یمن کے قضیے کا تازہ ترین رُخ
ہمارے وطنِ عزیز میں کچھ عرصے سے ''تحفظِ حرمین طیبین ‘‘ کے عنوان پر سیمیناروں ، کانفرنسوں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری وساری ہے اور ماشاء اللہ مختلف تنظیموں اور جماعتوں میں مسابقت کی فضا قائم ہے۔ ہمارے کچھ دوستوں نے اپنے تَفَرُّد اورامتیازکو قائم رکھنے کیلئے لاہور میں ''تحفظِ گنبدِ خضریٰ ‘‘ کے نام سے بھی ریلی نکالی ۔ کئی جمعوں کے خطبات اس کارِ خیر کے لیے وقف کرنے کے اعلانات اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کو ناکافی سمجھا جارہا ہے، حالانکہ قرارداد میں واضح طور پرپارلیمنٹ نے سعودی عرب کے دفاع کے لیے اپنی تمام تر خدمات غیرمشروط طور پر پیش کی ہیں اور سعودیہ کے دفاع کو اپنا دفاع قرار دیا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ حلقوں کی بے چینی اور اضطراب کا ازالہ نہیں ہوپارہا، حالانکہ الحمدﷲ! تاحال حرمین طیبین اور سعودی عرب کو دور دور تک کوئی خطرہ دَرپیش نہیں ہے۔
دروغ برگردنِ راوی کراچی کے ایک اخبار نے رپورٹ کیا کہ اتوار 19اپریل 2015ء کو کراچی کے سعودی قونصل خانے میںمنتخب علمائِ کرام اور مفتیانِ عظا م کا ایک خصوصی اجتماع منعقد ہوااور اُس سے سعودی حکومت کے مشیرِ اعلیٰ برائے مذہبی امورجناب ڈاکٹر عبدالعزیز العمّار نے خطاب کیا اور نہایت مدلّل اور متوازن انداز میں سعودی پالیسی کی وضاحت کی۔ لیکن تقریر کے بعد ہڑبونگ مَچ گئی اور علمائِ کرام ومفتیانِ عظام اپنی اپنی درخواستیں ، فائلیں اور حاجات لے کر لائن میں کھڑے ہوگئے ۔ ڈاکٹر عبدالعزیز العمّار خطاب کے بعد جانا چاہتے تھے، لیکن بندگانِ ہوس نے انہیں گھیر لیا اورعالمِ پریشانی میں انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیسے جان چھڑائیں ۔ اس سے واضح ہوا کہ حرمین طیبین اور سعودی عرب کے لیے جو جاں نثاری وجاںسپاری کی ایک نہ ختم ہونے والی مہم جاری تھی، اس کے اصل محرکات کیا ہیں۔ حالانکہ یہ اجتماع سعودی عرب کی غیرمشروط حمایت کے لیے منعقد کیا گیا تھا، اس سے یقینا پاکستان اور علمائِ پاکستان کی بے توقیری ہوئی ، کاش کہ ایسا نہ ہوا ہوتا اور اپنی اغراض اورخواہشات پیش کرنے کا کوئی اور باوقار اور باسلیقہ طریقہ اختیار کیاجاتا۔
لیکن دو روز قبل سعودی عرب نے ایک اور ستم ڈھا دیا اور اِن خدائی خدمت گاروں کی امیدوں پہ پانی پھیر دیا۔ سعودی عرب کی مسلّح افواج کے ترجمان بریگیڈئر جنرل احمد العُصیری نے کہا ہے کہ یمن کی جلاوطن حکومت کے صدر جناب منصور ہادی کی درخواست پر ''آپریشن صحرائی طوفان(Desert Storm)‘‘ختم کردیا گیا ہے ۔ سعودی فوجی ترجمان نے بتایا کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری فضائی آپریشن ختم کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم کے مقاصد حاصل کرلیے گئے ہیں اور حوثی باغی اب سعودی عوام کے لیے مزید خطرہ نہیں رہے۔ اگر چہ انہوں نے ان مقاصد کی وضاحت نہیں کی جو آپریشن صحرائی طوفان شروع کرتے وقت پیشِ نظر تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی فوج یمن میں حوثی قبائل کے مخالف گروہوں کی مدد کرنے پر غور کرے گی اورOperation Restoring Hopeیعنی آپریشن بحالیِ امید کے نام سے ایک نیا آپریشن شروع کیا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے آپریشن کا مقصد یمن کی سلامتی کو یقینی بنانااور بحران کا سیاسی حل نکالنا ہے۔اگر یہ آپریشن کچھ عرصہ مزید یا لمبے عرصے تک چلتا رہتا، تو ہمارے دوستوں کا موج میلہ اور گلشن کا کاروبار بھی چلتا رہتا، میڈیا پربھی رونقیں جاری وساری رہتیں اور سعودی شاہی خاندان سے کچھ احباب کے تعلقات بھی استوار ہوتے، سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی پسندیدہ فہرست میں اضافہ ہوتارہتا، لیکن لگتا ہے کہ سعودی مسلّح افواج کے ترجمان نے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ، اب حرمینِ طیبین کو خطرات لاحق ہونے کی دُہائی کیسے دی جائے گی اور اس کا جواز کس طرح پیش کیا جائے گا، ساتھ ہی اپنی حکومت اور پارلیمنٹ کی نالائقی اور عاقبت نااندیشی پر لَعن طَعن اور مَلامت کا سلسلہ کیسے جاری رکھاجائے گا ، یہ ایک بڑا سوال ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اس آپریشن میں اب تک 940 افراد ہلاک اور 3487زخمی ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایران پہلے ہی جنگ بندی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جذباتی فضا سے نکل کر اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اس کا کوئی پُرامن اور دیر پا حل تلاش کیا جائے۔ ہماری رائے میں پارلیمنٹ کی قرارداد میں اجتماعی دانش کی بہتر عکاسی کی گئی تھی ، کیونکہ تمام تنازعات میں جنگ سے گریز اوّلین ترجیح ہوتی ہے اور جنگ آخری آپشن قرار پاتی ہے، کیونکہ جنگ کے بعد بھی دیرپا امن کے قیام کے لیے ڈائیلاگ کی ٹیبل پر بیٹھنا ہوتا ہے۔ سو اگر کسی بڑی جنگ کے شعلے بھڑکائے بغیرامن حاصل ہوسکے تو یہ اجتماعی دانش کی بہت بڑی فتح ہوتی ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ یمن کی جلاوطن حکومت کے سربراہ سعودی عرب میں ہیں اور اُن کا اپنے ملک میں اقتدار قائم نہیں ہے، ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ جو باغی گروہ یمن میں برسر پیکار ہے، اُس کے مقابل جو عسکری قوت یمن میں موجود ہے، وہ کس کے کنٹرول میں ہے۔
ہمیں صورتِ حال کو اس نظر سے بھی دیکھنا چاہئے کہ آج روئے زمین پر جہاں بھی ظلم ہے ، فساد ہے، تخریب ودہشت گردی ہے، قتل وغارت ہے، آگ اورخون کا الاؤ شعلہ زن ہے، وہ سب مسلمانوں کی سرزمین ہے۔ سب کچھ مسلم ممالک میں ہورہا ہے، گردنیں صرف مسلمانوں کی کٹ رہی ہیں، جانیں اور اَملاک صرف مسلمانوں کی تباہ ہو رہی ہیں، عالَمِ کفرمکمل طور پر سکون اور امان میں ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ سب ظلم وعُدوان اور قتل وغارت مسلمانوں کے اپنے ہاتھوں برپا ہے۔ سو ہمیں اُمّت اور ملّت کے درد اور اَلم کا بھی ادراک ہوناچاہیے، آخر دونوں طرف نقصان ہمارا ہی ہے، کسی اور کا نہیں ہے۔ ہماری نظر میں وقت کا تقاضا یہ ہے کہ غیرسرکاری سطح پر اُمّتِ مسلمہ کے اہلِ فکرو نظر کی ایک ''مجلسِ فکر(Think Tank)‘‘تشکیل دیا جائے، جو مکمل طور پر غیرجانبدار ہو اور وہ اُمّتِ مسلمہ کی باہمی آویزش کے اس گمبھیر مسئلے کا حل تلاش کرے، اُمّت کی وحدت اور ملّت کی سلامتی کے لیے کوئی لائحۂ عمل تجویز کرے اور مسلم حکمرانوں کو خوابِ غفلت سے جگا کر ان کی ذمّے داریوں سے آگاہ کرے۔
