خاورچودھری
محفلین
اُردوغزل کی ایک قدیم روایت ہے' اس کی جنوں خیزیوں اورخوش بیانیوں کابھی ایک زمانہ معترف ہے۔ولی دکنی اوران کے ہم عصروںکے زمانے سے شروع ہونے والا سفر آج بھی جاری ہے اوراُردوغزل گوئی کی روایت کومضبوط ترکررہا ہے۔پاک وہند میںجس قدرتواترسے غزل کہی جارہی ہے' کسی اورصنف سخن کویہ اعزازحاصل نہیں ہوسکا'بلکہ جہاں جہاں اُردوبولی اورسمجھی جاتی ہے 'وہاں اُردوغزل گو موجود ہیں۔غزل نے ایک سخت جان صنف کے طورپراپنے آپ کومنوا لیا ہے۔غزل کی پسندیدگی کی نمایاں وجوہات میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی مٹھا س اورلوچ دلوں کواپنی طرف کھینچتی ہے اوراس میں اظہارکے سیکڑوں زاویے چمکتے ہیں۔خاص سانچے میں ڈھلی اس صنف میں نام کماناجوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔
میر وغالب نے توغزل کومعراج تک پہنچایا' سودا ، درداورسوز کے یہاں بھی غزل کاخاص رنگ جاگتا ہے ۔ جرأت،داغاوردوسرے اساتذہ کے یہاں بھی اس صنف کا اپنا ہی قرینہ ہے۔بعد میں آنے والوں؛ خصوصاًاقبال اورفراق نے اسے خاص ذائقوں اور مضامین سے روشناس کرایا۔ترقی پسندوں نے مضامین کے اعتبارسے اس کے دامن کوخوب وسعت دی۔قیامِ پاکستان کے فوراً بعدہمارے یہاںناصرکاظمی، منیرنیازی،فیض نمایاں ہوئے'ظفراقبال نے لفظوںکونئے مفاہیم پہنانے کی کوشش کی، ناصرشہزادنے ہندی لفظیات کو غزل میںپروکراسے گیت نمابنانے کی کوشش کی اوراحمدفراز نے مترنم اور غنائیت سے بھرپوراسلوب اختیار کرکے اسے عوامی سطح تک مقبول کیا۔افتخارعارف،اظہارالحق اوراحمدمشتاق کے یہاں بھی خاص رنگ جھلکتا ہے۔اگرچہ غزل کہنے والوں کی تعدادبہت زیادہ ہے مگرمضبوط اورتوانا لہجہ بہت کم دکھائی دیتا ہے۔اس حوالے سے سال بھرپہلے جناب افتخارعارف نے ایک ملاقات میں کہاتھا کہ''اس عہدمیںکوئی ایک توانا آواز بھی سامنے نہیں آسکی'عباس تابش بھی پچیس تیس سال پہلے چمکنے والا شاعر ہے'اَب تو دور دور تک کوئی نام نہیں چمکتا'البتہ ناشادکی شاعری توجہ کھینچتی ہے ۔''افتخار عارف صاحب کی بات کوسند سمجھناچاہیے مگرکچھ لوگ تویقینافن کونکھارنے کے لیے خونِ دل میں قلم ڈبوکرلکھتے ہیں۔
ہمارے یہاں کے سماجی حالات اورجبر بھی فنون لطیفہ کی راہ میں ایک رکاوٹ کی حیثیت سے رہے ہیں' تخلیق کاروں کواپنے اظہارپربندشوں کاسامنارہا'ایسے حالات میں کرب اورمایوسی کی فضاعام ہوئی۔ یوںمزاحمتی حالات پیداہوئے'کہنے والوں نے گرد وپیش اوراپنے داخلی عوامل ومحرکات کولفظوںکاپیرہن عطا تو کیامگراس عمل سے غزل کاخاص آہنگ چھوٹ گیا اور شاعری نعرے کی صورت اختیارکرگئی۔یہ ایسی لہرتھی جس میں بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے۔