ابھی شاہ نیاز کا اردو دیوان دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ در حقیقت دو الگ الگ غزلیں ہیں جن کے اشعار کو آپس میں خلط ملط کر دیا گیا ہے۔ میں یہاں وہ دونوں غزلیں پوسٹ کر رہا ہوں۔
غزل یکم
عشق میں آ عجب مزا دیکھا
خویش و بیگانہ آشنا دیکھا
نکتۂ انما سے واقف ہو
چہرۂ یار جا بجا دیکھا
بلکہ یہ بولنا تکلف ہے
ہم نے اُس کو سنا ہے یا دیکھا
دیکھتا آپ ہی سنے ہے آپ
نہ کوئی اُس کا ماسوا دیکھا
دید اپنی کی تھی اُسے خواہش
آپ کو ہر طرح بنا دیکھا
صورتِ گل میں کھل کھلا کے ہنسا
شکلِ بلبل میں چہچہا دیکھا
شمع ہو کر کے اور پروانہ
آپ کو آپ میں جلا دیکھا
کر کے دعویٰ کہیں اناالحق کا
بر سرِ دار وہ کھنچا دیکھا
تھا وہ برتر شما و ما سے نیاز
پھر وہی اب شما و ما دیکھا
غزل دوم
یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
کہیں ظاہر کھیں چھپا دیکھا
کہیں ممکن ہوا کہیں واجب
کہیں فانی کہیں بقا دیکھا
کہیں بولا بلیٰ وہ کہہ کے الست
کہیں بندہ کہیں خدا دیکھا
کہیں بیگانہ وش نظر آیا
کہیں صورت سے آشنا دیکھا
کہیں وہ بادشاہِ تخت نشیں
کہیں کاسہ لئے گدا دیکھا
کہیں عابد بنا کہیں زاہد
کہیں رندوں کا پیشوا دیکھا
کہیں رقاص اور کہیں مطرب
کہیں وہ ساز باجتا دیکھا
کہیں وہ در لباسِ معشوقاں
بر سرِ ناز اور ادا دیکھا
کہیں عاشق نیاز کی صورت
سینہ بریان و دل جلا دیکھا
(شاہ نیاز بریلوی)