یمن اور بدامنی کچھ تاریخی حقائق

پیارے آقا ﷺ نے یمن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا کہ ایمان ادھر ہے۔
اور "الإيمان يمان و الحكمة يمانية " کہ ایمان یمن میں ہے اور حکمت بھی یمن میں ہے۔
آج کے یمن کوسمجھنے کےلیے یہ تحریرکارآمد ومفید ہوگئی، گرچہ قدرے طویل ہے مگر سارے الجھنوں کوسلجھادے گئی۔
جوکہ ہمارے ایک دوست و شاعر اکرام اعظم بھائی نےبڑی جان فشانی کے ساتھ لکھی ہے۔

یمن اور بد امنی
------------------------
یمن ایک قدیم عمرانی تہذیب و ترقی کی شاہد سر زمین ہے جو افریقہ اور عرب کے تجارتی قافلوں کی محفوظ راہ گزر تھی۔
یمن ہزاروں سال قبل مسیح سے سائنس ، انجینئرنگ اور ٹیکنولوجی میں درجہ کمال پر فائز تھا ۔ دنیا کے سب سے پہلے ذخیرہ آب کی تعمیر یمن میں ہی ہوئی تھی جس کے اثرات آج بھی معرب میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ملکہ بلقیس جس کی سلطنت کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہد ہد نے دریا فت کیا تھا اسی یمن کا حصہ تھی جس کا تذکرہ بائبل اور قرآن میں بھی ہے۔ اور کثیر منزلہ عمارات بنانے کی ابتدا بھی یمن میں ہی ہوئی۔
ابرہہ جو خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کے ارادے سے لشکر لے کر مکے پر حملہ آور ہوا تھا اور ابابیلوں کے ڈرون حملوں کا شکار ہو گیا تھا اسی یمن کا باشندہ تھا۔
تبع بھی اسی یمن کے ایک بادشاہ کا لقب تھا جس نے یثرب کی کھجوروں والی سرزمین میں توریت کے علماء کو گھر بنوا کے دیئے اور آنے والے نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت سے پہلے ہی ان پر ایمان لانے کا اعلان کیا ۔ اور پیارے آقا کے نام ایک خط لکھا جو آپ ﷺ تک پہنچا تو آپ نے قبول فرما کر ان کے ایمان کی گواہی دی۔۔ مرحبا بتبع۔
یمن کی طرف اشارہ کرکے پیارے آقا ﷺنے فرمایا کہ " ایمان ادھر ہے" پھر فرمایا کہ " ایمان یمن میں ہے اور حکمت بھی یمن میں ہے"
یمن میں سے سب سے پہلے اسلام کو سینے سے لگانے والے بنو ہمدان تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے خصوصی نمائندے بھی یمن بھیجے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صنعا ء بھیجا اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تعز کے قریبی علاقے جند میں بھیجا جہاں ان دونوں اصحاب کے آثار اور مساجد آج بھی موجود ہیں۔
ان کی سفارت اور تبلیغ سے یمن میں اسلام بہت تیزی سے پھیلا حتی کہ نجران کے علاقوں میں موجود عیسائی اور یہودی جزیہ دینے پر آمادہ ہوگئے اور ان میں سے کئیوں نے اسلام قبول بھی کر لیا۔ کعب الاحبار انھی میں سے تھے۔
حضرت موسی اشعری، عمار بن یاسر، مقداد بن اسود رضوان اللہ علیہم اجمعین سب یمنی تھے۔
عراق فارس روم سسلی مصر اور اندلس کی اسلامی فتوحات میں یمنی قبائل کی بہادری اور جنگ جوئی کا بڑا ہاتھ ہے ۔ یمنی قبائل ہی اسلام کو جزیرہ عرب سے نکال کر شمالی افریقہ تک لے گئے ۔
یمنی قبائل بہت کم بیرونی حکومتوں کے زیر نگیں آئے۔ اسی آزاد خیالی نے ہمیشہ یمن کو آتش زیرِ پا رکھا۔ حضرموت اور عمان کے علاقوں سے اٹھنے والی عبادی تحریک کے لیڈر عبداللہ ابن یحیٰ الکندی نے اموی خلافت کو یمن سے نہ صرف نکال باہر کیا بلکہ مکہ اور مدینہ پر بھی قبضہ کر لیا ۔ یہ تحریک جلد ہی اس کے قتل پر ختم ہو گئی۔
یمن شیبام کے بنو یعفر، الاحسا ء کے قرامطہ اور زبید کے بنو زیاد کے ہاتھو ں مختصر سے وقت میں کئی بار اور بار بار تاراج ہوا ۔ بنو یعفر اور قرامطہ کی غارتگری کا تو یہ عالم تھا کہ تقریباََ دس سالوں میں صنعاء پر بیس دفعہ سے زیادہ ایک دوسرے کو فتخ و شکست کے کھیل میں مشغول رکھا۔ جی ہاں وہی قرامطہ جنھوں نے عباسیوں کے خلاف بغاوت ، حجر اسود کی چوری اور زمزم کی بندش سے کافی شہرت حاصل کر رکھی ہے۔
