احسان اللہ سعید
محفلین
پیارے آقا ﷺ نے یمن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا کہ ایمان ادھر ہے۔
اور "الإيمان يمان و الحكمة يمانية " کہ ایمان یمن میں ہے اور حکمت بھی یمن میں ہے۔
آج کے یمن کوسمجھنے کےلیے یہ تحریرکارآمد ومفید ہوگئی، گرچہ قدرے طویل ہے مگر سارے الجھنوں کوسلجھادے گئی۔
جوکہ ہمارے ایک دوست و شاعر اکرام اعظم بھائی نےبڑی جان فشانی کے ساتھ لکھی ہے۔
یمن اور بد امنی
------------------------
یمن ایک قدیم عمرانی تہذیب و ترقی کی شاہد سر زمین ہے جو افریقہ اور عرب کے تجارتی قافلوں کی محفوظ راہ گزر تھی۔
یمن ہزاروں سال قبل مسیح سے سائنس ، انجینئرنگ اور ٹیکنولوجی میں درجہ کمال پر فائز تھا ۔ دنیا کے سب سے پہلے ذخیرہ آب کی تعمیر یمن میں ہی ہوئی تھی جس کے اثرات آج بھی معرب میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ملکہ بلقیس جس کی سلطنت کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہد ہد نے دریا فت کیا تھا اسی یمن کا حصہ تھی جس کا تذکرہ بائبل اور قرآن میں بھی ہے۔ اور کثیر منزلہ عمارات بنانے کی ابتدا بھی یمن میں ہی ہوئی۔
ابرہہ جو خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کے ارادے سے لشکر لے کر مکے پر حملہ آور ہوا تھا اور ابابیلوں کے ڈرون حملوں کا شکار ہو گیا تھا اسی یمن کا باشندہ تھا۔
تبع بھی اسی یمن کے ایک بادشاہ کا لقب تھا جس نے یثرب کی کھجوروں والی سرزمین میں توریت کے علماء کو گھر بنوا کے دیئے اور آنے والے نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت سے پہلے ہی ان پر ایمان لانے کا اعلان کیا ۔ اور پیارے آقا کے نام ایک خط لکھا جو آپ ﷺ تک پہنچا تو آپ نے قبول فرما کر ان کے ایمان کی گواہی دی۔۔ مرحبا بتبع۔
یمن کی طرف اشارہ کرکے پیارے آقا ﷺنے فرمایا کہ " ایمان ادھر ہے" پھر فرمایا کہ " ایمان یمن میں ہے اور حکمت بھی یمن میں ہے"
یمن میں سے سب سے پہلے اسلام کو سینے سے لگانے والے بنو ہمدان تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے خصوصی نمائندے بھی یمن بھیجے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صنعا ء بھیجا اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تعز کے قریبی علاقے جند میں بھیجا جہاں ان دونوں اصحاب کے آثار اور مساجد آج بھی موجود ہیں۔
ان کی سفارت اور تبلیغ سے یمن میں اسلام بہت تیزی سے پھیلا حتی کہ نجران کے علاقوں میں موجود عیسائی اور یہودی جزیہ دینے پر آمادہ ہوگئے اور ان میں سے کئیوں نے اسلام قبول بھی کر لیا۔ کعب الاحبار انھی میں سے تھے۔
حضرت موسی اشعری، عمار بن یاسر، مقداد بن اسود رضوان اللہ علیہم اجمعین سب یمنی تھے۔
عراق فارس روم سسلی مصر اور اندلس کی اسلامی فتوحات میں یمنی قبائل کی بہادری اور جنگ جوئی کا بڑا ہاتھ ہے ۔ یمنی قبائل ہی اسلام کو جزیرہ عرب سے نکال کر شمالی افریقہ تک لے گئے ۔
یمنی قبائل بہت کم بیرونی حکومتوں کے زیر نگیں آئے۔ اسی آزاد خیالی نے ہمیشہ یمن کو آتش زیرِ پا رکھا۔ حضرموت اور عمان کے علاقوں سے اٹھنے والی عبادی تحریک کے لیڈر عبداللہ ابن یحیٰ الکندی نے اموی خلافت کو یمن سے نہ صرف نکال باہر کیا بلکہ مکہ اور مدینہ پر بھی قبضہ کر لیا ۔ یہ تحریک جلد ہی اس کے قتل پر ختم ہو گئی۔
