یادگار غالب (خواجہ الطاف حسین حالی)

نبیل

تکنیکی معاون
یادگار غالب



غالب کی حیات اور فکروفن پر ایک لافانی کتاب




شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی



مکتبہ عالیہ، لاہور
 

نبیل

تکنیکی معاون
بسم اللہ الرحمن الرحیم

دیباچہ

تیرھویں صدی ہجری میں جب کہ مسلمانوں کا تنزل غایت درجہ کو پہنچ چکا تھا اور ان کی دولت، عزت اور حکومت کے ساتھ علم و فضل اور کمالات بھی رخصت ہو چکے تھے، حسن اتفاق سے دارلخلافہ دلی میں چند اہل کمال ایسے جمع ہوگئے تھے جن کی صحبتیں اور جلسے عہد اکبری و شاہجہانی کی صحبتوں اور جلسوں کو یاد دلاتی تھیں۔ اور جن میں سے بعض کی نسبت مرزا غالب مرحوم فرماتے ہیں؛

ہند را خوش نفسانند سخنور کہ بود
باددرخلوت شاں مشک فشاں ازدم شاں
مومن و نیر و صہبائی و علوی، وانگاہ
حسرتی اشرف و ازردہ بود اعظم شاں

اگرچہ جس زمانے میں راقم کا پہلی بار دلی جانا ہوا، اس باغ میں پت جھڑ شروع ہو گئی تھی؛ کچھ لوگ دلی سے باہر چلے گئے اور کچھ دنیا سے رخصت ہو گئے تھے، مگر جو باقی تھے اور جن کو دیکھنے کا مجھے فخر رہے گا، وہ بھی ایسے تھے نہ صرف دلی سے، بلکہ ہندوستان کی خاک سے بھی ویسا اٹھتا نظر نہیں آتا، کیونکہ جس سانچے میں وہ ڈھلے تھے، وہ سانچا بدل گیا اور جس آب و ہوا میں انہوں نے نشو ونما پائی تھی، وہ ہوا پلٹ گئی؛

زمانہ دگرگونہ آیین نہاد
شد آں مرغ کو نیضہ زریں نہاد

علی الخصوص مرزا اسد اللہ خان غالب جن کی عظمت و شان اس سے بالا تر تھی کہ ان کو بارہویں یا تیرہویں صدی ہجری کے شاعروں یا انشاپردازوں میں شمار کیا جائے۔

مرزا نے اپنی کتاب مہر نیمروز میں ایک موقع پر بہادر شاہ ظفر کی طرف خطاب کرکے یہ ظاہر کیا ہے کہ “شاہجہاں کے عہد میں کلیم شاعر سیم و زر میں تولا گیا تھا؛ مگر میں صرف اس قدر چاہتا ہوں کہ اور کچھ نہیں، تو میرا کلام ہی ایک دفعہ کلیم کے کلام کے ساتھ تول لیا جائے“۔ اس مضمون کو، جو لوگ مرزا کے رتبہ سے واقف نہیں، شاید خود ستائی اور تعلی پر محمول کریں گے؛ مگر ہمارے نزدیک مرزا نے اس میں کچھ بھی مبالغہ نہیں کیا؛ بلکہ وہی کہا ہے جو ان کے زمانے کے اہل نظر اور اہل تمیز ان کی نسبت رائے رکھتے تھے۔