روایت سے جڑی ہوئی شاعری کوکارِفضول سمجھ لیاگیا'اگرچہ رومانوی تحریک کے زیراثرکچھ آوازیں بلندہوتی رہیں مگربالعموم مقصدیت کواہمیت حاصل ہوگئی۔ نئے رجحانات ، سائنسی ایجادات واختراعات اورتیزترین زندگی نے فکری سطح پر بھونچال کی صورت پیدا کردی'ایسے میں وہ خاص ٹھہراؤ جوغزل کے لیے ضروری ہوتا ہے معدوم ہوتا چلاگیا۔چل سوچل کی اس فضا میں شاعر بھی سہل پسندہوگیا۔کچھ ایسے ہی حالات دوسرے خطوںمیں بسنے والے تخلیق کاروں کوبھی درپیش رہے۔نئے پیرہن میں ملبوس اس دنیاکے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی خواہش میںلپٹے ہوئے لوگوں نے غزل کوماضی کی ایک یاد سمجھ لیا'پھر معاشرے کے عمومی رجحانات بھی اس کی راہ میں دیواراُٹھائے ہوئے تھے اورہیں۔ایسے میں تواناآوازکی خواہش بجائے خودایک حوصلے کی بات ہے۔تخلیق کارپورے اخلاص کوبروئے کار لائے بھی تواُس کے ماحول کی چندھیائی ہوئی آنکھیں اس کی چمک کودیکھ نہیں پاتیں۔پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد بھی اسی دورانیے کاشاعر ہے'اس کے یہاں بھی جبرکی فضا ویسے ہی تنی ہوئی ہے جیسے دوسرے شاعروں کو درپیش ہے مگرڈاکٹرناشادکاوصف یہ ہے کہ اُس نے اس فضا میں سے نکلنے کی بھرپوراورزوردار کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں اس کے ہاتھ روایت کو چھونے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔وہ ایک کڑی جوکہیں کھوگئی تھی اُس کی تلاش میںاسے کام یابی نصیب ہوئی ہے۔ یقینایہ کارنامہ پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا ہے۔حال سے ماضی تک کے سفر میں اسے ہزارجہتوں میںجاناپڑا ہے اوراس سفر نے اسے روایت کی بازیافت کاقرینہ عطاکیا۔روایت اورجدت کے اس پارکھ نے جب خود غزل کہنے کی ٹھانی تواس میں دونوں ذائقوں کوہم آمیزکردیا۔یوں غزل کی روایتی کسک اورخلش کے ساتھ عہدجدیدکی چبھن اورمٹھاس بھی اس کے مزاج سے ہم آہنگ ہوتی چلی گئی۔
یقین وگمان کے اس جہان میں ڈاکٹرناشادکی منفرد آوازیقین آمیز ہے اورتوانا بھی۔اس کی فکرمیںپنپنے والاگمان جب مشاہدوں اورتجربوں کی بھٹی میں سے گزرتا ہے توپھر اس کی زبان سے یقین کے نغمے پھوٹتے ہیں'وہ نغمے جوحال کی خوب صورتی' ماضی کے حسن اورمستقبل کی سنہری چمک کااحوال سناتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ لمحہ لمحہ بدلتی ہوئی اس دنیا میں شعرواَدب کی بہ ہرحال ضرورت اورحیثیت ہے۔ سائنسی ایجادات اوراختراعات کے بغیرتوجیناممکن ہے لیکن اَدب کے قرینے کے بغیرشایدنہ ہو۔جیتے جاگتے انسان کواَدب اور اس سے وابستہ اصناف سے کبھی کبھار ہم کلام ہونا ہی پڑتا ہے ' یہ ہم کلامی ہی زندہ رکھنے کی دلیل ہے۔