حیدرآباد دکن کے مشہور مزاح نگار مرزا غائب کی تحریر کا اقتباس پیش خدمت ہے ملاحظہ کیجئے ۔
میں کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا کہ تبسم بیکھرنا میرا پیشہ ہے ۔۔۔۔ مجھے کارلائل کی وہ بات یاد ہے کہ
" انسان مسکرانے اور خدا کی حمد وثنا کرنے کے لئے پیدا ہوا ہے جو صرف ہنستے ہوئے کی جاسکتی ہے ۔"
مگرآہ ! میں نے یہ بات ایک چپڑ قناتی کو سنائی تو وہ بھڑک اٹھا ، اس کا نام پروفیسر " مسور دال فری " ہے، وہ تاریخ کا استاد ہے اور ہمشہ جبڑے پینچ کر سر سے پاؤں تک بناوٹی برد باری اور سنجیدگی طاری کئے رہتا ہے ۔۔۔۔
ایسے لوگوں کے لئے یوسفی نے صحیح لکھا ہے کہ :
" ہم سے سنجیدہ آدمی کی غیر سنجیدگی برداشت ہوجاتی ہے مگر غیر سنجیدہ آدمی کی سنجیدگی قطعی برداشت نہیں ہوتی۔"
تو وہ ایڑھی سے چوٹی تک تڑخ اٹھا اور غیر پر پرفیسرانہ انداز میں چلا کر کہنے لگا ۔
" فلسطین میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے ۔۔۔
چیچنیا اور بوسنیا کے زخم نہیں سوکھے ۔۔۔۔ ساری دنیا پر ظلم کے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں اور آپ sense of Humer کی دہائی دیتے ہیں ؟ کیا آپ انسانوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر ہنسنا چاہتے ہیں ۔۔۔؟ "
بہرکیف :اس چپڑ قناتی سے جب میں نے کہا کہ " بھائی پاشاہ: بندے میں Sense of Humour یعنی خوش طبعی اور بذلہ سنجی کا ہونا ضروری ہے ۔"
تو فلسطین ، چیچنیا اور بوسنیا کی طرف دیکھ کر نہیں ہنس سکتا تو ڈزنی لینڈ کی طرف دیکھ کر ہنس یا چارلی چاپلن کی فلمیں دیکھ کر ہنس، مسٹر بین کی شکل دیکھ کر ہنس ، لافٹر چیلنج اور کامیڈی سرکس دیکھ کر ہنس ۔۔۔۔ اور اگر احساس مسلمانی کے ساتھ ہنسنا چاہتا ہے تو " برج خلیفہ کی بلندی کو دیکھ کر ہنس ، عربوں کی خوش حالی دیکھ کر ہنس۔۔۔مشرق والوں پر مغربی تہذیب کےتسلط کو دیکھ کرہنس ۔ اپنے معاشرے کی ناہمواریوں ، نادانیوں ، اور بے وقوفیوں اور حماقتوں پر ہنس اور نہیں تو کم سے کم آئینہ دیکھ کر ہنس ۔۔۔۔
ارے عقل کے دشمن تو ہنسنا چاہے تو ہنسنے کے ہزار بہانے موجود ہیں ۔۔۔ مگر تو کیسے ہنس سکتا ہے ۔۔۔ خدا نت تجھے وہ حس ہی نہیں دی ہے جسے بشاشت کہتے ہیں ۔
یا تو دیوانہ ہنسے یا تو جسے توفیق دے
ورنہ اس دنیا میں آ کر مسکراتا کون ہے
ہم تو ہمشہ خدا سے یہی دعا کرتے ہیں کہ آپ اور ہم جب تک زندگی رہے ہنستے مسکراتے رہیں ۔۔۔ دنیا میں امن و امان ہو ۔۔۔ پھول ہی پھول بہار ہی بہار ہو ۔۔۔کوئی کسی کا دشمن نہ ہو سب ایک دوسرے سے محبت کریں ایک دوسرے کا احترام کریں ۔۔ یاد رکھئے ! انسانیت ہر کسوٹی اور نظر سے بے نیاز ہوتی ہے ۔