اگرچہ زمان ےنے اپنی بساط کے موافق مرزا کی کچھ کم قدر نہیں کی، ان کا تمام کلام، اردو، فارسی، نظم اور نثر ان کے جیتے ہی جی ہندوستان میں پھیل گیا تھا۔ ان کے ماننے والے اور مداح و ثنا خواں ملک کے ہر گوشے میں پائے جاتے تھے اور اب تک پائے جاتے ہیں۔ مدحیہ قصائد پر ان کو کم و بیش صلے اور خلعت اور انعامات بھی ملتے رہے۔ مرحوم بہادر شاہ نے بھی اپنی حیثیت کے موافق ان کی خاصی قدر کی۔ ریاست رامپور سے ان کے لیے اخیر دم تک معقول وظیفہ جاری رہا۔ یہ سب کچھ ہوا؛ مگر جب مرزا کے اس اعلی مرتبے کا جو شاعری و انشا پردازی میں فی الواقع انہوں نے حاصل کیا تھا، ٹھیک اندازہ لگایا جاتا ہے تو ناچار یہ کہنا پڑتا ہے کہ زمانے کی یہ تمام قدردانی زیادہ سے زیادہ اس پیرزال کی سی قدر دانی تھی جو ایک سوت کی اٹی سے یوسف کی خریداری کو مصر کے بازار میں آئی تھی۔ سچ یہ ہے کہ مرزا کی قدر جیسی کے چاہیے یا جلال الدین اکبر کرتا، یا جہانگیر و شاہجہان۔ مگر جس قدر اس اخیر دور میں ان کو مانا گیا اس کو بھی نہایت مغتنم سمجھنا چاہیے؛

بکے مفت یاں ہم زمانے کے ہاتھوں
پہ دیکھا، تو تھی یہ بھی قیمت زیادہ

اگرچہ مرزا کی تمام لائف میں کوئی بڑا کام ان کی شاعری اور انشاپردازی کے سوا نظر نہیں آتا، مگر صرف ایک اسی کام نے ان کی لائف کو دارلخلافے کے اس اخیر دور کا ایک مہتم بالشان واقعہ بنا دیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اس ملک میں مرزا پر فارسی نظم و نثر کا خاتم ہو گیا، اور اردو نظم و نثر پر بھی ان کا کچھ کم احسان نہیں ہے۔ اس لیے کبھی کبھی مجھ کو اس بات کا خیال آتا تھا کہ مرزا کی زندگی کے عام حالات جس قدر کہ معتبر ذریعوں سے معلوم ہو سکیں اور ان کی شاعری و انشاپردازی کے متعلق جو امور کے احاطہ بیان میں آ سکیں اور ابنائے زماں کے فہم سے بالا تر نہ ہوں، ان کو اپنے سلیقے کے موافق قلم بند کروں۔

پچھلے برسوںمیں جبکہ میں دلی میں مقیم تھا، بعض احباب کی تحریک سے اس خیال کو اور زیادہ تقویت ہوئی۔ میں نے مرزا کی تصنیفات کو دوستوں سے مستعار لے کر جمع کیا، اور جس قدر اس میں ان کے حالات اور اخلاق و عادات کا سراغ ملا، ان کو قلم بند کیا، اور جو باتیں اپنے ذہن میں محفوظ تھیں یا دوستوں کی زبانی معلوم ہوئیں، ان کو بھی ضبط تحریر میں لایا۔ مگر ابھی ترتیب مضامین کی نوبت نہ پہنچی تھی کہ اور کاموں میں مصروف ہوگیا، اور کئی برس تک وہ یادداشتیں کاغذ کے مٹھوں میں بندہی ہوئی رکھی رہیں۔

ان دنوں میں دوستوں کا پھر تقاضہ اور بہت سخت تقاضہ ہوا اور باوجودیکہ میں ایک نہایت اور اہم اور ضروری کام میں مصروف تھا، دوستوں کے تقاضے نے یہاں تک مجبور کیا کہ اس ضروری کام کو چند روز کے لیے ملتوی کرنا پڑا اور یہ خیال کیا گیا کہ جو یادداشتیں مرزا کی لائف کے متعلق بڑی کوشش سے جمع کی گئی ہیں اور جو تھوڑی سی توجہ سے مرتب ہو سکتی ہیں، ان کو اب زیادہ حالت منتظرہ میں رکھنا مناسب نہیں۔

میں نے ان مٹھوں کو کھولا اور ان یادداشتوں کے مرتب کرنے کا ارادہ کیا؛ مگر ان کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ مرزا کی تصنیفات پرپھر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہوگی اور اس کے سوا کچھ اور کتابیں بھی درکار ہوں گی۔ میں نے دل کے بعض دوستوں اور بزرگوں کو لکھا اور انہوں نے مہربانی فرما کر میری تمام مطلوبہ کتابیں اور جس قدر مرزا کے حالات ان کو معلوم ہو سکے، لکھ کر میرے پاس بھیج دیے اور اس طرح مرزا کی لائف جہاں تک کہ اس کی تکمیل ہو سکتی تھی، مکمل کی گئی۔

میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ مرزا کی لائف میں کوئی مہتم بالشان واقعہ ان کی شاعری و انشا پردازی کے سوا نظر نہیں آتا۔ لہذا جس قدر واقعات ان کی لائف کے متعلق اس کتاب میں مذکور ہیں، ان کو ضمنی و اسطرادی سمجھنا چاہیے۔ اصل مقصود اس کتاب کے لکھنے سے شاعری کے اس عجیب و غریب ملکےکا لوگوں پر ظاہر کرنا ہے جو خدا تعالی نے مرزا کی فطرت میں ودیعت کیا تھا، اور جو کبھی نظم و نثر کے پیرایے میں، کبھی ظرافت اور بذلہ سنجی کے روپ میں، کبھی عشق بازی اور رند مشربی کے لباس میں، اور کبھی تصوف اور حب اہل بیت کی صورت میں ظہور کرتا تھا۔ پس جو ذکر ان چاروں باتوں سے علاقہ نہیں رکھتا، اس کو کتاب کے موضوع سے خارج سمجھنا چاہیے۔

(جاری ۔۔۔)
 

نبیل

تکنیکی معاون
لٹریری دنیا میں بہت سے صاحب کمال ایسے گزرے ہیں جن کے زمانے میں ان کی قدر و منزلت کا پورا پورا اندازہ نہیں کیا گیا، مگر آخر کار ان کا کمال ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہا۔ سعدی کے زمانے میں اس کے اکثر ہمعصر امامی ہروی کو اس پر ترجیح دیتے تھے۔ مگر کچھ بہت عرصہ نہ گزرا تھا کہ سعدی کا نام اور اس کا کلام اطراف عالم میں منتشر ہو گیا اور امامی کا کلام صرف تذکروں میں باقی رہ گیا۔ شکسپیر کے عہد میں اس کو ایک ایکٹر سے زیادہ رتبہ نہیں دیا گیا، مگر آج اسی شکسپیر کے ورکس بائبل کے ہم پلہ سمجھے جاتے ہیں۔ خود مرزا بھی اپنے کلام کی نسبت ایسا ہی خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک فارسی غزل میں فرماتے ہیں؛

تاز دیوانم کہ سرمست سخن خواہد شدن
ایں مے از قحط داری کہن خواہد شدن
کوکبم را در عدم اوج قبولی بودہ است
شہرت شعرم بہ گیتی بعد من خواہد شدن

اگرچہ اس لحاظ سے کہ ایشیائی شاعری کا مذاق یورپین سولزیشن میں روز بروز جذب ہوتا جاتا ہے اور فارسی لٹریچر ہندوستان سے ایسا رخصت ہوا ہے کہ بظاہر اس کے مراجعت کرنے کی توقع نہیں رہی، یہ امید رکھنی تو فضول ہے کہ مرزا کی فارسی نظم و نثر اب یا آئندہ زمانے میں مقبول خاص و عام ہوگی، لیکن جو تو بر تو پردے مرزا کی شاعری اور نکتہ پردازی پر ان کی زندگی میں پڑے رہے اور جو اب تک مرتفع نہیں ہوئے، کیا عجب ہے کہ ہماری یا ہمارے بعد کسی دوسرے شخص کی کوشش سے رفع ہو جائیں۔