زیدی تقریباََ آٹھویں صدی کے آخر پر یمن آئے۔ سعدہ اور نجران میں ان کا کافی اثر و رسوخ ہو گیا اور ابھی تک موجود ہے۔ یحیٰ ابن الحسین پہلا زیدی امام تھا جو مدینہ سے یہاں قاضی کے عہدے پر فائز ہوا تھا ۔ وہ مسلکاََ شیعہ اور اہلسنت کے درمیان درمیان تھا۔ اس نے اپنے منصب کے ساتھ ساتھ اپنے مسلک کی تبلیغ بھی کی جس کا کافی اثر ہوا اور لوگ جوق در جوق زیدی ہونے لگے اسی طاقت کے گمان میں یحیٰ نے صنعا میں بنو یعفر پر حملہ بھی کردیا جو جلد ہی قرامطہ کے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے واپس سعدہ کی طرف پسپا ہو گیا۔
عثمانیوں نے یمن کو خالی علاقہ جانتے ہوئے اس پر چڑھائی کی اپنے افریقی ہیڈ کوارٹر سے کوئی اسی ہزار کے لگ بھگ فوجی یہاں بھیجے جن میں سے صرف سات ہزار اور وہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یمن ایک بھٹی ہے جس نے ہمارے فوجیوں کو یوں پگھلا دیا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ یمن کی طویل سمندری حد اس جدید غارتگروں کی کشش کا سبب تھی۔ انگریز بھی یمن سے گزرے بغیر انڈیا تک نہیں پہنچ سکتے تھے لہذا یمن کا جنوبی حصہ انگریزوں کے قبضے میں آ گیا۔
بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں شمالی علاقوں میں زیدی قبائل کے سربراہ یحیٰ عماد الدین کی حکومت تھی ۔ وہ خود کو امام کہلاتا تھا۔ اس نے یہاں سے عثمانیوں کے انخلا کے بعد جنوب کے علاقوں کی طرف پیش قدمی کی اور انگریزوں کے زیر اثر عدن تک پہنچ گیا ۔ اسی دوران اس نے اٹلی سے بھی مدد مانگ لی جو خلافت عثمانیہ کا سب سے بڑا دشمن تھا ۔ اٹلی کی مدد پر انگریزوں کو بھی فکر لاحق ہوئی اور انھوں نے ابن سعود اور تہامہ کے گورنر سے معاہدے کر لیے لیکن زیدیوں کے بڑھتے ہوئے نفوذ کو نہ روک سکے۔ اس عرصے میں سعودیہ کا کردار بڑا مبہم سا رہا ۔ ادریسی جو تہامہ حدیدہ اور زبید کے حاکم تھے انھوں نے پہلے زیدی امام کے خلاف سعودیہ سے مدد مانگی اور بعد میں خود سعودیہ کے خلاف زیدیوں کی گود میں آ بیٹھے ۔ سعودی جو پہلے زیدیوں کے خلاف انگریزوں اور ادریسیوں کو مدد دینے کے حق میں تھے وہ زیدیوں کے ساتھ معاہدہ کرکے ادریسیوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے لگے۔ 1934 میں امام یحیٰ نے اپنے تہامی پناہ گزینوں سے بے وفائی کرتے ہوئے انھیں سعودیوں کے حوالے کردیا اور عدن میں اگلے 40 سالوں کےلیے انگریزوں کی حکومت تسلیم کر لی۔ یوں ایک طویل عرصے بعد یمن نے سکھ کا سانس لیا ۔ امام یحیٰ عمادالدین پہاڑوں سے اتر کر صنعا ء کے قرب میں منتقل ہوگیا۔
لیکن جنوبی اور شمالی یمن کی تعمیرو ترقی کا فرق سارے یمن میں دیکھا جا سکتا تھا ۔ انگریزوں نے عدن اور اپنے دیگر حلیف قبائل کی تعمیر و ترقی کی طرف دھیان دیا اور امام نے اپنی توجہ اپنے اہل و عیال سے نہ ہٹائی اس کا نتیجہ پھر وہی ہوا کہ 1962 میں جب امام فوت ہوا تو اس کے بیٹے کی حکومت کو تسلیم نہ کیا گیا اور فوجی افسروں نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی یمن ایک بار پھر خانہ جنگی کی بھٹی بن گیا ۔
یمن اس وقت ایک عالمی پراکسی وار کا میدان بن گیا جب سعودیہ، اردن، اور برطانیہ امام (زیدی) کے حامیوں کو مالی اور سلاحی امداد دے رہے تھے اور مصر انقلابیوں کا ساتھ اپنی فوجوں کے ساتھ دے رہا تھا ۔ ایسے میں اسرائیل بھی امام کے حامیوں کو اسلحہ اور مالی امداد دے رہا تھا تا کہ جمال عبدالناصر کو یمن میں مصروف رکھا جائے ۔
