختیار کیا ہے، جو ہمارے لیے سہل تر اور پبلک کے لیے مفید تر معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے دوسرے حصے میں مرزا کے تمام کلام کو چار قسموں پر تقسیم کیا ہے؛ نظم اردو، نثر اردو، نظم فارسی اور نثر فارسی؛ اور اسی ترتیب سے ہر قسم کا تھوڑا تھوڑا انتخاب چار جدا جدا فصلوں میں درج کیا ہے۔ ہر قسم پر اول کچھ مختصر ریمارکس کیے ہیں۔ پھر اس قسم کا انتخاب لکھا گیا ہے۔ اور جو اشعار یا فقرے شرح طلب سمجھے ہیں، ان کی جا بجا شرح کر دی گئی ہے اور اور کہیں کہیں محاسن کلام کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے اور آخر میں خاص کر ان لوگوں کے لیےجو فارسی لٹریچر کا صحیح مذاق رکھتے ہیں، نمونے کے طور پر مرزا کے کسی قدر فارسی کلام کا موازنہ ایران کے مسلم الثبوت استادوں کے کلام کے ساتھ کرکے دکھایا ہے کہ مرزا نے فارسی لٹریچر میں کس درجے تک کمال بہم پہچایا تھا۔
مذکورہ بالا انتخاب سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ کہ مرزا کے کلام میں جس قدر بلند اور پاکیزہ خیالات تھے وہ سب لے لیے گئے ہیں، اور جو ان سے پست درجے کے خیالات تھے وہ چھوڑ دیے گئے ہیں۔ نہیں، بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس رسالے کی بساط اور وسعت کے موافق، تا بمقدور ہر ایک صنف میں سے کم و بیش ایسا کلام لے لیا گیا ہے، جو اس زمانے کے لوگوں کے مذاق سے بیگانہ اور ان کی فہم سے بعید تر نہ ہو۔ اور باوجود اس کے مؤلف کی نظر میں بھی بوجہ من الوجوہ انتخاب کے قابل ہو۔
اس انتخاب سے جس کو مرزا کے تمام کلام کا نمونہ سمجھنا چاہیے، کئی فائد ےتصور کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ شعر کی سمجھ اور اس کا عمدہ مذاق رکھتے ہیں، ان کو بغیر اس کے تمام کلیات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہو، مرزا کا ہر قسم کا عمدہ کلام ایک جگہ جمع کیا ہو ا مل جائے گا۔ دوسرے جو لوگ مرزا کا کلام اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے، وہ بسبب اس کے کہ ہر مشکل شعر یا فقرے کے معنی حل کر دیے گیے ہیں، مرزا کے خیالات سے بخوبی واقفیت حاصل کر سکیں گے۔ اور دونوں طبقوں کو معلوم ہو جائے کہ مرزا نے قوت متخیلہ اور ملکہ شاعری کس درجے کا پایا تھا۔ اور کس خوبی اور لطافت سے وہ نہایت نازک اور دقیق خیالات کو اردو اور فارسی کی دونوں زبانوں میں ادا کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔
الغرض یہ رسالہ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ پہلے حصے میں مرزا کی زندگی کے واقعات جہاں تک معلوم ہو سکے، اور ان کے عادات اور اخلاق و عادات و خیالات کا بیان ہے۔ انہیں حالات کے ضمن میں ان کی خاص خاص نظمیں یا اشعار جو کسی واقعے سے علاقہ رکھتے ہیں اور اوران کے لطائف و نوادر، جن سے مرزا کی طبیعیت کا اصلی جوہر ان کی امیجینیشن کی قوت نہایت واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے، اپنے اپنے موقع پر ذکر کیے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں مرزا کے تمام کلام نظم و نثر، اردو اور فارسی کا انتخاب، اور ہر قسم پر جدا جدا ریویو مرزا کی تمام لائف اور ان کی طرز شاعری و انشا پردازی پر لکھا گیا ہے جس کو ساری کتاب کا لب لباب سمجھنا چاہیے۔
اگرچہ مرزا کی لائف، جیسا کہ ہم آئندہ کسی موقع پر بیان کریں گے، ان فائدوں سے خالی نہیں ہے جو ایک بائیو گرافی سے حاصل ہونے چاہییں؛ لیکن اگر ان فائدوں سے قطع نظر کی جائے، تو بھی ایسی زندگی کا بیان جس میں ایک خاص قسم کی زندہ دلی اور شگفتگی کے سوا کچھ نہ ہو، ہماری پژمردہ اور دل مردہ سوسائٹی کے لیے کچھ کم ضروری نہیں ہے۔ اس کے سواہر قوم میں عموماً اور گری ہوئی قوموں میں خصوصاً ایسے عالی فطرت انسان شاذونادر پیدا ہوتے ہیں، جن کی ذات سے اگرچہ قوم کو براہ راست کوئی معتدبہ فائدہ نہ پہنچا ہو، لیکن کسی علم یا صناعت یا لٹریچر میں کوئی حقیقی اضافہ کم و بیش ظہور میں آیا ہو اور سلف کے ذخیرے کچھ نیا سرمایہ شامل ہوا ہو، ایسے لوگوں کی لائف پر غور کرنا، ان کے ورکس کی چھان بین کرنا اور ان کے نوادر افکار سے مستفید ہونا قوم کے ان فرائض میں سے ہے، جن سے غافل رہنا قوم کے لیے نہایت افسوس کی بات ہے، جیسا کہ خود مرزا ایک جگہ لکھتے ہیں؛
حیف کہ ابنائے روزگار حسن گفتار مرا نشناختند۔ مرا خود دل آنان می سوزد کہ کامیاب شناسائے فرّہ ایزدی نگشتند، وازیں نمایشہائے نظر فروز کہ درنظم و نثر بکار بردہ ام، سرگراں کز شتند۔