فکری سطح پر زندہ رکھنے کی تحریک تواَدب کے مرہون منت ہے اور جب اس میں یقین کی شیرینی بھی گھل جائے توہم کلام ہونے کالطف دوچندہوجاتا ہے۔ڈاکٹرناشادکی شاعری میں یہ وصف بہ درجہ أتم موجود ہے۔ڈاکٹر انور سدید نے ان کے مجموعے''رنگ'' پراپنے تبصرے میں کہا ہے''مجھے ان کی شاعری میں جرسِ غنچہ کی وہ صدا سنائی دی جو محیطِ عالمِ امکان ہے اور جو زمین کو ''کتابِ موسمِ گل '' بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ناشاد صاحب نے غزل کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اسے مضامینِ تازہ سے ثروت مند کیا ہے اور زبان کو ایک ایسے لہجے سے سرفراز کیا ہے جس میں ایک رجلِ عظیم کائنات سے ہم کلام ہے اور پوری کائنات گوش بر آواز نظر آتی ہے۔ اس کلام کی مرصع کاری کو دل میں اتارنے کے لیے ہر غزل ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا ضروری ہے۔''
ڈاکٹرشفیق انجم اس حوالے سے کہتے ہیں''رنگ'' کی شاعری پڑھ کر اس حقیقت کا معترف ہونا پڑتا ہے کہ غزل کہنے کے لیے جس ذوق، مزاج، احساس، سلیقے، مطالعے اورعلمیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ڈاکٹر ناشاد کے ہاں وافر موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کا غزلیہ روکھا ، بے رس اور آورد کا حامل نہیں بلکہ سراسر وجدانی اور براہِ راست جذبہ واحساس کو گرفت میں لینے والا ہے۔''
کائنات سے ہم کلامی کاہنریقین سے پھوٹتا ہے اور وجد کاعالم بھی اسی سے مشروط ہے۔بے یقینی کبھی وجد آفریں نہیں ہونے دیتی'اس اعتبار سے ڈاکٹرناشادنہ صرف ثروت مند ہیں بلکہ خوش نصیب بھی کہ عطاکرنے والے نے انھیں یقین کابیج عطاکیا جوان کے من بھیتر میں کاشت ہوکرخوش رنگ صورت میںپھوٹ رہا ہے۔ ان کے مجموعے''رنگ'' میں درجنوں ایسے اشعار ہیں جو اس بات کے ثبوت کے طورپرپیش کیے جاسکتے ہیں۔ کچھ مثالیں یہ ہیں:
کوئی تو ہے جو مرے حرف میں چمکتا ہے
کوئی تو ہے جو مرے فکرکی کتاب میں ہے
کوئی اشارہ، کوئی التفات،کوئی کرم
کہ میرے ساتھ زمانہ بھی اضطراب میں ہے
ہم سے کیاآنکھ ملائیں مہ و مہر
ذرۂ خاک کی عظمت ہیں ہم
اب رہائی تجھے ہم سے نہیں ملنے والی زندگی! تو نے بہت زخم لگائے ہوئے ہیں
تلاشِ لامکاں میں اُڑ رہا ہوں
مگر مجھ سے مکاں لپٹا ہوا ہے
وہ ایک در کہ بہت ناز تھا مجھے جس پر
پھر اُس کے بعد بہت دیر در بہ در ہوا میں
زندگی کر ب میں گزرتی ہے
لب کو ہے تابِ عرضِ حال کہاں
محیطِ عالمِ امکاں ہوا جمالِ صبا
کھلی ہوئی ہے زمیں پرکتابِ موسمِ گل
یہ وہم و گماں کی فصل نہیں ، یہ راز ونیاز کی دنیا ہے ہردرد نصاب نہیں بنتا ، ہر غم قندیل نہیں ہوتا
اک حرف یقیں کی خوش بو نے سرشار کیا ہے مکانِ وجود
اک عکسِ لطیف کی برکت سے صحرائے جہاں
گل زار ہوئے
