فانی یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں جاتا - شوکت علی خاں فانی بدایونی

کاشفی

محفلین
غزل
(شوکت علی خاں فانی بدایونی)
یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں‌جاتا
اُس بزم میں‌ہُشیار ہوا بھی نہیں‌جاتا
کہتے ہو کہ ہم وعدہ پرسش نہیں‌کرتے
یہ سن کے تو بیمار ہوا بھی نہیں‌جاتا
دشواری، انکار سے طالب نہیں‌ڈرتے
یوں سہل تو اقرار ہوا بھی نہیں‌جاتا
آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں‌نصیحت
احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں‌جاتا
جاتے ہوئے کھاتے ہیں مری جان کی قسمیں
اب جان سے بیزار ہوا بھی نہیں‌جاتا
غم کیا ہے اگر منزل جاناں ہے بہت دور
کیا خاکِ رہِ یار ہوا بھی نہیں‌جاتا
دیکھا نہ گیا اس سے تڑپتے ہوئے دل کو
ظالم سے جفا کار ہوا بھی نہیں‌ جاتا
یہ طرفہ ستم ہے کہ ستم بھی ہے کرم بھی
اب خوگر آزار ہوا بھی نہیں‌جاتا
 

کاشفی

محفلین
محمد وارث صاحب، الف عین صاحب، فرخ منظور صاحب ، شاہ حسین صاحب اور فاتح الدین بشیر صاحب ، آپ تمام احباب کا بیحد شکریہ۔۔۔ خوش رہیں۔۔۔
جب اعلیٰ درجے کے سخندانِ محفل، پیش کردہ غزل کو پسند کرتے ہیں ، تو دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔۔۔
 
Top