اس موقع پر ہم یہ کہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ جن تنظیموں ، جماعتوں اور افراد کو سعودی عرب کی قُربت حاصل ہے ، وہ اپنے اثرورسوخ کو پاکستان کے حق میں استعمال کریں، پاکستانیوں کے لیے بڑے پیمانے پر روزگار اور کاروبار کے مواقع پیدا کریںاور سعودی عرب میں تارکین وطن کے لیے جو کفیل کاادارہ ہے، اُسے مسلّمہ انسانی حقوق کے معیار پر لانے کے لیے وہاں کے حکمرانوں کو آمادہ کریں۔ اِس وقت سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات میں بھارت کے کاروباری مفادات (Stakes)اور اثر ورسوخ پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ، کیا حرمینِ طیبین کی تقدیس اور اُخُوّتِ اسلامی کے جذبے کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ کم ازکم پاکستان سے ہائی پروفیشنلز ، ہنر مندکارکنوں اور عام مزدوروں کو ترجیحی مواقع دئیے جائیں، اس سے پاکستان کی معیشت اور زرِ مبادلہ کے توازن کو سہارا ملے گااور پاکستان خود کفالت کی منزل میں داخل ہوکر اُمّتِ مسلمہ اور مسلم ممالک کی بہتر طور پر خدمت کرسکے گا۔ اسی طرح اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جن پاکستانیوں کا سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے ممالک میں وسیع کاروبار ہے، ان کے سرمائے، اثاثوں اور حقِ ملکیت کا تحفظ کیا جائے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعودی عرب میں مقامی باشندوں کو سرکاری ملازمتوں میں جو مراعات اور حقوق حاصل ہیں، اگراُسی معیار پر پاکستان سے سعودی عرب کی مسلّح افواج کے لیے جوان اور افسران بھرتی کیے جائیں ، تو دفاع کے بارے میں سعودی عرب کی مشکلات کا مستقل حل نکل آئے گا۔
حوثی رہنماحسین البخیتی کا بیان بی بی سی پر نشر ہوا کہ اُن کے نزدیک بھی حرمینِ طیبین کا وہی تقدّس واحترام ہے جو تمام مسلمانوں کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حرمین طیبین پر حملہ تو ہر مسلمان کے لیے ناقابلِ تصور ہے، ہم نے تو سعودی عرب کی طرف ایک گولی بھی نہیں چلائی، نہ کوئی حملہ کیا ہے، ہم پر یکطرفہ فضائی حملے ہورہے ہیں ، جبکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ حوثیوں نے حرمینِ طیبین پر حملے کرنے کے ناپاک عزائم کا اظہار کیا ہے، جس سے پوری اُمّتِ مسلمہ میں اشتعال اور ردِّعمل کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے، یہ بھی مسلّم کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز سمجھا جاتاہے، مگر مذہبی مُقَدّسات کو کسی قطعی ثبوت کے بغیر ان مقاصد کے لیے استعمال کرنا بہرحال درست نہیں ہے، لہٰذا اس دعوے کی صداقت کو پرکھنا بھی ضروری ہے۔
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/mufti-muneeb-ul-rehman/2015-04-25/11028/72328303#tab2