اپنے وجود اصل کو خود سے علاحدہ رکھا
نغمۂ خام کی طرح لہجۂ چنگ میں رہے
ناتوانی میں بھی اک کوہِ گراں کی صورت
گردشِ دہر! ترے مد مقابل رہے ہم
یہ کیا کہ جس نے کبھی لوٹ کر نہیں آنا
رہے گا تابہ ابد اُس کاانتظار ہمیں
سفر لکھا گیا ہے اور کہیں رکنا نہیں ہے
بہ شکلِ موجۂ آبِ رواں رہنا پڑے گا
فلک سے دوستی کی آرزو ہے
زمیں کے راز کو سمجھے نہیں ہیں
جسے زوال نہیں ہے بیاضِ امکاں میں
وہ لفظ ہے مرے دستِ ہنر میں رکھا ہوا
تری طلب میں ستاروں کا ہم سفر ہوا میں
خدا کاشکر کہ اس درجہ معتبر ہوا میں
ہماری خاک میں شامل نہیں ہے سرتابی
وگرنہ ہم بھی رموزِ سخن سمجھتے ہیں
دیئے کی لو مسلسل بڑھ رہی ہے
ہوائیں لڑتے لڑتے تھک گئی ہیں
پروفیسرڈاکٹرارشدمحمودناشادکے خمیر میں محنت کی خو شامل ہے۔اپنی زندگی کے سفرمیں اس شخص نے راستوں کی تمام رکاوٹوں کومردانہ وارمقابلے سے ہٹایا ہے۔پھرایک استاذ کی حیثیت سے مسلسل محنتوں سے جومقام حاصل کیا ہے وہ سب ان کاخالق کون ومکاں پرپختہ یقین کامظہر ہے۔اسی یقین کی دولت کاپرتوان کی شاعری پربھی عکس فگن ہے۔''رنگ'' کی غزلیہ شاعری کے بیش ترابواب اسی قرینے سے سجے ہوئے ہیں۔اس شاعری کوپڑھ کرکم ہمتی نہیںہوتی بلکہ زندگی اور اس کی مشکلوں سے نبردآزماہونے کے لیے یقین کے ستارے جگ مگاتے ہیں'یہی اس مطالعے کاحاصل ہے۔متذکرہ بالاتمام اشعار اپنے پیچھے ہزارداستان رکھتے ہیں اوران میں سے ہرایک یقین کے بیج سے پھوٹتا ہے۔میںڈاکٹرناشادکواس دولت کی دستیابی پرمبارک بادپیش کرتا ہوں اورروایت وجدت کی سوندھی مٹی میں گندھی ہوئی اس شاعری کواس عہد کی تواناآواز خیال کرتا ہوں۔مجھے یقین ہے کہ خلوص کے جذبے سے سرشاریہ مجموعہ اہلِ ہنرکی توجہ کاحق دار رہے گا۔ (ڈاکٹرصاحب اوپن یونی ورسٹی میں استاد ہیں)
٭٭٭٭
میر وغالب نے توغزل کومعراج تک پہنچایا' سودا ، درداورسوز کے یہاں بھی غزل کاخاص رنگ جاگتا ہے ۔ جرأت،داغاوردوسرے اساتذہ کے یہاں بھی اس صنف کا اپنا ہی قرینہ ہے۔بعد میں آنے والوں؛ خصوصاًاقبال اورفراق نے اسے خاص ذائقوں اور مضامین سے روشناس کرایا۔ترقی پسندوں نے مضامین کے اعتبارسے اس کے دامن کوخوب وسعت دی۔قیامِ پاکستان کے فوراً بعدہمارے یہاںناصرکاظمی، منیرنیازی،فیض نمایاں ہوئے'ظفراقبال نے لفظوںکونئے مفاہیم پہنانے کی کوشش کی، ناصرشہزادنے ہندی لفظیات کو غزل میںپروکراسے گیت نمابنانے کی کوشش کی اوراحمدفراز نے مترنم اور غنائیت سے بھرپوراسلوب اختیار کرکے اسے عوامی سطح تک مقبول کیا۔افتخارعارف،اظہارالحق اوراحمدمشتاق کے یہاں بھی خاص رنگ جھلکتا ہے۔اگرچہ غزل کہنے والوں کی تعدادبہت زیادہ ہے مگرمضبوط اورتوانا لہجہ بہت کم دکھائی دیتا ہے۔اس حوالے سے سال بھرپہلے جناب افتخارعارف نے ایک ملاقات میں کہاتھا کہ''اس عہدمیںکوئی ایک توانا آواز بھی سامنے نہیں آسکی'عباس تابش بھی پچیس تیس سال پہلے چمکنے والا شاعر ہے'اَب تو دور دور تک کوئی نام نہیں چمکتا'البتہ ناشادکی شاعری توجہ کھینچتی ہے ۔''افتخار عارف صاحب کی بات کوسند سمجھناچاہیے مگرکچھ لوگ تویقینافن کونکھارنے کے لیے خونِ دل میں قلم ڈبوکرلکھتے ہیں۔
