حسان خان
لائبریرین
یا عمر فاروقِ اعظم اے امیرِ با کرم
تیری ہیبت سے کیا سر سرکشوں نے ڈر کے خم
دشمنانِ دینِ سرمد تجھ سے عاجز آ گئے
شرک کی ہستی کو تو نے کر دیا بالکل عدم
مفتخر تجھ سے رہا تختِ خلافت دہر میں
تو نے ہر اک ملک میں گاڑا شریعت کا علم
وادیِ بیت المقدس ہے تری تفریح گاہ
یاد کرتا ہے تری رفتار کو یوروشلم
تاجِ کسریٰ کو ترے قدموں سے کیا کیا ناز ہیں
ہے درفشِ کاویانی پر تری گردِ قدم
ہو گئے بت خانے تیرے شورِ ہیبت سے خراب
پھر گیا آتشکدوں پر تیرا سیلابِ حشم
پست تو نے کر دیا اوجِ عظیمِ روم کو
ہو گئی ڈھیلی بِنائے قصرِ ہرقل ایک دم
جو کیا تو نے، کیا اسلام کی خاطر، غرض
تیرا دم بھی بعدِ ختم المرسلیں ہے مغتنم
حدِ شرعِ پاک جاری تو نے کی فرزند پر
مر گیا بیٹا جواں اور کچھ نہ تھا تجھ کو الم
زیب دیتا ہے تجھے سالارِ عادل کا لقب
عدل بھی کھاتا ہے تیرے قولِ فیصل کی قسم
تیرا وہ چھپ چھپ کے پھرنا شب کو بہرِ عدل و داد
ہے رعیت پروری کی ایک بُرہانِ اتم
تیری رائیں عکسِ وحیِ کبریا ہوتی رہیں
تجھ کو کرتے تھے نبی اکثر قضایا میں حَکَم
گو ترے قبضے میں بیت المال کا کل مال تھا
پاتھ کر اینٹ اپنا تو بھرتا رہا لیکن شکم
صدقِ دل سے کوثری تیرا ثنا خواں ہے مدام
'یا عمر' ہے آج کل اس کا وظیفہ دم بدم
(چودھری دِلّو رام کوثری)