چھ سال کی طویل خانہ جنگی کے بعد انقلابی کامیاب ہو ئے اور یمن عرب جمہوریہ یمن بن گیا۔
اسی دوران جنوبی یمن میں بھی عوام نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا مظاہرہ شروع کردیا تھا جو بڑھتے بڑھتے انگریزوں کے انخلاء پر منتج ہو ا اور جنوب میں ایک سوشلسٹ عوامی جمہوریہ یمن کا قیام عمل میں آیا۔
یمن کو شاید امن راس نہیں تھا۔ بیرونی مداخلتوں نے زور کم کیا تو شمال جنوب کی لڑائی شروع ہو گئی۔ جنوبی یمن کو عدن بندرگاہ کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی برتری حاصل تھی جب کہ شمالی یمن محض اپنی قبائلی حمیت کے بل بوتے پر تسلط جمانے کا خواہاں تھا ۔ 1972 میں دونوں حصوں کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوئی جو عرب لیگ کی مداخلت سے معطل ہوئی اور یہ طے پایا کہ دونوں حصوں کو اتحاد کرنا چاہیے۔
(جاری)
 
یمن اور بد امنی قسط نمبر2
--------------
13 جون 1974 کو فوجی افسران نے سول حکومت کا تختہ الٹا اور یمن کے حکمران بن گئے۔
ابراہیم الحامدی ان کا سربراہ تھا اس لیے یمن کا صدر بن گیا ۔ اسے گو کام کرنے کا بہت مختصر وقت ملا لیکن وہ مختصر وقت بھی یمن کی تاریخ کا سنہری دور تھا۔ اس نے بہت سی اصلاحات نافذ کیں جس میں فوج ، بیوروکریسی، میڈیا اور عدلیہ کی اصلاحات شامل تھیں۔ تعلیم ، صحت اور مواصلات کو ترجیحی بنیادوں پر وقت دیا گیا۔ ملک کے طول و عرض میں سکولوں اور ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا۔ اس ساری تعمیرو ترقی کے ساتھ ساتھ ابراہیم الحامدی کا جو کام سب سے اعلیٰ تھا وہ شمال اور جنوب کے اتحاد کی کوشش تھی۔ اس کی اسی کوشش کو سبوتاژ کرنے کیلیے اسے قتل کروا دیا گیا۔ اس کے بعد احمد الغشمی صدر بنا وہ بھی فوجی افسر تھا اور اپنی صدارت کے آٹھویں ماہ میں ہی اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ جنوبی یمن کے ایک اتحادی وفد سے ملاقات کر رہا تھا۔
1978 میں یمن پارلیمنٹ نے اپنے لیے ایک اور فوجی افسر کو صدر منتخب کر لیا۔
علی عبداللہ صالح بھی ایک دلچسپ شخصیت کا حامل کردار تھا۔ صنعا ء کے نواحی علاقے میں ایک غیر معروف قبیلے میں پیدا ہونے والا علی عبداللہ صالح تعلیمی لحاظ سے اتنا کند تھا کہ میٹرک بھی نہ کر سکا اور قسمت کا اتنا دھنی تھا کہ پھر بھی فوج میں کمیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ترقی کی منازل خود اس کی طرف محو سفر رہیں اور مدارج خود اس کے قدموں میں بچھتے چلے گئے۔ صدر احمد الغشمی اس پر بہت اعتماد کیا کرتا تھا لہذا اسے آؤٹ آف ٹرن تعز کا فوجی گورنر مقرر کر دیا ۔حالانکہ وہ اس وقت محض ایک میجر کے عہدے کا افسر تھا۔ جب غشمی کو قتل کیا گیا تو عبوری صدارتی کمیٹی میں علی عبداللہ صالح کو بھی شامل کیا گیا جسے بالآخر پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر صدر منتخب کر لیا۔ عہدہ سنبھالنے کے صرف ایک ماہ بعد صالح نے 30 فوجی افسروں کو لٹکانے کا حکم صادر کر دیا جو اس کے نزدیک اس کے صدر بننے کی راہ میں رکاوٹ کے مجرم تھے۔ یہ محض آغاز تھا۔ علی عبداللہ صالح کا دور 33 سالوں پر محیط ہے جس میں یمن کی سیاست میں کئی اتار چڑھاؤ آئے لیکن صالح کی "کامیاب" حکمت عملی نے اسے بر سر مسند قائم رکھا۔