مرزا کو بحیثیت شاعر پبلک سے روشناس کرنے اور ان کی شاعری کا پایہ لوگوں کی نظر میں جلوہ گر کرن ےکا عمدہ طریقہ ی ہتھا کہ ان کے اصناف کلام میں سے ایک معتد بہ حصہ نقل کیا جاتا۔ ہر صنف میں جو باتیں مرزا کی خصوصیات سے میں، وہ نقل کی جاتیں؛ جو کالم نقل کیا جاتا اس کی لفظی و معنوی خوبیاں، نزاکتیں اور باریکیاں ظاہر کی جاتیں، شعرا کے جس طبقے میں مرزا کو جگہ دینی چاہیے، اس طبقے کے شاعروں کے کلام سے مرزا کے کلام کا موازنہ کیا جاتا۔ ان کی غزل سے مرزا کی غزل کو، قصیدے سے قصیدے کو، اور ای طرح ہر صنف سے اسی صنف کو ٹکرایا جاتا، اور اس طرح مرزا کے پایہ شاعری اور ان کے کلام کی حقیقت سے اہل وطن کو خبردار کیا جاتا۔ مگر یہ طریقہ جس قدر مصنف کے حق میں دشوار گزار تھا، اسی قدر پبلک کےلیے، خاص کر اس زمانے میں غیر مفید بھی تھا۔ اگر ہم اس دشوار گزار منزل کے طے کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے تو ہماری وہی مثل ہوتی کہ “مرغی اپنی جان سے گئی اور کھانے والوں کو مزا نہ آیا۔“

ناچار ہم نے بجائے اس طریقہ مذکورہ کے جو حالت موجودہ میں باوجود دشوار ہونے کے غیر مفید بھی ہے، اس موقع پر ایسا طریقہ اختیار کیا ہے، جو ہمارے لیے سہل تر اور پبلک کے لیے مفید تر معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے دوسرے حصے میں مرزا کے تمام کلام کو چار قسموں پر تقسیم کیا ہے؛ نظم اردو، نثر اردو، نظم فارسی اور نثر فارسی؛ اور اسی ترتیب سے ہر قسم کا تھوڑا تھوڑا انتخاب چار جدا جدا فصلوں میں درج کیا ہے۔ ہر قسم پر اول کچھ مختصر ریمارکس کیے ہیں۔ پھر اس قسم کا انتخاب لکھا گیا ہے۔ اور جو اشعار یا فقرے شرح طلب سمجھے ہیں، ان کی جا بجا شرح کر دی گئی ہے اور اور کہیں کہیں محاسن کلام کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے اور آخر میں خاص کر ان لوگوں کے لیےجو فارسی لٹریچر کا صحیح مذاق رکھتے ہیں، نمونے کے طور پر مرزا کے کسی قدر فارسی کلام کا موازنہ ایران کے مسلم الثبوت استادوں کے کلام کے ساتھ کرکے دکھایا ہے کہ مرزا نے فارسی لٹریچر میں کس درجے تک کمال بہم پہچایا تھا۔

مذکورہ بالا انتخاب سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ کہ مرزا کے کلام میں جس قدر بلند اور پاکیزہ خیالات تھے وہ سب لے لیے گئے ہیں، اور جو ان سے پست درجے کے خیالات تھے وہ چھوڑ دیے گئے ہیں۔ نہیں، بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس رسالے کی بساط اور وسعت کے موافق، تا بمقدور ہر ایک صنف میں سے کم و بیش ایسا کلام لے لیا گیا ہے، جو اس زمانے کے لوگوں کے مذاق سے بیگانہ اور ان کی فہم سے بعید تر نہ ہو۔ اور باوجود اس کے مؤلف کی نظر میں بھی بوجہ من الوجوہ انتخاب کے قابل ہو۔

اس انتخاب سے جس کو مرزا کے تمام کلام کا نمونہ سمجھنا چاہیے، کئی فائد ےتصور کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ شعر کی سمجھ اور اس کا عمدہ مذاق رکھتے ہیں، ان کو بغیر اس کے تمام کلیات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہو، مرزا کا ہر قسم کا عمدہ کلام ایک جگہ جمع کیا ہو ا مل جائے گا۔ دوسرے جو لوگ مرزا کا کلام اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے، وہ بسبب اس کے کہ ہر مشکل شعر یا فقرے کے معنی حل کر دیے گیے ہیں، مرزا کے خیالات سے بخوبی واقفیت حاصل کر سکیں گے۔ اور دونوں طبقوں کو معلوم ہو جائے کہ مرزا نے قوت متخیلہ اور ملکہ شاعری کس درجے کا پایا تھا۔ اور کس خوبی اور لطافت سے وہ نہایت نازک اور دقیق خیالات کو اردو اور فارسی کی دونوں زبانوں میں ادا کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔

الغرض یہ رسالہ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ پہلے حصے میں مرزا کی زندگی کے واقعات جہاں تک معلوم ہو سکے، اور ان کے عادات اور اخلاق و عادات و خیالات کا بیان ہے۔ انہیں حالات کے ضمن میں ان کی خاص خاص نظمیں یا اشعار جو کسی واقعے سے علاقہ رکھتے ہیں اور اوران کے لطائف و نوادر، جن سے مرزا کی طبیعیت کا اصلی جوہر ان کی امیجینیشن کی قوت نہایت واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے، اپنے اپنے موقع پر ذکر کیے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں مرزا کے تمام کلام نظم و نثر، اردو اور فارسی کا انتخاب، اور ہر قسم پر جدا جدا ریویو مرزا کی تمام لائف اور ان کی طرز شاعری و انشا پردازی پر لکھا گیا ہے جس کو ساری کتاب کا لب لباب سمجھنا چاہیے۔

اگرچہ مرزا کی لائف، جیسا کہ ہم آئندہ کسی موقع پر بیان کریں گے، ان فائدوں سے خالی نہیں ہے جو ایک بائیو گرافی سے حاصل ہونے چاہییں؛ لیکن اگر ان فائدوں سے قطع نظر کی جائے، تو بھی ایسی زندگی کا بیان جس میں ایک خاص قسم کی زندہ دلی اور شگفتگی کے سوا کچھ نہ ہو، ہماری پژمردہ اور دل مردہ سوسائٹی کے لیے کچھ کم ضروری نہیں ہے۔ اس کے سواہر قوم میں عموماً اور گری ہوئی قوموں میں خصوصاً ایسے عالی فطرت انسان شاذونادر پیدا ہوتے ہیں، جن کی ذات سے اگرچہ قوم کو براہ راست کوئی معتدبہ فائدہ نہ پہنچا ہو، لیکن کسی علم یا صناعت یا لٹریچر میں کوئی حقیقی اضافہ کم و بیش ظہور میں آیا ہو اور سلف کے ذخیرے کچھ نیا سرمایہ شامل ہوا ہو، ایسے لوگوں کی لائف پر غور کرنا، ان کے ورکس کی چھان بین کرنا اور ان کے نوادر افکار سے مستفید ہونا قوم کے ان فرائض میں سے ہے، جن سے غافل رہنا قوم کے لیے نہایت افسوس کی بات ہے، جیسا کہ خود مرزا ایک جگہ لکھتے ہیں؛

حیف کہ ابنائے روزگار حسن گفتار مرا نشناختند۔ مرا خود دل آنان می سوزد کہ کامیاب شناسائے فرّہ ایزدی نگشتند، وازیں نمایشہائے نظر فروز کہ درنظم و نثر بکار بردہ ام، سرگراں کز شتند۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
آغاز کتاب

تاریخ ولادت ؛ مرزا اسد اللہ خان غالب المعروف بہ میرزا نوشہ، المخاطب بہ نجم اللہ، دبیرالملک، اسداللہ خان بہادر نظام جنگ، المتخلص بہ غالب در فارسی و اسد در ریختہ، شب ہشتم ماہ رجب ١٢١٢ ہجری کو شہر آگرہ میں پیدا ہوئے۔

