رضا یا تو یونہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں

نور وجدان

لائبریرین
غالب نے ایک غزل کہی اور لاجواب کہی۔ امام احمد رضا رح نے اسی زمین و بحر (ردیف و قافیہ ) میں ایک لاجواب نعت کہ ڈالی ۔ غالب کی یہ غزل اور امام احمد رضا کا نعتیہ کلام پیشِ خدمت ہے۔ غالب کے مطابق ''جس کو جان و دل ہو عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں '' اور جناب احمد رضا رح نے اس گلی جانے کی بات پر نعت لکھ دی ۔ اب کہ اس گلی سے واپس کون جائے !


دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں

دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزُر پہ ہم، غیر ہمیں اُٹھائے کیوں

جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں

دشنۂ غمزہ جاں سِتاں، ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکسِ رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں

قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں

حُسن اور اُس پہ حُسنِ ظن، رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے، غیر کو آزمائے کیوں

واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں

ہاں وہ نہیں خُدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں

غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں

رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اٹھائے کیوں
سوتے ہیں اُنکے سایہ میں کوئی ہمیں جگائے کیوں


بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کو
روئیں جو اب نصیب کو چین کہو گنوائے کیوں


یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے ستم
خوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں


دیکھ کے حضرت غنی پھیل پڑے فقیر بھی
چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آنہ جائے کیوں

جان ہے عشقِ مصطفےٰروز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں


ہم تو ہیں آپ دل فگار غم میں ہنسی ہے ناگوار
چھیڑ کے گُل کو نوبہار خون ہمیں رلائے کیوں


یا تو یونہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں
منتِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں


خوش رہے گُل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب
میری بلا بھی ذکر پر پھول کے خار کھائے کیوں

گردِ ملال اگر دُھلے دل کی کلی اگر کِھلے
برق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں


جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو
کھٹکا اگر سحر کا ہو شام سے موت آئے کیوں


اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی
میرے کریم پہلے ہی لقمہء تر کھلائے کیوں
سنگِ درِ حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے
جانا ہے سر کو جاچکے دل کو قرار آئے کیوں


ہے تو رضا نِرا ستم جرم پہ گر لجائیں ہم
کوئی بجائے سوزِ غم سازِ طرب بجائے کیوں

https://archive.org/details/PhirKeGaliGaliTabahThokarainSabKi













 
آخری تدوین:
غالب کی اور بھی زمینوں میں امام احمد رضا کی نعتیں ہیں،

غالب اور امام احمد رضا کا ایک ایک مقطع ملاحظہ ہو

جو یہ کہے کہ "ریختہ کیونکہ ہو رشکِ فارسی؟"
گفتہ غالبؔ ایکبار پڑھ کے اُسے سنا کہ یوں

جو کہے شعر و پاسِ شرع دونوں کا حُسن کیونکر آئے
لا اُسے پیشِ جلوہِ زمزمہِ رضاؔ کہ یوں
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت خوب۔ لیکن قادری صاحب نے تو ویڈیو میں غالب کا مصرع ہی بدل دیا ہے

"دین و دل" کو "جان و دل" بنا دیا
 
آخری تدوین:
Top