صالح زیدی شیعہ ہے۔ لیکن مذہب کبھی اس کی ترجیح نہیں رہا۔ اس نے اپنی حکومت کیلیے خطرہ بننے والے تمام عناصر کو بلاتفریق مذہب دبائے رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ حوثیوں نے سر اٹھایا لیکن اس نے انھیں بھی دبانے کیلیے فوج اور پولیس کے استعمال میں کبھی تامل کا اظہار نہیں کیا۔ صدر بننے کے ایک سال بعد اس نے اپنے لیے کرنل کا رینک منتخب کیا جو بڑھتے بڑھتے فیلڈ مارشل تک جا پہنچا ۔ یہ رینک نہ اس سے پہلے کسی کو نصیب ہوا اور نہ ہی ابھی تک کوئی بعد میں حاصل کر پایا۔ 1983 کے انتخابات میں وہ دوبارہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہو گیا۔ 1993 میں ایک بار پھر کامیابی اسی کو حاصل ہو گئی اور وہ تیسری مدت تک کیلیے صدر بن گیا ۔ اس دوران اس نے عراق کویت لڑائی میں صدام حسین کی حمایت کی تھی جس کے بدلے میں کویت اور سعودیہ نے لاکھوں یمنیوں کو اپنے ملکوں سے نکال باہر کیا جس سے یمن میں بے روزگاری کا ایک بڑا بحران پیدا ہو گیا۔ روس کے ٹوٹنے کی وجہ سے سوشلسٹ یمن (جنوبی) کا بھی زور ٹوٹ چکا تھا لہذا انھیں بھی اپنی عافیت شمال سے اتحاد میں ہی نظر آئی۔ 22 مئی 1990 کو شمالی اور جنوبی یمن ایک ہو گئے اور سب نے متفقہ طور پر صالح کو اپنا صدر تسلیم کر لیا۔ 1999 میں یمن میں براہ راست صدارتی انتخابات ہوئے جس میں صالح نے 96 فیصد ووٹ لے کر ایک بار پھر اقتدار کی ہما کو اپنے سر پر بٹھا لیا۔ مزے کی بات یہ کہ اس الیکشن میں صالح کا واحد حریف اس کی اپنی سیاسی پارٹی کا ہی ایک ممبر تھا جس نے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑا اور 3 فیصد ووٹ حاصل کر سکا ۔ یمن میں شاید نورا کشتی کی اصطلاح کا لوگوں کو ابھی علم نہیں تھا۔ اپنے اقتدار کو استقلال اور استحکام بخشنے کیلیے صالح نے پارلیمنٹ میں کچھ اعمال صالح کا بندو بست بھی کیا۔ پارلیمنٹ نے صدر کے دورانیے کو 5 سال سے بڑھا کر 7 سال کردیا اور صدر کو صوابدیدی اختیار دے دیا کہ وہ 111 ارکان اپنی مرضی سے منتخب کرکے انھیں قانون سازی میں شامل کر سکتا ہے۔
صالح یمنیوں کی اکثریت کی طرح قات کا شوق رکھتا تھا۔ قات ایک نشہ ہے جو 90 فیصد یمنی کرتے ہیں ۔ ایک پودے کے سبز تازہ شگوفوں کو منہ میں ڈال کر چگالی کرتے رہنا اور اس دوران بے حس و حرکت پڑے رہنا یمنیوں کے سہ پہر کا محبوب مشغلہ ہے اس دوران ان سے ان کے فائدے کی بات کرنا بھی انھیں ناراض کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
صالح اکثر قات ٹائم میں کیے ہوئے وعدوں اور دستخطوں سے اگلی صبح انکاری ہو جایا کرتا تھا۔
2005 میں اپنی صدارت کی 27ویں سالگرہ کی تقریب میں موقع پر جوش میں آکر صالح نے عوام کو یہ خوش خبری سنائی کہ آئندہ سال ہونے والے انٹخاب میں وہ حصہ نہیں لے گا۔ لیکن اگلے سال اس نے نہ صرف انتخاب میں حصہ لیا بلکہ حسب معمول جیت بھی گیا ۔
صالح نے اپنے اقتدار کے طویل دورانیے میں ملک کی فلاح کیلیے یہی کیا کہ اسے کرپشن میں ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل کر وادیا اور رشوت کو حق القات کہا جانے لگا ۔ یمنی حکومتی دفاتر اپنے صدر کی اتباع میں بعد دوپہر کام بند کر دیتے اور سب چھوٹے بڑے سوق القات میں جمع ہو جاتے قات خریدتے اور اونچی جگہ پر نیم جان حالت میں بیٹھ کر خود کو دنیا کے حاکم سمجھتے۔
صالح کے دیگر کارناموں میں ایک ریپبلکن گارڈ کا قیام بھی تھا جو اس کی ذاتی فوج تھی جس کا سربراہ اس نے اپنے نو عمر بیٹے کو بنا دیا۔ ریپبلکن گارڈ نے عوای جمہوریہ یمن میں وہ سب کچھ کیا جو شاید حقیقی مارشل لاء کے دنوں میں کرنا بھی مشکل ہو۔