خاندان؛ مرزا کے خاندان اور اصل و گوہر کا حال، جیسا کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں جا بجا ظاہر کیا ہے، یہ ہے کہ ان کے آباواجداد ایبک قوم کے ترک تھے اور ان کا سلسلہ، نسب تور ابن فریدون تک پہنچتا ہے۔ جب کیانی تمام ایران و توران پر مسلط ہو گئے اور تورانیوں کا جاہ و جلال اس دنیا سے رخصت ہو گیا تو ایک مدت دراز تک تو کی نسل ملک و دولت سے بے نصیب رہی مگر تلوار کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹی، کیونکہ ترکوں میں قدیم سے یہ قاعدہ چلا آتا تھا کہ باپ کے متروکہ میں سے بیٹے کو تلوار کے سوا اور کچھ نہ ملتا تھا؛ اور کل مال و اسباب اور گھر بار بیٹی کے حصے میں آتا تھا۔ بارے ایک مدت کے بعد اسلام کے عہد میں اسی تلوار کی بدولت ترکوں کے بخت خفتہ نے پھر کروٹ بدلی اور سلجوقی خاندان میں ایک زبردست سلطنت کی بنیاد قائم ہو گئی۔ کئی سو برس میں وہ تمام ایران و توران و شام و روم (یعنی ایشیائے کوچک) پر حکمران رہے۔ آخر ایک مدت کے بعد سلجوقیوں کی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور سلجوق کی اولاد جا بجا منتشر و پراگندہ ہو گئی۔ انہیں میں سے ترسم خان نامی ایک امیرزادے نے سمرقند میں بودوباش اختیار کر لی تھی۔ مرزا کے دادا جو شاہ عالم کے زمانے میں سمرقند سے ہندوستان آئے، وہ اسی ترسم خان کی اولاد میں تھے۔ مرزا مہر نیمروز کے دیباچے میں لکھتے ہیں؛

از واپسیان این قافلہ نیائے من، کہ در قلمروِ و ماوراءالنہر سمرقند شہر مسقط الراس وے بود، چوں سیل کہ از بالا بہ پستی آید، از سمرقند بہند آمد۔

اور درفش کاویانی میں اس طرح لکھا ہے؛

بالجملہ سلجوقیاں بعد زوال دولت و برہم خوردن ہنگامہ سلطنت در اقلیم وسیع الفضاے ماوراء النہر پراگندہ شدند۔ ازاں جملہ سلطان زادہ رعسم خان کی ما از تخمہ ادیم، سمرقند را بہر اقامت گزید۔ تا در عہد سلطنت شاہ عالم نیائے من از سمرقند بہندوستان آمد۔

مرزا کے دادا کی زبان بالکل ترکی تھی اور ہندوستان کی زبان کی بہت کم سمجھتے تھے۔ اس زمانے میں ذوالفقارالدولہ مرزا نجف خان شاہ عالم کے دربار میں دخل کلی رکھتے تھے۔ نجف خان نے مرزا کے دادا سلطنت کی حیثیت کے موافق ایک عمدہ منصب دلوایا اور پہاسو کا سیر حاصل پرگنہ ذات اور رسالے کی تنخواہ میں مقرر کر دیا۔ ان کے کئی بیٹے تھے، جن میں سے دو کے نام معلوم ہیں؛ ایک مرزا کے باپ عبداللہ خان عرف میرزا دولہا اور نصراللہ بیگ خان۔ عنداللہ بیگ خان کی شادی خواجہ خواجہ غلام حسین خان کمیدان کی بیٹی سے ہوئی تھی، جوکہ سرکار میرٹھ کے ایک معزز فوجی افسر اور عمائد شہر آگرہ میں سے تھے۔ مرزا عبداللہ بیگ نے بطور خانہ داماد کے تمام عمر سسرال میں بس کی، اور ان کی اولاد نے بھی وہیں پرورش پائی۔ مرزا عبداللہ بیگ خان کے دو بیٹے ہوئے؛ ایک مرزا اسداللہ خان، اور دوسرے مرزا یوسف خان جو ایام شباب میں مجنوں ہو گئے تھے اور اسی حالت میں ١٨٥٧ء میں انتقال کیا۔

مرزا کے والد عبداللہ بیگ خان، جیسا کہ مرزا نے خود ایک خط میں لکھا ہے، اول لکھنؤ میں جا کر نواب آصف الدولہ کے ہاں نوکر ہوئے، اور چند روز بعد وہاں سے حیدرآباد پہنچے اور سرکار آصفی میں تین سو سوار کی جمیعت سے کئی برس تک ملازم رہے، مگر وہ نوکری ایک خانہ جنگی کے بکھیڑے میں جاتی رہی، اور وہ واپس آگرے میں چلے آئے۔ یہاں آکر انہوں نے الور کا قصد کیا۔ راجہ بختاور سنگھ نے ابھی ان کو کوئی خاطر خواہ نوکری نہیں دی تھی کہ اتفاق سے انہیں دنوں ایک گڑھی کے زمیندار راج سے پھر گئے۔ جو فوج اس گڑھی پر سرکوبی کے لیے بھیجی گئی، اس کے ساتھ مرزا عبداللہ بیگ خان کو بھی بھیجا گیا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی ان کے گولی لگی اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا، اور راج گڑھ میں دفن ہوئے۔ راجا بختاور سنگھ رئیس الور نے دو گانوں سیر حاصل اور کسی قدر روزینہ مرزا مرحوم کے دونوں لڑکوں کے واسطے مقرر کر دیا، جو ایک مدت دراز تک جاری رہا۔ مرزا کے والد کی وفات کے بعد ان کے چچا نصراللہ بیگ خان نے ان کو پرورش کیا۔

