فرخ منظور
لائبریرین
میں نے تو مذاقاً ہی کہا تھا۔ یہ تو واقعی ایسا دیوان ہے جو میرے پاس نہیں۔
روحِ رواں : اس کا مطلب ہوا "رواں کی روح"
اضافت ان معنوں بھی استعمال ہوتی ہے جن معنوں میں شگفتہ سسٹر نے کہا ہے ۔ اس کی مثال " جانِ بابا" سے بھی دی جا سکتی ہے یعنی بابا کی جان
مگر
اضافت صفت کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے جیسے "ارضِ پاک" یعنی پاک زمین نہ کہ پاک کی زمین۔ روحِ روان کی معنی میں بھی اضافت صفت کے لئے ۔ اور اس کے معنی ہیں رواں روح ۔
فرہنگِ آصفیہ اور لغاتِ کشوری دونوں میں 'روحِ رواں' یا 'روح و رواں' کی ترکیب نظر نہیں آئی۔
عصرِ حاضر کی سب سے مستند لغت (مشتاق احمد یوسفی کی نظر میں) 'علمی اردو لغت' (جامع) از وارث سرہندی میں 'روحِ رواں' ہے:
['روحِ رواں: (ع ف امذ) وہ چیز یا شخص جس پر کسی چیز کا دارومدار ہو۔ زندہ روح۔ اصل چیز]
ص 829، 1993ء ایڈیشن
مزید بر آں یہ کہ فیروز الغات فارسی، اردو میں بھی دیکھا ہے۔
گو فیروز اللغات اردو مستند نہ سہی لیکن فارسی اردو مستند ترین ہے کہ مقبول بیگ بدخشانی نے مرتب کی ہے جنکا نام خود ایک سند ہے اور پھر اسکا نیا ایڈیشن 2004ء میں ڈاکٹر وحید قریشی کی نگرانی میں طبع ہوا ہے سو:
اسما بغیر ہمزہ کے ہے۔
املا اور انشا ہمزہ کے ساتھ۔
گویا اپنے مذہب کیلیے ایک اور "نص" ہاتھ لگا
الف اور ہمزہ دراصل ایک ہی ہیں۔
عربی نحو کے قواعد کے مطابق چونکہ لفظ کے آخری حرف پر کوئی نہ کوئی حرکت ضرور ہوتی ہے کہ اس سے زمانے اور ضمیر وغیرہ کا تعین ہوتا ہے لیکن اگر آخری حرف الف ہو تو اس پر حرکت ڈالنے سے الف گر جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ عربی املا میں الف کے بعد ہمزہ کا مقصد محض حرکت کے لیے کوئی پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔
جب کہ اردو میں لفظ کا آخری حرف ساکن ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے اردو املا میں عربی کے برعکس الف کے بعد ہمزہ کی ضرورت نہیں رہتی۔
لیکن اردو میں بھی جہاں کسی لفظ کے آخر حرکت کی ضرورت پڑے گی اور اس کے آخر میں الف ہو تو وہاں الف کے بعد ہمزہ کا اضافہ درست ہو گا۔
نایاب، یادگار غالب پر کام کا آغاز تو میں نے ہی کئی سال قبل کیا تھا۔ اس کے چند برقیائے گئے صفحات یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے، شگفتہ نے بھی اس پر کام کیا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں وہ خود بہتر بتا سکیں گی۔
السلام علیکم
محترم نبیل بھائی
آپ کے تحریر کردہ صفحات اور اس کتاب کے متن میں بہت فرق ہے ۔
نایاب
السلام علیکم
مزید کوئی رکن / اراکین اگر یہاں پوسٹ کرنا چاہیں تو کر لیں تاکہ پھر یہاں ایک اختتامی پوسٹ میں کر دوں ۔
شکریہ
نبیل صاحب نے جس کتاب کے برقیائے جانے کا ذکر کیا تھا وہ مشہورِ زمانہ "یادگارِ غالب" تو حالیؔ کی لکھی ہوئی ہے مگر جس کا آپ تذکرہ فرما رہے ہیں یہ شاید دیوانِ غالب کی کوئی شرح ہے۔ کیا واقعی اس کا نام بھی "یادگارِ غالب" ہی ہے؟