محمد تابش صدیقی
منتظم
اگر آپ دونوں بہنیں ڈیشز کی تعداد کم کرنے پر غور فرمائیں، تو بہت سے پڑھنے والوں کو آسانی ہو جائے گی۔
جی جی میں آپ کا پوائنٹ سمجھ گئی ہوں۔جو چاہیے ہوتا وہ چاہت سے پہلے بتانا نادانی اور چاہت پانے کے بعد افشاء کرنا دوست نہ ہونے کی نشانی ہے۔۔۔۔۔آپ کے پاس علم ہے میرے پاس کچھ نہیں رہا۔یقین کریں یہ بہت سچے دل سے کہے رہی ہوں کہ میرے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جس آپ کے گوُشے جو سیراب یافتہ ہیں ان کو مزید ہونا چاہیے۔ مجھے ان کو سننا نہیں تھا شاید وجہ بتادی ۔ہم میں کشش ثقل موجود ہوتی ہے اس کے مخالف سینٹری فگل بھی۔۔۔۔بس محترمہ ہاشمی کا مدار مجھ سے مختلف ہے۔
بس یہاں پر آپ مجھ سے ملتی ہیں۔۔۔انسان کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں اضافہ کرے ۔ میرا خیال ہے اچھا استاد وہ ہے جو نفیسات سمجھے اور اس کے مطابق ٹریٹ کرے وہی جب سب سے خود سر ہوتا ہے اپنا آپ سرنگوں کرتا ہے ۔۔۔۔۔ آپ اپنے وقت کی لڑکیوں سے مختلف ہیں اور جلد ہی راہ تعین کر لی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس جناب!! اگر تین چار سال ضائع نہی کرتی اور خرچ کرتی خود کو تاکہ سمجھتی تو اتنا خسارہ محسوس نہیں ہوتا جتنا مجھے ہوتا ہے۔قران پاک کو کبھی اپنی فیورٹ کتاب نہیں کہا ہے بلکہ کہا یہ کتاب اہم ہے جب اس کو پڑھ لوں گی تب کہ پاؤں یہ محبوب ترین کتاب ہے کہ بن پڑھے کہنا نادانی ہے ۔۔۔۔۔میں اس سے زیادہ کوئی مثال مانگ رہی تھی کہ کوئی ایسی بات جو آپ کو پڑھاتے ہوئے دل کو سرور بخشے ؟
اللہ تعالی پہ یقین کامل ہونا اور کبھی کبھار ایسے لمحات آجاتے ہیں کہ انسان ڈگمگا جاتا ہے۔ایسی ہی صورت حال کو انتہائ خببصورت پیرائےمیں بیان کیا۔۔۔داد قبول کیجئے بہت اچھی تحریر پڑھنے کو ملی۔
اتنی گہری تحریر، اتنے سارے یکجا خیالات اور تمہاری زندگی کے بارے میں ڈھیر ساری باتیں ایک ساتھ پڑھ کر میں تبصرہ کرنے کی حالت میں تو نہیں ہوں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ تم بہت گہری باتیں لکھتی ہو اور پھر ان تحاریر پر تبصرے اتنے جاندار اور تفصیلی ہونے لگتے ہیں کہ مجھ جیسا عام سا قاری تو کہیں بیچ میں ہی اٹک کر رہ جاتا ہے۔ تماری تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تم جو بھی لکھتی ہو، پختہ یقین اور پورے دل کے ساتھ لکھتی ہو جس کے بعد اس پر ہونے والی تنقید یا تبصرے کے لیے بالکل تیار ہوتی ہو جو کم سے کم میرے بس کا کام نہیں۔ یہ بحیثیت لکھاری تمہاری پختگی کو ثابت کرتا ہے اور میرے لیے یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔
