یار کر جاتے ہیں احسان وغیرہ خود ہی (فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن)

نوید ناظم

محفلین
دل کا جو کرتے ہو نقصان وغیرہ خود ہی
لے نہ جائے یہ کہیں جان وغیرہ خود ہی

ہم کہاں اور کہاں غم یہ تو یوں ہی ہم پر
یار کر جاتے ہیں احسان وغیرہ خود ہی

آ گیا ہوں جو تِرے دل میں برا کیا اس میں
گھر ہے تو آئیں گے مہمان وغیرہ خود ہی

تیرا غم اور تری یاد یہیں ہے اب تک
آ کے لے جاؤ یہ سامان وغیرہ خود ہی

جب وفا کی ہے تو پھر اس میں یہ ہوجاتا ہے
لوگ کہہ دیتے ہیں نادان وغیرہ خود ہی

دیکھ لے ہم کو اگر ایک نظر وہ ہنس کر
اُس پہ ہو جائیں گے قربان وغیرہ خود ہی
 

الف عین

لائبریرین
غزل یوں تو درست ہے لیکن ردیف میں وغیرہ کا استعمال اکثر مزاحیہ کلام میں کیا گیا ہے، اس لیے کچھ عجیب ضرور لگتا ہے۔
 
Top