2011 میں جب دیگر عرب ملکوں میں عوام نے بادشاہت کے خاتمے کے خلاف آواز اٹھائی تو اس کی بازگشت یمن میں بھی سنی گئی ۔ لیکن صالح نےخود کو منتخب جمہوری صدر سمجھتے ہوئے اس آواز کا مخاطب نہ سمجھا صرف اتنا کیا کہ ایک اعلان جاری کر دیا کہ بھائی بس اب اگلے الیکشن میں میں نہیں آؤں گا ۔ لیکن ساتھ ہی اس نے پر امن عوامی مظاہروں پر تشدد جاری رکھا ۔ اس تشدد کے خلاف اس کی پارلیمنٹ کے کئی ارکان اور وزرا نے استعفیٰ دے دیا ۔
صالح کی قات نے اسے اپنی اوقات بھلادی اور وہ اسی نہ مانؤن کی جگالی کرتا رہا۔ اس کے گارڈز نے جامعہ صنعاء کے سامنے مظاہرہ کرنے والے پچاس بندوں کو بھون دیا جس پر صالح نے بیان دیا کہ فائر کرنے والے اس کے گارڈ نہیں بلکہ عام آدمی تھے۔ احتجاج بڑھتا گیا اور صالح کو پیچھے ہٹنا پڑا اور اپنے ہم عصر عرب بادشاہوں کا انجام بھی نظر آ رہا تھا لہذا اس نے کمال ہوشیاری سے اپنے نائب صدر کو طاقت سونپ کر خود راہ فرار حاصل کی اور امریکہ چلا گیا۔ یمنیوں نے صالح سے نجات پر جشن منایا اور یمن ایک بار پھر ترقی کے خواب دیکھنے لگا
(جاری)
 
یمن اور بد امنی ۔قسط نمبر3
------------------------
2004 میں زیدی شیعوں کی ایک مذہبی جماعت انصاراللہ نے علی عبداللہ صالح کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ۔ گو علی عبداللہ صالح بھی زیدی شیعہ ہی تھا لیکن نہ تو یہ بغاوت مذہبی تھی اور نہ ہی اس کو کچلنے کا انداز مذہبی تھا لہذا انصار اللہ کے اس وقت کے سربراہ حسین بدرالدین الحوثی کو صالح کی ریپبلکن گارڈ نے قتل کر دیا اور وقتی طور پر یہ بغاوت دب گئی۔ انصار اللہ کو آجکل حوثین کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے حوثیوں کے بارے میں بنیادی معلومات ضروری خیال کرتا ہوں۔ب ظاہری طور پر حسین بدرالدین حوثی نے زیدی طلبا ء کی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام شباب المومنین رکھا۔ اس مذہبی تنظیم کا مبینہ مقصد طلبا میں بردباری امن اور برداشت کا جذبہ پیدا کرنا تھا۔ ان اصلاحی مقاصد کے ساتھ حسین الحوثی نے بہت سے سیمینار اور دروس کا اہتمام کیا جس میں سعدہ ، ا لجوف اور ملحقہ گورنوریٹ کے طلبا کی کثیر تعداد نے رکنیت حاصل کر لی۔ اس تنظیم کی بڑھتی ہوئی فعالیت اور مقبولیت کو غیر ملکی مفاد پرست عناصر نے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔ حزب اللہ اور ایران نے ان کو باقاعدہ مالی ، تربیتی اور سلاحی مدد دی۔ اور ان کے عقا ئد سے اختلاف ہونے کے باوجود ان کو سنیوں اور خاص طور پر سلفیوں کے خلاف لڑنے پر اکسایا۔
امن کے نام پر شروع ہونے والی تحریک زیدیت کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک بن گئی ۔ شباب المومنین کا عسکری ونگ انصاراللہ کے نام سے بن گیا۔ 2004 میں باقاعدہ حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا گیا جسے صالح نے بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت کے انصار اللہ کے کمانڈر حسین بدرالدین حوثی نے صالح سے ملاقات سے انکار کردیا اور آخر کار صالح کی فوج کے ہا تھوں مارا گیا۔
اس کے بعد وقتی طور پر اس بغاوت کا زور کم ضرور ہوا لیکن ختم نہ ہو سکا کیونکہ اب انصار اللہ نے خود کو حوثیون کہلانا شروع کردیا تھا اور اس تحریک میں خون کی آمیزش نے اسے مزید حرارت بخش دی تھی۔
زیدی شیعہایران اور پاکستان میں موجود اثنا عشری شیعہ سے بہت مختلف ہیں کیونکہ یہ امام محمد الباقر کی بجائے امام زید کو امامت کا حقدار ٹھہراتے ہیں اور وجہ اس کی یہ بتاتے ہیں کہ امام زید بن علی نے اموی حکمرانوں کے خلاف باقاعدہ خروج کیا تھا جبکہ محمد الباقر نے ایسا کرنے سے اجتناب کیا ۔ زیدیوں کے نزدیک امام کیلیے ضروری ہے کہ وہ ناحق حکومت کے خلاف جہاد کرے۔