میں شاید تحریر کا گہرائی میں جا کر تجزیہ نہیں کر سکا لیکن پوری تحریر پڑھنے میں مجھے ایک بات محسوس ہوئی کہ تم جیسے سرپٹ بھاگتے ہوئے لکھتی ہواور قاری کو ساتھ بھگاتی جاتی ہو۔ مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ تم کو شاید الفاظ کے چناؤ یا واقعات کے چناؤ میں تھوڑا وقفہ بھی کرنا چاہئے تاکہ مجھ جیسا قاری جس سے تیز چلنا محال ہوتا ہے وہ بھی ساتھ چل سکے۔ شاید تم اپنی زندگی کے بہت سارے واقعات بہت جلدی میں لکھنا چاہ رہی تھیں اور مجھے لگا کہ تم بھاگ رہی ہو۔ یہ سراسر میری غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے
عمر: تجربے اور علم کا تفاعل ہے ۔ اس لحاظ سے آپ کا سب سے پہلا تجربہ جو آپ کو کم عمری میں درپیش رہا ہوگا واضح کر رہا ہے کون کتنا سمندر میں ہے ۔ میں یہاں ایک اچھا پوائنٹ شئیر کرچکی ہوں کہ مجھے کبھی اپنی زندگی کے بارے میں لکھنا نہیں تھا مگر یہی سوچ کے لکھا ہے ہوسکتا ہے میرا تجربہ کسی اور کے لیے رہنما بن جائے اور کوئی اس سچے جذبے سے رہنمائی لے لے ۔اور حضورِوالا ! علم جتنا بھی ہو بہت کم ہوتا ہے اور میرے پاس تو سرے سے ہے ہی نہیں۔۔۔۔ آپ عمر، علم، تجربہ ہر چیز میں مجھ سے بہتر ہیں ماشا اللہ۔۔۔۔۔۔ اگر کبھی کوئی اچھی رہنمائی ملے یا پوائنٹ ملے تو براہ کرم مجھ سے ضرور شئیر کیجئیے گا۔۔۔۔ کیونکہ یقیناََ آپ لو مجھ سے اچھا ملے گا۔۔۔
جو سوال آپ نے آخر میں پوچھا مجھے اسکی سمجھ نہیں آ پائی ۔۔۔ پڑھاتے ہوئے دل کو سرور مجھے شاید نہیں آتا۔۔۔۔پڑھانے کے بعد ہی آتا ہے ؛)
قرآن بچوں کے پڑھنے کی کتاب نہیں ہے۔کی جو لائن کوٹ کی اس کا مفہوم یہی تھا کہ ہمیں بچپن سے اس کی تفہیم نہیں کرائی جاتی ہے۔ جبکہ اس کو بہت پہلے پڑھانا چاہیے ۔
عبدالقیوم چوہدری ایک اور رکن!تُسی تے انّی وڈّی گل کر دتّی اے پٹائی دا کہہ کے۔۔۔۔۔۔
جو کچھ نایاب انکل نے کہا ہے۔۔۔۔ "میرے ولّوں وی اوہی۔۔۔۔"
یہ پڑھ کر بےاختیار ٹائلنول اور آئبوبروفن ڈھونڈی۔عارفانہ خود شناسی ذات حق سے اپنے رابطے کے سلسلے میں خود شناسی ہے‘ عرفا کے نقطہ نظر سے یہ رابطہ ایسا نہیں ہے جو دو انسانوں کا آپس میں یا معاشرے کے کسی دوسرے افراد سے ہوتا ہے‘ بلکہ یہ رابطہ ”شاخ کا جڑ“ سے ”مجاز کا حقیقت“ سے اور عرفا کی اصطلاح میں مقید کا مطلق سے رابطہ ہے۔
ایک روشن فکر کے درد کے برعکس عارف کا درد انسان کی ”خود شناسی“ میں کسی بیرونی درد کا انعکاس نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک ایسا باطنی درد ہے‘ جو فطری اور اجتماعی درد ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ پہلے اس سے آگاہ ہوتا ہے پھر یہ آگاہی اس کو درد مندبناتی ہے۔
لیکن ایک عارف کا درد چونکہ ایک باطنی درد ہوتا ہے‘ خود درد ہی اس کے لئے آگاہی ہے بالکل بیماریوں کے درد ہی کی طرح‘ جو طبیعت کی طرف سے کسی حاجت اور ضرورت کا اعلان ہے۔
حسرت و زاری کہ درد بیماری است
وقت بیماری ھمہ بیداری است
ہر کہ او بیدار تر پر درد تر
ہر کہ او آگاہ تر رخ زرد تر
پس بدان این اصل را ای اصلجو
ہر کہ را درد است او بردہ است بو
”بیماری میں جو حسرت اور گریہ زاری ہے‘ بیماری کے وقت سب کی بیداری کی علامت ہے۔