ہمارے یہاں کے سماجی حالات اورجبر بھی فنون لطیفہ کی راہ میں ایک رکاوٹ کی حیثیت سے رہے ہیں' تخلیق کاروں کواپنے اظہارپربندشوں کاسامنارہا'ایسے حالات میں کرب اورمایوسی کی فضاعام ہوئی۔ یوںمزاحمتی حالات پیداہوئے'کہنے والوں نے گرد وپیش اوراپنے داخلی عوامل ومحرکات کولفظوںکاپیرہن عطا تو کیامگراس عمل سے غزل کاخاص آہنگ چھوٹ گیا اور شاعری نعرے کی صورت اختیارکرگئی۔یہ ایسی لہرتھی جس میں بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے۔روایت سے جڑی ہوئی شاعری کوکارِفضول سمجھ لیاگیا'اگرچہ رومانوی تحریک کے زیراثرکچھ آوازیں بلندہوتی رہیں مگربالعموم مقصدیت کواہمیت حاصل ہوگئی۔ نئے رجحانات ، سائنسی ایجادات واختراعات اورتیزترین زندگی نے فکری سطح پر بھونچال کی صورت پیدا کردی'ایسے میں وہ خاص ٹھہراؤ جوغزل کے لیے ضروری ہوتا ہے معدوم ہوتا چلاگیا۔چل سوچل کی اس فضا میں شاعر بھی سہل پسندہوگیا۔کچھ ایسے ہی حالات دوسرے خطوںمیں بسنے والے تخلیق کاروں کوبھی درپیش رہے۔نئے پیرہن میں ملبوس اس دنیاکے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی خواہش میںلپٹے ہوئے لوگوں نے غزل کوماضی کی ایک یاد سمجھ لیا'پھر معاشرے کے عمومی رجحانات بھی اس کی راہ میں دیواراُٹھائے ہوئے تھے اورہیں۔ایسے میں تواناآوازکی خواہش بجائے خودایک حوصلے کی بات ہے۔تخلیق کارپورے اخلاص کوبروئے کار لائے بھی تواُس کے ماحول کی چندھیائی ہوئی آنکھیں اس کی چمک کودیکھ نہیں پاتیں۔پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد بھی اسی دورانیے کاشاعر ہے'اس کے یہاں بھی جبرکی فضا ویسے ہی تنی ہوئی ہے جیسے دوسرے شاعروں کو درپیش ہے مگرڈاکٹرناشادکاوصف یہ ہے کہ اُس نے اس فضا میں سے نکلنے کی بھرپوراورزوردار کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں اس کے ہاتھ روایت کو چھونے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔وہ ایک کڑی جوکہیں کھوگئی تھی اُس کی تلاش میںاسے کام یابی نصیب ہوئی ہے۔ یقینایہ کارنامہ پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا ہے۔حال سے ماضی تک کے سفر میں اسے ہزارجہتوں میںجاناپڑا ہے اوراس سفر نے اسے روایت کی بازیافت کاقرینہ عطاکیا۔روایت اورجدت کے اس پارکھ نے جب خود غزل کہنے کی ٹھانی تواس میں دونوں ذائقوں کوہم آمیزکردیا۔یوں غزل کی روایتی کسک اورخلش کے ساتھ عہدجدیدکی چبھن اورمٹھاس بھی اس کے مزاج سے ہم آہنگ ہوتی چلی گئی۔
