جوش یارِ پری چہرہ - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
وہ یارِ پری چہرہ کہ کل شب کو سِدھارا
طوفاں تھا، تلاطم تھا، چھلاوا تھا، شرارا
گل بیز و گہر ریز و گہر بار و گہر تاب
کلیوں نے جسے رنگ دیا، گل نے سنوارا
نوخواستہ و نورس و نوطلعت و نوخیز
وہ نقش جسے خود یدِ قدرت نے ابھارا
خوں ریز و کم آمیز و دل آویز و جنوں خیز
ہنستا ہوا مہتاب، دمکتا ہوا تارا
خوش چشم و خوش اطوار و خوش آواز و خوش اندام
اک خال پہ قربان سمرقند و بخارا
گل پیرہن و گل بدن و گل رخ و گل رنگ
ایماں شکن، آئینہ جبیں، انجمن آرا
صبحِ گلِ نوخواستہ و شامِ شگوفہ
مر رہنے کا سامان، تو جینے کا سہارا
آئینۂ رخسار پر اک خالِ سیہ تاب
پیشانئ گل رنگ پر آنچل کا کنارا
آنکھوں کے چمکنے میں تقاضائے تلطف
پلکوں کے جھپکنے میں تمنائے مدارا
وہ لب کہ مہِ نو کی دھڑکنے لگے چھاتی
وہ آنکھ کہ موتی کو نہ ہو صبر کا یارا
کلیوں کی نمایش میں اگر ہو متبسم
ہو اُس کے ہی ہونٹوں کی طرف کثرتِ آرا
نظریں جو اٹھا دے تو لرزنے لگے خورشید
ابرو کو جو بل دے تو ہو مہتاب دوپارا
اللہ ری ملبوس کی تابش شبِ مہ میں
سلما جو دمکتا تھا، جھمکتا تھا ستارا
تھا میری نگاہِ طرب آموز کا پابند
رنگِ لب و رخسار کا چڑھتا ہوا پارا
صندل کی دمک تھی عرق آلودہ جبیں پر
یا نہرِ گلستاں میں تڑپتا ہوا تارا
نغموں کے تلاطم سے تھا جنبش میں لبِ لعل
لہروں کے تھپیڑوں میں تھا دریا کا کنارا
ہر سانس میں اپنے ہی پہ پیچیدہ جوانی
ہر گام پہ بکھری ہوئی زلفوں کا نظارا
اس طرح تبسم میں تحکم کی گھلاوٹ
جس طرح مئے تند کی تلخی ہو گوارا
کاکل کے خم و پیچ سے افشاں کا جھلکنا
ظلمات سے تھا چشمۂ حیواں کا اشارا
سرشار جوانی تھی کہ امڈے ہوئے بادل
شاداب تبسم تھا کہ جنت کا نظارا
زلفیں تھیں کہ ساون کی مچلتی ہوئی راتیں
شوخی تھی کہ سیلاب کا مڑتا ہوا دھارا
رُخ بات کا اقرار سے انکار کی جانب
جس طرح ہرن دشت میں بھرتا ہو ترارا
اللہ کرے وہ صنمِ دشمنِ ایماں
مچلے کسی شب جوش کے پہلو میں دوبارا
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۳۳ء
 

عباس اعوان

محفلین
'کیا' اور سوالیہ نشانات اس جملے سے نکال دیجے۔ یہی اس کا جواب ہے۔ :)
تبھی ایک خال کے بدلے پورے دو شہر دینے پر تیار ہو گئے تھے۔ :)
یہ الگ بات ہے کہ دونوں شہر اس سے متفق نہ ہوتے ہوں، کہ اتنے سارے لوگوں کو ایک خال میں کیونکر ٹھہرایا جا سکے؟
:surprised:
 
وہ یارِ پری چہرہ کہ کل شب کو سِدھارا
طوفاں تھا، تلاطم تھا، چھلاوا تھا، شرارا

گل بیز و گہر ریز و گہر بار و گہر تاب
کلیوں نے جسے رنگ دیا، گل نے سنوارا

نوخواستہ و نورس و نوطلعت و نوخیز
وہ نقش جسے خود یدِ قدرت نے ابھارا

خوں ریز و کم آمیز و دل آویز و جنوں خیز
ہنستا ہوا مہتاب، دمکتا ہوا تارا

خوش چشم و خوش اطوار و خوش آواز و خوش اندام
اک خال پہ قربان سمرقند و بخارا

گل پیرہن و گل بدن و گل رخ و گل رنگ
ایماں شکن، آئینہ جبیں، انجمن آرا

صبحِ گلِ نوخواستہ و شامِ شگوفہ
مر رہنے کا سامان، تو جینے کا سہارا

آئینۂ رخسار پر اک خالِ سیہ تاب
پیشانئ گل رنگ پر آنچل کا کنارا

آنکھوں کے چمکنے میں تقاضائے تلطف
پلکوں کے جھپکنے میں تمنائے مدارا

وہ لب کہ مہِ نو کی دھڑکنے لگے چھاتی
وہ آنکھ کہ موتی کو نہ ہو صبر کا یارا

کلیوں کی نمایش میں اگر ہو متبسم
ہو اُس کے ہی ہونٹوں کی طرف کثرتِ آرا

نظریں جو اٹھا دے تو لرزنے لگے خورشید
ابرو کو جو بل دے تو ہو مہتاب دوپارا

اللہ ری ملبوس کی تابش شبِ مہ میں
سلما جو دمکتا تھا، جھمکتا تھا ستارا

تھا میری نگاہِ طرب آموز کا پابند
رنگِ لب و رخسار کا چڑھتا ہوا پارا

صندل کی دمک تھی عرق آلودہ جبیں پر
یا نہرِ گلستاں میں تڑپتا ہوا تارا

نغموں کے تلاطم سے تھا جنبش میں لبِ لعل
لہروں کے تھپیڑوں میں تھا دریا کا کنارا

ہر سانس میں اپنے ہی پہ پیچیدہ جوانی
ہر گام پہ بکھری ہوئی زلفوں کا نظارا

اس طرح تبسم میں تحکم کی گھلاوٹ
جس طرح مئے تند کی تلخی ہو گوارا

کاکل کے خم و پیچ سے افشاں کا جھلکنا
ظلمات سے تھا چشمۂ حیواں کا اشارا

سرشار جوانی تھی کہ امڈے ہوئے بادل
شاداب تبسم تھا کہ جنت کا نظارا

زلفیں تھیں کہ ساون کی مچلتی ہوئی راتیں
شوخی تھی کہ سیلاب کا مڑتا ہوا دھارا

رُخ بات کا اقرار سے انکار کی جانب
جس طرح ہرن دشت میں بھرتا ہو ترارا

اللہ کرے وہ صنمِ دشمنِ ایماں
مچلے کسی شب جوش کے پہلو میں دوبارا

جوش ملیح آبادی
 
Top