ہمارے وطنِ عزیز میں کچھ عرصے سے ''تحفظِ حرمین طیبین ‘‘ کے عنوان پر سیمیناروں ، کانفرنسوں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری وساری ہے اور ماشاء اللہ مختلف تنظیموں اور جماعتوں میں مسابقت کی فضا قائم ہے۔ ہمارے کچھ دوستوں نے اپنے تَفَرُّد اورامتیازکو قائم رکھنے کیلئے لاہور میں ''تحفظِ گنبدِ خضریٰ ‘‘ کے نام سے بھی ریلی نکالی ۔ کئی جمعوں کے خطبات اس کارِ خیر کے لیے وقف کرنے کے اعلانات اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کو ناکافی سمجھا جارہا ہے، حالانکہ قرارداد میں واضح طور پرپارلیمنٹ نے سعودی عرب کے دفاع کے لیے اپنی تمام تر خدمات غیرمشروط طور پر پیش کی ہیں اور سعودیہ کے دفاع کو اپنا دفاع قرار دیا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ حلقوں کی بے چینی اور اضطراب کا ازالہ نہیں ہوپارہا، حالانکہ الحمدﷲ! تاحال حرمین طیبین اور سعودی عرب کو دور دور تک کوئی خطرہ دَرپیش نہیں ہے۔
دروغ برگردنِ راوی کراچی کے ایک اخبار نے رپورٹ کیا کہ اتوار 19اپریل 2015ء کو کراچی کے سعودی قونصل خانے میںمنتخب علمائِ کرام اور مفتیانِ عظا م کا ایک خصوصی اجتماع منعقد ہوااور اُس سے سعودی حکومت کے مشیرِ اعلیٰ برائے مذہبی امورجناب ڈاکٹر عبدالعزیز العمّار نے خطاب کیا اور نہایت مدلّل اور متوازن انداز میں سعودی پالیسی کی وضاحت کی۔ لیکن تقریر کے بعد ہڑبونگ مَچ گئی اور علمائِ کرام ومفتیانِ عظام اپنی اپنی درخواستیں ، فائلیں اور حاجات لے کر لائن میں کھڑے ہوگئے ۔ ڈاکٹر عبدالعزیز العمّار خطاب کے بعد جانا چاہتے تھے، لیکن بندگانِ ہوس نے انہیں گھیر لیا اورعالمِ پریشانی میں انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیسے جان چھڑائیں ۔ اس سے واضح ہوا کہ حرمین طیبین اور سعودی عرب کے لیے جو جاں نثاری وجاںسپاری کی ایک نہ ختم ہونے والی مہم جاری تھی، اس کے اصل محرکات کیا ہیں۔ حالانکہ یہ اجتماع سعودی عرب کی غیرمشروط حمایت کے لیے منعقد کیا گیا تھا، اس سے یقینا پاکستان اور علمائِ پاکستان کی بے توقیری ہوئی ، کاش کہ ایسا نہ ہوا ہوتا اور اپنی اغراض اورخواہشات پیش کرنے کا کوئی اور باوقار اور باسلیقہ طریقہ اختیار کیاجاتا۔
لیکن دو روز قبل سعودی عرب نے ایک اور ستم ڈھا دیا اور اِن خدائی خدمت گاروں کی امیدوں پہ پانی پھیر دیا۔ سعودی عرب کی مسلّح افواج کے ترجمان بریگیڈئر جنرل احمد العُصیری نے کہا ہے کہ یمن کی جلاوطن حکومت کے صدر جناب منصور ہادی کی درخواست پر ''آپریشن صحرائی طوفان(Desert Storm)‘‘ختم کردیا گیا ہے ۔ سعودی فوجی ترجمان نے بتایا کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری فضائی آپریشن ختم کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم کے مقاصد حاصل کرلیے گئے ہیں اور حوثی باغی اب سعودی عوام کے لیے مزید خطرہ نہیں رہے۔ اگر چہ انہوں نے ان مقاصد کی وضاحت نہیں کی جو آپریشن صحرائی طوفان شروع کرتے وقت پیشِ نظر تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی فوج یمن میں حوثی قبائل کے مخالف گروہوں کی مدد کرنے پر غور کرے گی اورOperation Restoring Hopeیعنی آپریشن بحالیِ امید کے نام سے ایک نیا آپریشن شروع کیا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے آپریشن کا مقصد یمن کی سلامتی کو یقینی بنانااور بحران کا سیاسی حل نکالنا ہے۔