یمن شیبام کے بنو یعفر، الاحسا ء کے قرامطہ اور زبید کے بنو زیاد کے ہاتھو ں مختصر سے وقت میں کئی بار اور بار بار تاراج ہوا ۔ بنو یعفر اور قرامطہ کی غارتگری کا تو یہ عالم تھا کہ تقریباََ دس سالوں میں صنعاء پر بیس دفعہ سے زیادہ ایک دوسرے کو فتخ و شکست کے کھیل میں مشغول رکھا۔ جی ہاں وہی قرامطہ جنھوں نے عباسیوں کے خلاف بغاوت ، حجر اسود کی چوری اور زمزم کی بندش سے کافی شہرت حاصل کر رکھی ہے۔
زیدی تقریباََ آٹھویں صدی کے آخر پر یمن آئے۔ سعدہ اور نجران میں ان کا کافی اثر و رسوخ ہو گیا اور ابھی تک موجود ہے۔ یحیٰ ابن الحسین پہلا زیدی امام تھا جو مدینہ سے یہاں قاضی کے عہدے پر فائز ہوا تھا ۔ وہ مسلکاََ شیعہ اور اہلسنت کے درمیان درمیان تھا۔ اس نے اپنے منصب کے ساتھ ساتھ اپنے مسلک کی تبلیغ بھی کی جس کا کافی اثر ہوا اور لوگ جوق در جوق زیدی ہونے لگے اسی طاقت کے گمان میں یحیٰ نے صنعا میں بنو یعفر پر حملہ بھی کردیا جو جلد ہی قرامطہ کے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے واپس سعدہ کی طرف پسپا ہو گیا۔
عثمانیوں نے یمن کو خالی علاقہ جانتے ہوئے اس پر چڑھائی کی اپنے افریقی ہیڈ کوارٹر سے کوئی اسی ہزار کے لگ بھگ فوجی یہاں بھیجے جن میں سے صرف سات ہزار اور وہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یمن ایک بھٹی ہے جس نے ہمارے فوجیوں کو یوں پگھلا دیا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ یمن کی طویل سمندری حد اس جدید غارتگروں کی کشش کا سبب تھی۔ انگریز بھی یمن سے گزرے بغیر انڈیا تک نہیں پہنچ سکتے تھے لہذا یمن کا جنوبی حصہ انگریزوں کے قبضے میں آ گیا۔
بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں شمالی علاقوں میں زیدی قبائل کے سربراہ یحیٰ عماد الدین کی حکومت تھی ۔ وہ خود کو امام کہلاتا تھا۔ اس نے یہاں سے عثمانیوں کے انخلا کے بعد جنوب کے علاقوں کی طرف پیش قدمی کی اور انگریزوں کے زیر اثر عدن تک پہنچ گیا ۔ اسی دوران اس نے اٹلی سے بھی مدد مانگ لی جو خلافت عثمانیہ کا سب سے بڑا دشمن تھا ۔ اٹلی کی مدد پر انگریزوں کو بھی فکر لاحق ہوئی اور انھوں نے ابن سعود اور تہامہ کے گورنر سے معاہدے کر لیے لیکن زیدیوں کے بڑھتے ہوئے نفوذ کو نہ روک سکے۔ اس عرصے میں سعودیہ کا کردار بڑا مبہم سا رہا ۔ ادریسی جو تہامہ حدیدہ اور زبید کے حاکم تھے انھوں نے پہلے زیدی امام کے خلاف سعودیہ سے مدد مانگی اور بعد میں خود سعودیہ کے خلاف زیدیوں کی گود میں آ بیٹھے ۔ سعودی جو پہلے زیدیوں کے خلاف انگریزوں اور ادریسیوں کو مدد دینے کے حق میں تھے وہ زیدیوں کے ساتھ معاہدہ کرکے ادریسیوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے لگے۔ 1934 میں امام یحیٰ نے اپنے تہامی پناہ گزینوں سے بے وفائی کرتے ہوئے انھیں سعودیوں کے حوالے کردیا اور عدن میں اگلے 40 سالوں کےلیے انگریزوں کی حکومت تسلیم کر لی۔ یوں ایک طویل عرصے بعد یمن نے سکھ کا سانس لیا ۔ امام یحیٰ عمادالدین پہاڑوں سے اتر کر صنعا ء کے قرب میں منتقل ہوگیا۔