جب سرکار انگریز کی عملداری ہندوستان میں اچھی طرح قائم ہوگئی اور نواب فخرالدولہ احمد بخش خان لارڈلیک کے لشکر میں شامل ہو گئے، تو انہوں نے مرزا غالب کے چچا نصراللہ بیگ خان کو، جن سے نواب موصوف کی ہمشیر منصوب تھیں، سرکاری فوج میں بعہدہ رسالداری ملازم کرادیا۔ ان کی ذات اور رسالےکی تنخواہ میں دو پرگنے یعنی سونک اور سونسا، جو نواح آگرہ میں واقع ہیں، سرکار سے ان کے نام پر مقرر ہو گئے۔ جب تک وہ زندہ رہے، دونوں پرگنے ان کے نامزد رہے اور ان کی وفات کے بعد ان کے وارثوں اور متعلقوں کی پنشنیں سرکار نے فیروزپور جھرکہ سے مقرر کرا دیں جس میں سے سات سو روپے سالانہ مرزا کو آخر اپریل ١٨٥٧ تک برابر ملتا رہا۔ مگر فتح دلی کے بعد تین برس تک قلعے کے تعلقات کے سبب پر یہ پینشن بند رہی۔ آخر جب مرزا کی ہر طرح سے بریت ہو گئی، تو پینشن پھر جاری ہو گئی، اور تین برس کی واصلات بھی سرکار نے عنایت کی۔ جب تک پنشن بند رہی، مرزا کے دوستوں کو نہایت تعلق خاطر رہا۔

لطیفہ؛ اکثر لوگ پنشن کا حال دریافت کرنے کو خط بھیجتے تھے۔ ایک دفعہ میر مہدی نے اسی مضمون کا خط بھیجا تھا۔ اس کے جواب میں مرزا لکھتے ہیں؛ “میاں! بے رزق جینے کا ڈھب مجھ کو آ گیا ہے۔ اس طرف سے خاطر جمع رکھنا۔ رمضان کا مہینا روزے کھا کھا کر کاٹا، آگے خدا رزّاق ہے کچھ اور کھانے کو نہ ملا، تو غم تو ہے۔“

مرزا نے اپنے علّو خاندان پر جابجا فارسی اشعار میں فخر کیا ہے، چوں کہ ان میں سے بعض اشعار لطف سے خالی نہیں، اس لیے اس مقام پر نقل کیے جاتے ہیں؛

قطعہ

غالب! از خاک پاکِ تورانیم
لاجرم در نسب فرہ مندیم
ترک زادیم و در نژاد ہمی
بہ سترگان قوم پیوندیم
اَیبکیم از جماعہ اتراک
درتمامی زماہ در چندیم
فن آبائے ما کشا در زیست
مرزبان زادہ، سمر قندیم
در زمعنی سخن گزاردہ
خود چہ گوئیم، تا چہ و چندیم
فیض حق را، کمینہ شاگردیم
عقل کل را، بہینہ فرزندیم
ہم بہ تابش، بہ برق ہم نفسیم
ہم بہ بخشش، بہ ابر مانندیم
بہ تلاشے کہ ہست، فیروزیم
بمعاشے کہ نیست، خرسندیم
ہمہ برخویشتن ہمی گرییم
ہمہ بر روزگار می خندیم

قطعہ

ساقی! چو من پشنگی و افراسیابیم
دانی کہ اصل گوہرم از

(جاری۔۔)
 
Top