جو جتنا زیادہ بیدار ہے وہ اتنا ہی زیادہ دردمند ہے اور جو جتنا زیادہ خود شناس ہے اس کا چہرہ اتنا ہی زیادہ زرد ہے‘ پس اے حقیقت کے متلاشی! اس حقیقت کو جان لے کہ جو شخص درد میں مبتلا ہے اسی نے حقیقت کا پتہ لگا لیا ہے۔“
عارف کا درد فلسفی کے درد جیسا بھی نہیں‘ دونوں ہی حقیقت کے درد مند ہیں لیکن فلسفی کا درد حقیقت کے جاننے اور شناخت کرنے کا درد ہے اور عارف کا درد پہنچنے‘ ایک ہو جانے اور محو ہو جانے کا درد۔ فلسفی کا درد اسے فطرت کے دیگر فرزندوں یعنی تمام جمادات‘ نباتات اور حیوانات سے ممتاز کر دیتا ہے۔ عالم طبیعت کے کسی وجود میں ماننے اور شناخت کرنے کا درد موجود نہیں‘ لیکن عارف کا درد عشق اور جذبے کا درد ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو نہ صرف حیوان میں نہیں بلکہ فرشتوں میں بھی موجود نہیں‘ جن کی ذات کا جوہر ہی خود شناسی اور جاننا ہے۔
فرشتہ عشق نداانست چیست قصہ مخوان
بخواہ جام و گلابی بہ خاک آدم ریز
”فرشتے نے عشق کو نہ جانا کہ وہ کیا چیز ہے قصہ نہ سنا‘ جام طلب کر اور گلاب کا پانی آدم کی خاک پر ڈال دے۔“
جلوہ ای کرد رخش دید ملک‘ عشق نداشت
خیمہ در مزرعہ آب و گل آدم زد
”جب اس کے رخ کا ایک جلوہ نظر آیا تو فرشتے نے دیکھا کہ اس میں عشق نہیں تو اس نے آدم کی خاک پر اپنے خیمے گاڑ دیئے۔“
فلسفی کا درد فطرت کی حاجتوں کے جاننے کا اعلان ہے جسے فطری طور پر انسان جاننا چاہتا ہے اور عارف کا درد فطرت عشق کی حاجتوں کا اعلان ہے جو پرواز کرنا چاہتا ہے اور جب تک پوری طرح سے حقیقت کا ادراک نہیں کرتا‘ سکون نہیں پاتا۔ عارف کامل خود شناسی کو ”خداشناسی“ میں منحصر سمجھتا ہے۔ عارف کی نظر میں جسے فلسفی انسان کا حقیقی ”من“ سمجھتا ہے‘ حقیقی ”من“ نہیں ہے بلکہ روح ہے۔ ”جان“ ہے‘ ایک تعین ہے‘ حقیقی ”من“ خدا ہے اور اس تعین کے ٹوٹنے کے بعد انسان اپنے حقیقی ”من“ کو پا لیتا ہے۔
محی الدین ابن عربی فصول الحکم‘ فص شعیبی میں فرماتے ہیں‘ حکماء اور متکلمین نے خود شناسی کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ لیکن ان راہوں سے ”معرفت النفس“ حاصل نہیں ہو سکتی‘ جس کا خیال یہ ہو کہ ”خود شناسی“ کے بارے میں حکماء نے جو کچھ سمجھا ہے‘ وہ حقیقت ہے‘ تو اس نے پھولی ہوئی چیز کو موٹا سمجھ رکھا ہے۔
شیخ محمود شبستری سے عرفانی مسائل کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات ”جن کے جواب میں کم نظیر عرفانی کلام‘ ”گلشن راز“ وجود میں آیا ہے۔“ میں سے ایک ”خود“ ذات اور ”من“ کے بارے میں سوال تھا کہ یہ کیا ہے؟
دگر کردی سوال ازمن کہ ”من“ چیست
مرا از من خبر کن تاکہ ”من“ کیست
چو ہست مطلق آمد در اسارت
بہ لفظ ”من“ کنند از وی عبارت
حقیقت کز تعین شد معین
تو او را در عبارت گفتہ ای من
من و تو عارض ذات وجودیم
مشبکہای مشکوة وجودیم
ھمہ یک نور دان اشباح و ارواح
گہ از آئینہ پیدا گہ ز مصباح
”تو نے پھر مجھ سے پوچھا کہ یہ ”من“ کیا ہے‘ ”من“ کے بارے میں پوچھنے سے پہلے مجھے میرے بارے میں خبر تو دو!