لیکن جنوبی اور شمالی یمن کی تعمیرو ترقی کا فرق سارے یمن میں دیکھا جا سکتا تھا ۔ انگریزوں نے عدن اور اپنے دیگر حلیف قبائل کی تعمیر و ترقی کی طرف دھیان دیا اور امام نے اپنی توجہ اپنے اہل و عیال سے نہ ہٹائی اس کا نتیجہ پھر وہی ہوا کہ 1962 میں جب امام فوت ہوا تو اس کے بیٹے کی حکومت کو تسلیم نہ کیا گیا اور فوجی افسروں نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی یمن ایک بار پھر خانہ جنگی کی بھٹی بن گیا ۔
یمن اس وقت ایک عالمی پراکسی وار کا میدان بن گیا جب سعودیہ، اردن، اور برطانیہ امام (زیدی) کے حامیوں کو مالی اور سلاحی امداد دے رہے تھے اور مصر انقلابیوں کا ساتھ اپنی فوجوں کے ساتھ دے رہا تھا ۔ ایسے میں اسرائیل بھی امام کے حامیوں کو اسلحہ اور مالی امداد دے رہا تھا تا کہ جمال عبدالناصر کو یمن میں مصروف رکھا جائے ۔
چھ سال کی طویل خانہ جنگی کے بعد انقلابی کامیاب ہو ئے اور یمن عرب جمہوریہ یمن بن گیا۔
اسی دوران جنوبی یمن میں بھی عوام نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا مظاہرہ شروع کردیا تھا جو بڑھتے بڑھتے انگریزوں کے انخلاء پر منتج ہو ا اور جنوب میں ایک سوشلسٹ عوامی جمہوریہ یمن کا قیام عمل میں آیا۔
یمن کو شاید امن راس نہیں تھا۔ بیرونی مداخلتوں نے زور کم کیا تو شمال جنوب کی لڑائی شروع ہو گئی۔ جنوبی یمن کو عدن بندرگاہ کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی برتری حاصل تھی جب کہ شمالی یمن محض اپنی قبائلی حمیت کے بل بوتے پر تسلط جمانے کا خواہاں تھا ۔ 1972 میں دونوں حصوں کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوئی جو عرب لیگ کی مداخلت سے معطل ہوئی اور یہ طے پایا کہ دونوں حصوں کو اتحاد کرنا چاہیے۔
(جاری)
اور "الإيمان يمان و الحكمة يمانية " کہ ایمان یمن میں ہے اور حکمت بھی یمن میں ہے۔
آج کے یمن کوسمجھنے کےلیے یہ تحریرکارآمد ومفید ہوگئی، گرچہ قدرے طویل ہے مگر سارے الجھنوں کوسلجھادے گئی۔
جوکہ ہمارے ایک دوست و شاعر اکرام اعظم بھائی نےبڑی جان فشانی کے ساتھ لکھی ہے۔
یمن اور بد امنی
------------------------
یمن ایک قدیم عمرانی تہذیب و ترقی کی شاہد سر زمین ہے جو افریقہ اور عرب کے تجارتی قافلوں کی محفوظ راہ گزر تھی۔
یمن ہزاروں سال قبل مسیح سے سائنس ، انجینئرنگ اور ٹیکنولوجی میں درجہ کمال پر فائز تھا ۔ دنیا کے سب سے پہلے ذخیرہ آب کی تعمیر یمن میں ہی ہوئی تھی جس کے اثرات آج بھی معرب میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ملکہ بلقیس جس کی سلطنت کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہد ہد نے دریا فت کیا تھا اسی یمن کا حصہ تھی جس کا تذکرہ بائبل اور قرآن میں بھی ہے۔ اور کثیر منزلہ عمارات بنانے کی ابتدا بھی یمن میں ہی ہوئی۔
ابرہہ جو خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کے ارادے سے لشکر لے کر مکے پر حملہ آور ہوا تھا اور ابابیلوں کے ڈرون حملوں کا شکار ہو گیا تھا اسی یمن کا باشندہ تھا۔
تبع بھی اسی یمن کے ایک بادشاہ کا لقب تھا جس نے یثرب کی کھجوروں والی سرزمین میں توریت کے علماء کو گھر بنوا کے دیئے اور آنے والے نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت سے پہلے ہی ان پر ایمان لانے کا اعلان کیا ۔ اور پیارے آقا کے نام ایک خط لکھا جو آپ ﷺ تک پہنچا تو آپ نے قبول فرما کر ان کے ایمان کی گواہی دی۔۔ مرحبا بتبع۔
