امجد علی راجا
محفلین
یاد آتی ہے کہاں اب کسی ہرجائی کی
مہرباں جب سے نظر ہو گئی ہمسائی کی
ذکر کی فکر کرو، فکر کا مت ذکر کرو
سر سے گزری ہے مگر بات ہے گہرائی کی
آج بیوی کی نہ ٹی وی کی نہ پنکھے کی صدا
کس طرح رات کٹے اب مری تنہائی کی
گھس گئی جھٹ سے ترے منہ میں جو مکھی جاناں
منتظر کب سے تھی بیٹھی تری انگڑائی کی
گھر میں بیگم نہ ہو کھانا تو مگر ملتا ہے
بات اک یہ بھی ہے اچھی مری ہمسائی کی
بے خطا اہلِ محلہ مجھے لوفر سمجھے
یہ سزا مجھ کو ملی تم سے شناسائی کی
گھر بلا کر مجھے پھینٹی سے نوازہ تم نے
اپنے بیمار کی کیا خوب مسیحائی کی
استادِ محترم الف عین کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت اور رائے دے کر اس غزل کو آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لائق بنایا۔
محمد یعقوب آسی امجد میانداد انیس الرحمن باباجی درویش خُراسانی ذوالقرنین سید زبیر سید شہزاد ناصر الشفاء شوکت پرویز شیزان عمراعظم قیصرانی متلاشی محسن وقار علی محمد اسامہ سَرسَری محمد بلال اعظم محمد خلیل الرحمٰن محمداحمد محمود احمد غزنوی مزمل شیخ بسمل مقدس ملائکہ مہ جبین نایاب نیرنگ خیال نیلم یوسف-2 بھلکڑ