یقین وگمان کے اس جہان میں ڈاکٹرناشادکی منفرد آوازیقین آمیز ہے اورتوانا بھی۔اس کی فکرمیںپنپنے والاگمان جب مشاہدوں اورتجربوں کی بھٹی میں سے گزرتا ہے توپھر اس کی زبان سے یقین کے نغمے پھوٹتے ہیں'وہ نغمے جوحال کی خوب صورتی' ماضی کے حسن اورمستقبل کی سنہری چمک کااحوال سناتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ لمحہ لمحہ بدلتی ہوئی اس دنیا میں شعرواَدب کی بہ ہرحال ضرورت اورحیثیت ہے۔ سائنسی ایجادات اوراختراعات کے بغیرتوجیناممکن ہے لیکن اَدب کے قرینے کے بغیرشایدنہ ہو۔جیتے جاگتے انسان کواَدب اور اس سے وابستہ اصناف سے کبھی کبھار ہم کلام ہونا ہی پڑتا ہے ' یہ ہم کلامی ہی زندہ رکھنے کی دلیل ہے۔فکری سطح پر زندہ رکھنے کی تحریک تواَدب کے مرہون منت ہے اور جب اس میں یقین کی شیرینی بھی گھل جائے توہم کلام ہونے کالطف دوچندہوجاتا ہے۔ڈاکٹرناشادکی شاعری میں یہ وصف بہ درجہ أتم موجود ہے۔ڈاکٹر انور سدید نے ان کے مجموعے''رنگ'' پراپنے تبصرے میں کہا ہے''مجھے ان کی شاعری میں جرسِ غنچہ کی وہ صدا سنائی دی جو محیطِ عالمِ امکان ہے اور جو زمین کو ''کتابِ موسمِ گل '' بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ناشاد صاحب نے غزل کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اسے مضامینِ تازہ سے ثروت مند کیا ہے اور زبان کو ایک ایسے لہجے سے سرفراز کیا ہے جس میں ایک رجلِ عظیم کائنات سے ہم کلام ہے اور پوری کائنات گوش بر آواز نظر آتی ہے۔ اس کلام کی مرصع کاری کو دل میں اتارنے کے لیے ہر غزل ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا ضروری ہے۔''
ڈاکٹرشفیق انجم اس حوالے سے کہتے ہیں''رنگ'' کی شاعری پڑھ کر اس حقیقت کا معترف ہونا پڑتا ہے کہ غزل کہنے کے لیے جس ذوق، مزاج، احساس، سلیقے، مطالعے اورعلمیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ڈاکٹر ناشاد کے ہاں وافر موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کا غزلیہ روکھا ، بے رس اور آورد کا حامل نہیں بلکہ سراسر وجدانی اور براہِ راست جذبہ واحساس کو گرفت میں لینے والا ہے۔''
کائنات سے ہم کلامی کاہنریقین سے پھوٹتا ہے اور وجد کاعالم بھی اسی سے مشروط ہے۔بے یقینی کبھی وجد آفریں نہیں ہونے دیتی'اس اعتبار سے ڈاکٹرناشادنہ صرف ثروت مند ہیں بلکہ خوش نصیب بھی کہ عطاکرنے والے نے انھیں یقین کابیج عطاکیا جوان کے من بھیتر میں کاشت ہوکرخوش رنگ صورت میںپھوٹ رہا ہے۔ ان کے مجموعے''رنگ'' میں درجنوں ایسے اشعار ہیں جو اس بات کے ثبوت کے طورپرپیش کیے جاسکتے ہیں۔ کچھ مثالیں یہ ہیں:
