عمران شناور
محفلین
یار کو دیدہء خونبار سے اوجھل کر کے
مجھ کو حالات نے مارا ہے مکمل کر کے
جانبِ شہر فقیروں کی طرح کوہِ گراں
پھینک دیتا ہے بخارات کو بادل کر کے
دل وہ مجذوب مغنی کہ جلا دیتا ہے
ایک ہی آہ سے ہر خواب کو جل تھل کر کے
جانے کس لمحہء وحشی کی طلب ہے کہ فلک
دیکھنا چاہے مرے شہر کو جنگل کر کے
یعنی ترتیبِ کرم کا بھی سلیقہ تھا اسے
اس نے پتھر بھی اٹھایا مجھے پاگل کر کے
عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلم
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے
مجھ کو حالات نے مارا ہے مکمل کر کے
جانبِ شہر فقیروں کی طرح کوہِ گراں
پھینک دیتا ہے بخارات کو بادل کر کے
دل وہ مجذوب مغنی کہ جلا دیتا ہے
ایک ہی آہ سے ہر خواب کو جل تھل کر کے
جانے کس لمحہء وحشی کی طلب ہے کہ فلک
دیکھنا چاہے مرے شہر کو جنگل کر کے
یعنی ترتیبِ کرم کا بھی سلیقہ تھا اسے
اس نے پتھر بھی اٹھایا مجھے پاگل کر کے
عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلم
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے
(اسلم کولسری)