یمن کی طرف اشارہ کرکے پیارے آقا ﷺنے فرمایا کہ " ایمان ادھر ہے" پھر فرمایا کہ " ایمان یمن میں ہے اور حکمت بھی یمن میں ہے"
یمن میں سے سب سے پہلے اسلام کو سینے سے لگانے والے بنو ہمدان تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے خصوصی نمائندے بھی یمن بھیجے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صنعا ء بھیجا اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تعز کے قریبی علاقے جند میں بھیجا جہاں ان دونوں اصحاب کے آثار اور مساجد آج بھی موجود ہیں۔
ان کی سفارت اور تبلیغ سے یمن میں اسلام بہت تیزی سے پھیلا حتی کہ نجران کے علاقوں میں موجود عیسائی اور یہودی جزیہ دینے پر آمادہ ہوگئے اور ان میں سے کئیوں نے اسلام قبول بھی کر لیا۔ کعب الاحبار انھی میں سے تھے۔
حضرت موسی اشعری، عمار بن یاسر، مقداد بن اسود رضوان اللہ علیہم اجمعین سب یمنی تھے۔
عراق فارس روم سسلی مصر اور اندلس کی اسلامی فتوحات میں یمنی قبائل کی بہادری اور جنگ جوئی کا بڑا ہاتھ ہے ۔ یمنی قبائل ہی اسلام کو جزیرہ عرب سے نکال کر شمالی افریقہ تک لے گئے ۔
یمنی قبائل بہت کم بیرونی حکومتوں کے زیر نگیں آئے۔ اسی آزاد خیالی نے ہمیشہ یمن کو آتش زیرِ پا رکھا۔ حضرموت اور عمان کے علاقوں سے اٹھنے والی عبادی تحریک کے لیڈر عبداللہ ابن یحیٰ الکندی نے اموی خلافت کو یمن سے نہ صرف نکال باہر کیا بلکہ مکہ اور مدینہ پر بھی قبضہ کر لیا ۔ یہ تحریک جلد ہی اس کے قتل پر ختم ہو گئی۔
یمن شیبام کے بنو یعفر، الاحسا ء کے قرامطہ اور زبید کے بنو زیاد کے ہاتھو ں مختصر سے وقت میں کئی بار اور بار بار تاراج ہوا ۔ بنو یعفر اور قرامطہ کی غارتگری کا تو یہ عالم تھا کہ تقریباََ دس سالوں میں صنعاء پر بیس دفعہ سے زیادہ ایک دوسرے کو فتخ و شکست کے کھیل میں مشغول رکھا۔ جی ہاں وہی قرامطہ جنھوں نے عباسیوں کے خلاف بغاوت ، حجر اسود کی چوری اور زمزم کی بندش سے کافی شہرت حاصل کر رکھی ہے۔
زیدی تقریباََ آٹھویں صدی کے آخر پر یمن آئے۔ سعدہ اور نجران میں ان کا کافی اثر و رسوخ ہو گیا اور ابھی تک موجود ہے۔ یحیٰ ابن الحسین پہلا زیدی امام تھا جو مدینہ سے یہاں قاضی کے عہدے پر فائز ہوا تھا ۔ وہ مسلکاََ شیعہ اور اہلسنت کے درمیان درمیان تھا۔ اس نے اپنے منصب کے ساتھ ساتھ اپنے مسلک کی تبلیغ بھی کی جس کا کافی اثر ہوا اور لوگ جوق در جوق زیدی ہونے لگے اسی طاقت کے گمان میں یحیٰ نے صنعا میں بنو یعفر پر حملہ بھی کردیا جو جلد ہی قرامطہ کے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے واپس سعدہ کی طرف پسپا ہو گیا۔
عثمانیوں نے یمن کو خالی علاقہ جانتے ہوئے اس پر چڑھائی کی اپنے افریقی ہیڈ کوارٹر سے کوئی اسی ہزار کے لگ بھگ فوجی یہاں بھیجے جن میں سے صرف سات ہزار اور وہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یمن ایک بھٹی ہے جس نے ہمارے فوجیوں کو یوں پگھلا دیا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ یمن کی طویل سمندری حد اس جدید غارتگروں کی کشش کا سبب تھی۔ انگریز بھی یمن سے گزرے بغیر انڈیا تک نہیں پہنچ سکتے تھے لہذا یمن کا جنوبی حصہ انگریزوں کے قبضے میں آ گیا۔
بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں شمالی علاقوں میں زیدی قبائل کے سربراہ یحیٰ عماد الدین کی حکومت تھی ۔ وہ خود کو امام کہلاتا تھا۔ اس نے یہاں سے عثمانیوں کے انخلا کے بعد جنوب کے علاقوں کی طرف پیش قدمی کی اور انگریزوں کے زیر اثر عدن تک پہنچ گیا ۔ اسی دوران اس نے اٹلی سے بھی مدد مانگ لی جو خلافت عثمانیہ کا سب سے بڑا دشمن تھا ۔ اٹلی کی مدد پر انگریزوں کو بھی فکر لاحق ہوئی اور انھوں نے ابن سعود اور تہامہ کے گورنر سے معاہدے کر لیے لیکن زیدیوں کے بڑھتے ہوئے نفوذ کو نہ روک سکے۔ اس عرصے میں سعودیہ کا کردار بڑا مبہم سا رہا ۔ ادریسی جو تہامہ حدیدہ اور زبید کے حاکم تھے انھوں نے پہلے زیدی امام کے خلاف سعودیہ سے مدد مانگی اور بعد میں خود سعودیہ کے خلاف زیدیوں کی گود میں آ بیٹھے ۔ سعودی جو پہلے زیدیوں کے خلاف انگریزوں اور ادریسیوں کو مدد دینے کے حق میں تھے وہ زیدیوں کے ساتھ معاہدہ کرکے ادریسیوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے لگے۔ 1934 میں امام یحیٰ نے اپنے تہامی پناہ گزینوں سے بے وفائی کرتے ہوئے انھیں سعودیوں کے حوالے کردیا اور عدن میں اگلے 40 سالوں کےلیے انگریزوں کی حکومت تسلیم کر لی۔ یوں ایک طویل عرصے بعد یمن نے سکھ کا سانس لیا ۔ امام یحیٰ عمادالدین پہاڑوں سے اتر کر صنعا ء کے قرب میں منتقل ہوگیا۔
لیکن جنوبی اور شمالی یمن کی تعمیرو ترقی کا فرق سارے یمن میں دیکھا جا سکتا تھا ۔ انگریزوں نے عدن اور اپنے دیگر حلیف قبائل کی تعمیر و ترقی کی طرف دھیان دیا اور امام نے اپنی توجہ اپنے اہل و عیال سے نہ ہٹائی اس کا نتیجہ پھر وہی ہوا کہ 1962 میں جب امام فوت ہوا تو اس کے بیٹے کی حکومت کو تسلیم نہ کیا گیا اور فوجی افسروں نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی یمن ایک بار پھر خانہ جنگی کی بھٹی بن گیا ۔
یمن اس وقت ایک عالمی پراکسی وار کا میدان بن گیا جب سعودیہ، اردن، اور برطانیہ امام (زیدی) کے حامیوں کو مالی اور سلاحی امداد دے رہے تھے اور مصر انقلابیوں کا ساتھ اپنی فوجوں کے ساتھ دے رہا تھا ۔ ایسے میں اسرائیل بھی امام کے حامیوں کو اسلحہ اور مالی امداد دے رہا تھا تا کہ جمال عبدالناصر کو یمن میں مصروف رکھا جائے ۔
چھ سال کی طویل خانہ جنگی کے بعد انقلابی کامیاب ہو ئے اور یمن عرب جمہوریہ یمن بن گیا۔
اسی دوران جنوبی یمن میں بھی عوام نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا مظاہرہ شروع کردیا تھا جو بڑھتے بڑھتے انگریزوں کے انخلاء پر منتج ہو ا اور جنوب میں ایک سوشلسٹ عوامی جمہوریہ یمن کا قیام عمل میں آیا۔
یمن کو شاید امن راس نہیں تھا۔ بیرونی مداخلتوں نے زور کم کیا تو شمال جنوب کی لڑائی شروع ہو گئی۔ جنوبی یمن کو عدن بندرگاہ کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی برتری حاصل تھی جب کہ شمالی یمن محض اپنی قبائلی حمیت کے بل بوتے پر تسلط جمانے کا خواہاں تھا ۔ 1972 میں دونوں حصوں کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوئی جو عرب لیگ کی مداخلت سے معطل ہوئی اور یہ طے پایا کہ دونوں حصوں کو اتحاد کرنا چاہیے۔
(جاری)