کاشفی
محفلین
غزل
(شوکت علی خاں فانی بدایونی)
یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیںجاتا
اُس بزم میںہُشیار ہوا بھی نہیںجاتا
کہتے ہو کہ ہم وعدہ پرسش نہیںکرتے
یہ سن کے تو بیمار ہوا بھی نہیںجاتا
دشواری، انکار سے طالب نہیںڈرتے
یوں سہل تو اقرار ہوا بھی نہیںجاتا
آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیںنصیحت
احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیںجاتا
جاتے ہوئے کھاتے ہیں مری جان کی قسمیں
اب جان سے بیزار ہوا بھی نہیںجاتا
غم کیا ہے اگر منزل جاناں ہے بہت دور
کیا خاکِ رہِ یار ہوا بھی نہیںجاتا
دیکھا نہ گیا اس سے تڑپتے ہوئے دل کو
ظالم سے جفا کار ہوا بھی نہیں جاتا
یہ طرفہ ستم ہے کہ ستم بھی ہے کرم بھی
اب خوگر آزار ہوا بھی نہیںجاتا