بشکریہ روزنامہ ۔ اعتماد
میں کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا کہ تبسم بیکھرنا میرا پیشہ ہے ۔۔۔۔ مجھے کارلائل کی وہ بات یاد ہے کہ
" انسان مسکرانے اور خدا کی حمد وثنا کرنے کے لئے پیدا ہوا ہے جو صرف ہنستے ہوئے کی جاسکتی ہے ۔"
مگرآہ ! میں نے یہ بات ایک چپڑ قناتی کو سنائی تو وہ بھڑک اٹھا ، اس کا نام پروفیسر " مسور دال فری " ہے، وہ تاریخ کا استاد ہے اور ہمشہ جبڑے پینچ کر سر سے پاؤں تک بناوٹی برد باری اور سنجیدگی طاری کئے رہتا ہے ۔۔۔۔
ایسے لوگوں کے لئے یوسفی نے صحیح لکھا ہے کہ :
" ہم سے سنجیدہ آدمی کی غیر سنجیدگی برداشت ہوجاتی ہے مگر غیر سنجیدہ آدمی کی سنجیدگی قطعی برداشت نہیں ہوتی۔"
تو وہ ایڑھی سے چوٹی تک تڑخ اٹھا اور غیر پر پرفیسرانہ انداز میں چلا کر کہنے لگا ۔
" فلسطین میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے ۔۔۔
چیچنیا اور بوسنیا کے زخم نہیں سوکھے ۔۔۔۔ ساری دنیا پر ظلم کے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں اور آپ sense of Humer کی دہائی دیتے ہیں ؟ کیا آپ انسانوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر ہنسنا چاہتے ہیں ۔۔۔؟ "
بہرکیف :اس چپڑ قناتی سے جب میں نے کہا کہ " بھائی پاشاہ: بندے میں Sense of Humour یعنی خوش طبعی اور بذلہ سنجی کا ہونا ضروری ہے ۔"
تو فلسطین ، چیچنیا اور بوسنیا کی طرف دیکھ کر نہیں ہنس سکتا تو ڈزنی لینڈ کی طرف دیکھ کر ہنس یا چارلی چاپلن کی فلمیں دیکھ کر ہنس، مسٹر بین کی شکل دیکھ کر ہنس ، لافٹر چیلنج اور کامیڈی سرکس دیکھ کر ہنس ۔۔۔۔ اور اگر احساس مسلمانی کے ساتھ ہنسنا چاہتا ہے تو " برج خلیفہ کی بلندی کو دیکھ کر ہنس ، عربوں کی خوش حالی دیکھ کر ہنس۔۔۔مشرق والوں پر مغربی تہذیب کےتسلط کو دیکھ کرہنس ۔ اپنے معاشرے کی ناہمواریوں ، نادانیوں ، اور بے وقوفیوں اور حماقتوں پر ہنس اور نہیں تو کم سے کم آئینہ دیکھ کر ہنس ۔۔۔۔
ارے عقل کے دشمن تو ہنسنا چاہے تو ہنسنے کے ہزار بہانے موجود ہیں ۔۔۔ مگر تو کیسے ہنس سکتا ہے ۔۔۔ خدا نت تجھے وہ حس ہی نہیں دی ہے جسے بشاشت کہتے ہیں ۔
یا تو دیوانہ ہنسے یا تو جسے توفیق دے
ورنہ اس دنیا میں آ کر مسکراتا کون ہے
ہم تو ہمشہ خدا سے یہی دعا کرتے ہیں کہ آپ اور ہم جب تک زندگی رہے ہنستے مسکراتے رہیں ۔۔۔ دنیا میں امن و امان ہو ۔۔۔ پھول ہی پھول بہار ہی بہار ہو ۔۔۔کوئی کسی کا دشمن نہ ہو سب ایک دوسرے سے محبت کریں ایک دوسرے کا احترام کریں ۔۔ یاد رکھئے ! انسانیت ہر کسوٹی اور نظر سے بے نیاز ہوتی ہے ۔
بشکریہ روزنامہ ۔ اعتماد