زیدی اثنا عشری شیعوں کے باقی سارے اماموں کے انکاری ہیں اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے بعد تمام اماموں کو معصوم عن الخطا بھی نہیں سمجھتے ۔ اسی طرح وہ امام مہدی کی غیوبت جس کے باقی شیعہ قائل ہیں اسے بھی مستردکرتے ہیں۔ خلفاء ثلاثہ کو اگرچہ خلافت کے لحاظ سے غلطی پر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے حضور ﷺ کی حضڑت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق واضح وصیت کے باوجود انھیں خلافت سے محروم کیا لیکن وہ اسے گناہ نہیں مانتے۔ اور اصحاب ثلاثہ کو سب و شتم کرنے والوں کو رافضہ کہتے ہیں۔
اس کے با وجود وہ مذہبی لحاظ سے شدت پسند ہیں اور سنیوں خاص طور پر سلفیوں کو اپنا دشمن گردانتے ہیں۔
حوثین کی موجود ہ تحریک ان کے اس نصب العین کی غماز ہے کہ قیامت قریب ہے اور ہم امام مہدی کے نمائندے اور موعود یمنی ہیں۔ جو سنیوں کی حکومت کا خاتمہ کریں گے۔ اس کے بعد امام مہدی تشریف لے آئیں گے۔
(جاری)
 
یمن اور بد امنی-قسط نمبر4
---------------------------
2012 کے آغاز میں جب جی سی سی کی مداخلت سے علی عبداللہ صالح نے انتقال اقتدار کے معاہدے پر ریاض سعودی عرب میں دستخط کر دیے تو اقتدار نائب صدر عبدربہ منصور ہادی کو اس چرط پر منتقل ہو گیا کہ علی عبداللہ صالح کو محفوظ اخراج دیا جائے گا۔ اس کا تعاقب نہیں کیا جائے گا اور اس کے سارے اعمال کو صالح ہی سمجھا جائے گا۔
علی عبداللہ صالح اپنے کندھوں سے یمن کا بوجھ اور اپنے ہاتھوں سے خون آلود دستانے اتار کر امریکہ روانہ ہوگیا ۔ لیکن صنعا سے نیو یارک پہنچنے میں اسے چھ دن لگے۔ یہ چھ دن کہاں گزرے مورخ اس کے بارے میں کچھ نہیں لکھتا۔ لیکن تاریخ کچھ نہیں چھپاتی۔ 33 سالہ اقتدار کو پلیٹ میں رکھ کر کسی اور کے حوالے کر دینا کم از کم کسی اہل عقل کیلیے اتنا آسان نہیں جتنا اسے سمجھا گیا۔ علی عبداللہ صالح نے حوثی سرداروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ انھیں فوج میں اپنے وفاداروں کے تعاون کی یقین دہانی کروائی اور حسین بدرالدین کے قتل کی معافی مانگی ۔ لیکن اس وقت حوثین کو اپنا اقتدار صالح کی مدد کے بغیر ہی سامنے پڑا نظر آ رہا تھا لہذا انھوں نے صالح کی سفارتی کوششوں کو در خور اعتنا نہ سمجھا اور وہ ناکام نیو یارک چلا گیا۔ وہاں سے جب واپس آیا تو اس کا ساز و سامان صدارتی محل سے ذاتی بنگلے میں منتقل کیا جا چکا تھا ۔ اور ریپبلکن گارڈ کے سپریم کمانڈر (ابن علی صالح) کو فوج کی سر براہی سے ہٹا کر متحدہ عرب امارات میں سفیر بنا کر بھیجا جا چکا تھا۔
اپنے گھر سے کوئی ایک کلو میٹر دور کے صدارتی محل کو قبضہ ءِ اغیار میں دیکھ کر جو زہر اس کے کام و دہن میں پھیلتا تھا اس کی کاٹ "قات" میں بھی نہیں رہی تھی۔
عندربہ منصور ہادی ایک پڑھا لکھا اور نسبتاََ شریف النفس سیاستدان تھا۔ اس نے جی سی سی کے معاہدے کے مطابق ملک بھر کے تمام عمائدین کو اکٹھا کر کے ایک نیشنل ڈائیلاگ کا اہتمام کیا ۔ جس میں انتقال اقتدار کے طریقوں اور ملک کی مجموعی صورتحال پر غور کیا جاتا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے تعلیم، صحت اور مواصلات کے بڑے منصوبے بھی شروع کیے جس کیلیے سعودیہ، کویت اور قطر نے امداد بھی فراہم کی۔ صنعاء ایئر پورٹ کی توسیع، کنگ عباللہ میڈیکل سٹی، شمالی پہاڑی علاقے میں ساڑھے نو کلو میٹر سرنگ جس سے صنعا ء حدیدہ کے مابین راستے میں بھاری ٹریفک کے مسائل حل ہو جاتے، اور عمران سے عدن تک موٹر وے کا منصوبہ۔ مختصر عرصے میں عبوری حکومت کی سفارتی اور تعمیری سرگرمیاں لائق تحسین رہیں لیکن دوسری طرف پھیلنے والے زہر نے اب مختلف جگہوں پر پھوڑے نکالنے شروع کر دیے تھے۔