کوئی تو ہے جو مرے حرف میں چمکتا ہے
کوئی تو ہے جو مرے فکرکی کتاب میں ہے
کوئی اشارہ، کوئی التفات،کوئی کرم
کہ میرے ساتھ زمانہ بھی اضطراب میں ہے
ہم سے کیاآنکھ ملائیں مہ و مہر
ذرۂ خاک کی عظمت ہیں ہم
اب رہائی تجھے ہم سے نہیں ملنے والی زندگی! تو نے بہت زخم لگائے ہوئے ہیں
تلاشِ لامکاں میں اُڑ رہا ہوں
مگر مجھ سے مکاں لپٹا ہوا ہے
وہ ایک در کہ بہت ناز تھا مجھے جس پر
پھر اُس کے بعد بہت دیر در بہ در ہوا میں
زندگی کر ب میں گزرتی ہے
لب کو ہے تابِ عرضِ حال کہاں
محیطِ عالمِ امکاں ہوا جمالِ صبا
کھلی ہوئی ہے زمیں پرکتابِ موسمِ گل
یہ وہم و گماں کی فصل نہیں ، یہ راز ونیاز کی دنیا ہے ہردرد نصاب نہیں بنتا ، ہر غم قندیل نہیں ہوتا
اک حرف یقیں کی خوش بو نے سرشار کیا ہے مکانِ وجود
اک عکسِ لطیف کی برکت سے صحرائے جہاں
گل زار ہوئے
اپنے وجود اصل کو خود سے علاحدہ رکھا
نغمۂ خام کی طرح لہجۂ چنگ میں رہے
ناتوانی میں بھی اک کوہِ گراں کی صورت
گردشِ دہر! ترے مد مقابل رہے ہم
یہ کیا کہ جس نے کبھی لوٹ کر نہیں آنا
رہے گا تابہ ابد اُس کاانتظار ہمیں
سفر لکھا گیا ہے اور کہیں رکنا نہیں ہے
بہ شکلِ موجۂ آبِ رواں رہنا پڑے گا
فلک سے دوستی کی آرزو ہے
زمیں کے راز کو سمجھے نہیں ہیں
جسے زوال نہیں ہے بیاضِ امکاں میں
وہ لفظ ہے مرے دستِ ہنر میں رکھا ہوا
تری طلب میں ستاروں کا ہم سفر ہوا میں
خدا کاشکر کہ اس درجہ معتبر ہوا میں
ہماری خاک میں شامل نہیں ہے سرتابی
وگرنہ ہم بھی رموزِ سخن سمجھتے ہیں
دیئے کی لو مسلسل بڑھ رہی ہے
ہوائیں لڑتے لڑتے تھک گئی ہیں
پروفیسرڈاکٹرارشدمحمودناشادکے خمیر میں محنت کی خو شامل ہے۔اپنی زندگی کے سفرمیں اس شخص نے راستوں کی تمام رکاوٹوں کومردانہ وارمقابلے سے ہٹایا ہے۔پھرایک استاذ کی حیثیت سے مسلسل محنتوں سے جومقام حاصل کیا ہے وہ سب ان کاخالق کون ومکاں پرپختہ یقین کامظہر ہے۔اسی یقین کی دولت کاپرتوان کی شاعری پربھی عکس فگن ہے۔''رنگ'' کی غزلیہ شاعری کے بیش ترابواب اسی قرینے سے سجے ہوئے ہیں۔اس شاعری کوپڑھ کرکم ہمتی نہیںہوتی بلکہ زندگی اور اس کی مشکلوں سے نبردآزماہونے کے لیے یقین کے ستارے جگ مگاتے ہیں'یہی اس مطالعے کاحاصل ہے۔متذکرہ بالاتمام اشعار اپنے پیچھے ہزارداستان رکھتے ہیں اوران میں سے ہرایک یقین کے بیج سے پھوٹتا ہے۔میںڈاکٹرناشادکواس دولت کی دستیابی پرمبارک بادپیش کرتا ہوں اورروایت وجدت کی سوندھی مٹی میں گندھی ہوئی اس شاعری کواس عہد کی تواناآواز خیال کرتا ہوں۔مجھے یقین ہے کہ خلوص کے جذبے سے سرشاریہ مجموعہ اہلِ ہنرکی توجہ کاحق دار رہے گا۔ (ڈاکٹرصاحب اوپن یونی ورسٹی میں استاد ہیں)
٭٭٭٭