مطلق ہستی کو جب اسیر اور مقید کر دیا جاتا ہے تو اسے ”من“ سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ جب تعین اور حدود و قیود کی وجہ سے حقیقت کو متعین کیا جاتا ہے اسے سادہ عبارت میں ”من“ کہا جاتا ہے‘ میں اور تم دونوں ذات وجود کے عارض ہیں اور ہم وجود (روح) کے فانوس کے گرد لگی ہوئی جالیاں ہیں (جن سے روشنی چھن چھن کر باہر آتی ہے) ہیولا اور روح کو ایک نور ہی سمجھ لو‘ کیوں کہ نور کبھی تو آئینہ سے منعکس ہو کر تم تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی فانوس سے سیدھا تم تک پہنچ جاتا ہے۔“
پھر ”روح“ اور ”من“ کے بارے میں فلاسفہ کی خود شناسی پر اس طرح سے اعتراض کرتے ہیں۔
تو گوی لفظ ”من“ در ہر عبارت
بسوی روح می باشد اشارت
چو کردی پیشوائے خود خرد را
نمی دانی ز جزء خویش خودرا
برو ای خواجہ خود را نیک بشناس
کہ نبود فربہی مانند آماس(۱)
من و تو بر تر از جان و تن آمد
کہ این ہر دو ز اجزای من آمد
بہ لفظ من نہ انسان است مخصوص
کہ تا گوی بدان جان است مخصوص
یکی راہ برتر از کون و مکان شو
جہاں بگذار و خود در خود جہان شو
”تم چاہے کسی بھی عبارت میں لفظ ”من استعمال کرو اشارہ تمہاری روح ہی کی طرف ہے‘ جب تم عقل کو اپنا رہبر اور رہنما بناؤ گے‘ تو اپنے آپ کو اپنے اعضاء سے نہیں سمجھو گے۔ اے خواجہ جا اور اپنے آپ کو اچھی طرح پہچان لے کیوں کہ پھول جانا موٹاپا نہیں ہوتا‘ ”من“ اور ”تو“ جگہ اور بدن سے برتر ہیں کیوں کہ یہ دونوں مرے اجزاء اور حصے ہیں لفظ ”من“ کسی خاص انسان سے مخصوص نہیں جو تم اس سے کسی خصوصی روح کو مراد لو‘ ایک راستے پر چلو اور کون و مکان سے برتر ہو جاؤ‘ دنیا کو چھوڑ دو اور اپنے اندر ایک دنیا بن جاؤ۔“
مولانا کہتے ہیں:
ای کہ در پیکار ”خود“ را باختہ
دیگران را تو ز خود نشاختہ
تو بہ ہر صورت کہ آئی بیستی
کہ منم این واللہ آن تو نیستی
یک زمان تنہا بمانی تو زخلق
در غم و اندیشہ مانی تا بحلق
این تو کی باشی؟ کہ تو آن اوحدی
کہ خوش و زیبا و سرمست خودی
مرغ خویشی‘ صید خویشی‘ دام خویش
صدر خویشی‘ فرش خویشی‘ بام خویش
گر تو آدم زادہ ای چون اونشین
جملہ ذرات را در خود ببین
”اے وہ شخص جو جنگ میں اپنے آپ کو ہار چکا ہے اور اپنے اور دوسروں کے فرق کو نہ جان سکا‘ تم چاہے کسی بھی صورت میں آ جاؤ تم نہیں ہو‘ بلکہ اللہ کی قسم وہ میں ہوں‘ ایک وقت ایسا آئے گا جب تم مخلوقات سے الگ تھلگ اکیلے رہ جاؤ گے اور گردن تک غم و اندوہ میں مبتلا رہو گے۔ یہ تم کب ہو؟‘ تم تو وہ فرد ہو جو اپنا مرکز‘ اپنا فرش اور اپنا چھت ہے اور جو اپنے آپ میں سرمست‘ خوش اور مگن ہے‘ تم خود ہی پرندہ ہو‘ خود شکار ہو اور خود ہی جال بھی‘ بلندی بھی تم خود ہو‘ پستی بھی خود ہی اور چھت بھی تم ہی ہو‘ اگر تم آدم کی اولاد ہو تو اس کی طرح رہو اور تمام ذرات کا اپنے اندر مشاہدہ کرو۔“
چنانچہ عارف کے نقطہ نظر سے یہ روح اور جان حقیقی نہیں ہے اور یہ روح اور جان کی شناخت بھی ”خود شناسی“ نہیں ہے‘ بلکہ روح خود اپنے آپ کا اور ”من“ کا مظہر ہے۔
”من حقیقی“ خدا ہے جب انسان فنا ہو جائے اور اس کا اپنا وجود ٹوٹ جائے اور اس کی جان اور روح کا کوئی نشان باقی نہ رہے تب دریا سے یہ جدا شدہ قطرہ دریا (یعنی گل) میں واپس چلا جاتا ہے اور اس میں گم ہو جاتا ہے۔ تبھی انسان اپنی ”حقیقی خود شناسی“ کو پا لیتا ہے‘ اسی وقت انسان اپنے آپ کو تمام اشیاء میں اور تمام اشیاء کو خود اپنے اندر دیکھتا ہے اور تبھی وہ اپنی حقیقی ذات سے باخبر ہو جاتا ہے۔
مجھے تو لگا کہ ڈیشز سنسر کی نشانی ہیں۔اگر آپ دونوں بہنیں ڈیشز کی تعداد کم کرنے پر غور فرمائیں، تو بہت سے پڑھنے والوں کو آسانی ہو جائے گی۔
مہڑبانی زیک پائینعبدالقیوم چوہدری ایک اور رکن!
قرآن بچوں کے پڑھنے کی کتاب نہیں ہے۔
اس قدر شوخ ہے کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے
عالم کیف ہے دانئے رموز کم ہے
ہاں عجز کے اسرار سے مگر نامحرم ہے
ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانون کو