فوج میں بغاوت اور ہڑتال، ایئر فورس کی بس کو دھماکے سے اڑانے کی کارروائی، امریکی ایمبیسی کو اڑانے کی دھمکی، وزارت خارجہ کے دفتر پر خود کش حملہ ان چند کارروائیوں میں سے ہیں جو نیشنل ڈائیلاگ کو سبوتاژ کرنے کیلیے ترتیب دی گئیں۔
فوجی جرنیلوں کی حوثیوں سے خفیہ ملاقاتیں اور انھیں اسلحے کی فراہمی شروع ہو گئی تو ان کا حوصلہ بلند اور دائرہ عمل وسیع ہو گیا۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور تعمیری کمپنیوں کے کارکنوں کو اغوا اور قتل سمیت حوار (ڈائیلاگ)کے حامی عمائدین کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ ترقی کا عمل پھر رک گیا اور بد امنی پھر یمن کی تقدیر پر زہریلے قہقہے لگانے لگی۔
صالح کی سفارتی کوششیں اور مذہبی ہم آہنگی حوثیوں کو رام کرنے میں کام آگئیں۔ انھیں ہر طرح کی عسکری مدد فراہم کر وا کے فوج کو ان کے سامنے سر نگوں کر دیا گیا اور اسلحہ ڈپو کی چابیاں ان کے حوالے کر دی گئیں۔ اسی دوران صالح کے حق میں جلوس بھی نکالے گئے اور منصور ہادی کو اپنی پوری عبوری کابینہ سمیت مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ وہ صنعا ء سے بھاگ کر عدن میں پناہ گزین ہوا تو حوثی بلا مزاحمت ذمار، عنس،اب، تعز، جند ، لہج، اور عدن تک پہنچ گئے۔ ان کے پاس چھوٹا بڑا سارا اسلحہ موجود تھا جس پر اس سے پہلے صرف یمنی فوج کا تصرف تھا حتی کہ لڑاکا طیارے اور ہوائی اڈے بھی حوثیوں کے قبضہ قدرت میں تھے۔ انھی جہازوں نے عدن میں منصور ہادی کے محل پر حملہ کیا تو اسے وہاں موجود سعودی نائب سفیر نے اپنے انتظام پر سعودیہ پہنچا دیا ۔ جہاں سے اگلی کہانی کا آغاز ہوا۔
(جاری)
 
یمن اور بد امنی- قسط نمبر5 (آخری حصہ)
-------------------
صالح جب صنعاء اور نیو یارک کے درمیان چھ دن تک معلق رہا تو اس دوران اس کی برطانیہ میں ایرانی سفیر اور دیگر ایرانی ایجنسیوں کے لوگوں سے ملاقات ہوئی جس میں حوثیوں کو مذہبی پتے پر کھلانے کے منصوبے پر غور خوض کیا گیا۔ گو وقتی طور پر حوثین نے اس آواز پر کان نہ دھرے لیکن آخر کار مالی، سلاحی اور مذہبی امداد نے اپنا نشہ چڑھا نا شروع کر دیا۔
حوثی اس وقت تک مذہب کو ثانوی حیثیت دے رہے تھے لیکن اب انھیں بھی مناسب لگا کہ مذہب عام عوام کو مائل اور قائل کرنے کا جادو اثر ہتھیار ہے۔ لہذا ا نھوں نے اپنی شیعیت کو اگلے مورچے پر کھڑا کیا اور اس جنگ کو سعودی سلفیوں کے نفوذ کے خلاف جہاد قرار دے دیا۔اس شیعیت کو جگانے میں ایران کے اثناء عشری علماء کا کردار بھی منفرد ہے جنھوں نے موجودہ جنگ کو اما موں کے اقوال سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کے مطابق یہ آخری دور کی جنگوں میں سے ہے جو امام مہدی کے ظہور کی علامت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہور امام سے قبل یمن سے حق کا پرچم بلند ہوگا ۔ وہ لوگوں کو یہ باور کروانے میں کسی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں کہ وہ عبدالمالک حوثی کا ہی پرچم ہے۔ وہ اس جنگ کو ماجدون کے معرکے کا پیش خیمہ بھی قرار دیتے ہیں اور سعودیہ کو اسرائیل کی در پردہ حمایت کا الزام بھی دیتے ہیں ۔ بلا شبہ ایران اور حوثی ایک ہی امام پر متفق نہیں ہیں لیکن پھر بھی ایران حوثیوں کی مدد کر رہا ہے تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ سعودیہ کے ارد گرد بد امنی پھیلا کر گھیرا تنگ کیا جائے؟
اس جنگ میں حوثی ، ایران اور صالح اپنے اپنے مفاد کیلیے ایک ہی چال پر متفق ہیں ۔ یمنی فوج، اسلحہ اور وسائل، ایرانی اسلحہ ، مال اور تربیت اور حوثی طاقت، جذبہ اور تحریک ایک ایسی مثلث ہے جس کے ضلعےباہم صرف اس لیے مربوط ہیں کہ محصور فوائد اپنے اپنے زاویے میں سمیٹ لیے جائیں گے۔ سعودیہ نے بروقت انگڑائی لے کر اس مثلث کو پلان بی پر غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جس میں امکان اس بات کا ہے کہ زاویوں میں اپنے اپنے حصے کا نقصان اکٹھا کر کے تینوں ضلعے الگ الگ ہو جائیں گے۔
یمن میں مستقبل قریب میں امن ہوتا نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ اس کا فوجی نظام بد ترین شکست و ریخت کا شکار کر دیا گیا ہے۔ اور یہ صورتحال نہ صرف سعودی عرب کیلیے اخطر ہے بلکہ ممکن ہے کہ یمن داعش، حزب اللہ، اخوان المسلمون اور القاعدہ جیسی طاقتوں کا تازہ ترین معسکر بن جائے۔ یمن میں القاعدہ پہلے سے موجود ہے لیکن وہ فوج کے دباؤ کی وجہ سے مشرقی حصون تک محدود تھے ۔ اب انھیں بھی کھل کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے تعز اور صنعا تک انھیں مناسب عوامی پذیرائی بھی میسر آ سکتی ہے۔
سعودیہ کے ملک سلمان جی سی سی کے پلیٹ فارم پر جنگ بندی اور یمن کی سلامتی کے خواہاں افراد یا جماعتوں سے مذاکرات کرنے کیلیے رضامند ہیں لیکن وہ ا یسا اپنی شرائط پر چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہادی کی حکومت کو تسلیم کیا جائے اور باغیوں کو غیر مسلح کیا جائے۔ جبکہ ایسا ہوتا اس لیے نظر نہیں آتا کہ صالح فوج میں سے اپنے حمایتیوں کو کھل کے سامنے لا چکا ہے جن کی دوبارہ ہادی کے زیرِ اثر واپسی ممکن نہیں ہے ۔
ادھر عدن سے چند کلومیٹر دور خلیج عدن کے اس پار جبوتی کے ساحل مکمل امریکی کنٹرول میں ہیں جہاں وہ پچھلے پانچ سالوں سے اپنے فوجی اڈے اپنی نگرانی میں تعمیر کروا رہا ہے جس میں ہوائی ، بحری اور بری طاقت کے بھرپور مخازن تیار ہیں۔ یہ سارا کچھ شاید وہ قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ میں متوقع فتح کی خوشی میں آتش بازی کرنے کیلیے کر رہا ہے۔
"مرگ بر آمریکا "اور "الموت للامریکا "کے متماثل نعرے کے ساتھ ایران اور حوثی کہیں امریکا کیلیے ہی تو کام نہیں کر رہے؟
یمن اور جزیرہ عرب میں امن کی اب ایک ہی صورت ہے کہ ملک پر ایک مضبوط غیر ملکی تسلط قائم ہو جو اخلاص اور حکمت کے ساتھ اس ملک کو متحد رکھنے کی کوشش کرے۔ کیا 1857 کے بعد بر صغیر میں بھی ایسی صورت ہی نہیں تھی؟
اگر ایسا ہوتا ہے تو دیکھ لینا کہ حسب معمول وہی شیعہ اور سنی جامع مسجد صالح میں ایک ہی امام کے پیچھے ہاتھ باندھ کر یا کھول کر کھڑے نماز پڑھ رہے ہوں گے جو آج پوری دنیا کی نظروں میں ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں۔
 

نعمان خالد

محفلین
بہت خوب! احسان اللہ سعید صاحب، بہت معلوماتی تحریر پڑھنے کو ملی اور ساتھ ہی "سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ" کر دل کڑھا بھی۔
 
بہت خوب! احسان اللہ سعید صاحب، بہت معلوماتی تحریر پڑھنے کو ملی اور ساتھ ہی "سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ" کر دل کڑھا بھی۔
پسندید گی کا شکریہ
ہماری کشتی تووہاں ہی ڈوبتی ہے جہاں پانی کم ہو یا پھر آستین کے سانپ ہوں۔
 

ابن آدم

محفلین
EwC60q0XMAghV_K
 
Top