اگر یہ آپریشن کچھ عرصہ مزید یا لمبے عرصے تک چلتا رہتا، تو ہمارے دوستوں کا موج میلہ اور گلشن کا کاروبار بھی چلتا رہتا، میڈیا پربھی رونقیں جاری وساری رہتیں اور سعودی شاہی خاندان سے کچھ احباب کے تعلقات بھی استوار ہوتے، سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی پسندیدہ فہرست میں اضافہ ہوتارہتا، لیکن لگتا ہے کہ سعودی مسلّح افواج کے ترجمان نے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ، اب حرمینِ طیبین کو خطرات لاحق ہونے کی دُہائی کیسے دی جائے گی اور اس کا جواز کس طرح پیش کیا جائے گا، ساتھ ہی اپنی حکومت اور پارلیمنٹ کی نالائقی اور عاقبت نااندیشی پر لَعن طَعن اور مَلامت کا سلسلہ کیسے جاری رکھاجائے گا ، یہ ایک بڑا سوال ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اس آپریشن میں اب تک 940 افراد ہلاک اور 3487زخمی ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایران پہلے ہی جنگ بندی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جذباتی فضا سے نکل کر اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اس کا کوئی پُرامن اور دیر پا حل تلاش کیا جائے۔ ہماری رائے میں پارلیمنٹ کی قرارداد میں اجتماعی دانش کی بہتر عکاسی کی گئی تھی ، کیونکہ تمام تنازعات میں جنگ سے گریز اوّلین ترجیح ہوتی ہے اور جنگ آخری آپشن قرار پاتی ہے، کیونکہ جنگ کے بعد بھی دیرپا امن کے قیام کے لیے ڈائیلاگ کی ٹیبل پر بیٹھنا ہوتا ہے۔ سو اگر کسی بڑی جنگ کے شعلے بھڑکائے بغیرامن حاصل ہوسکے تو یہ اجتماعی دانش کی بہت بڑی فتح ہوتی ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ یمن کی جلاوطن حکومت کے سربراہ سعودی عرب میں ہیں اور اُن کا اپنے ملک میں اقتدار قائم نہیں ہے، ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ جو باغی گروہ یمن میں برسر پیکار ہے، اُس کے مقابل جو عسکری قوت یمن میں موجود ہے، وہ کس کے کنٹرول میں ہے۔
ہمیں صورتِ حال کو اس نظر سے بھی دیکھنا چاہئے کہ آج روئے زمین پر جہاں بھی ظلم ہے ، فساد ہے، تخریب ودہشت گردی ہے، قتل وغارت ہے، آگ اورخون کا الاؤ شعلہ زن ہے، وہ سب مسلمانوں کی سرزمین ہے۔ سب کچھ مسلم ممالک میں ہورہا ہے، گردنیں صرف مسلمانوں کی کٹ رہی ہیں، جانیں اور اَملاک صرف مسلمانوں کی تباہ ہو رہی ہیں، عالَمِ کفرمکمل طور پر سکون اور امان میں ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ سب ظلم وعُدوان اور قتل وغارت مسلمانوں کے اپنے ہاتھوں برپا ہے۔ سو ہمیں اُمّت اور ملّت کے درد اور اَلم کا بھی ادراک ہوناچاہیے، آخر دونوں طرف نقصان ہمارا ہی ہے، کسی اور کا نہیں ہے۔ ہماری نظر میں وقت کا تقاضا یہ ہے کہ غیرسرکاری سطح پر اُمّتِ مسلمہ کے اہلِ فکرو نظر کی ایک ''مجلسِ فکر(Think Tank)‘‘تشکیل دیا جائے، جو مکمل طور پر غیرجانبدار ہو اور وہ اُمّتِ مسلمہ کی باہمی آویزش کے اس گمبھیر مسئلے کا حل تلاش کرے، اُمّت کی وحدت اور ملّت کی سلامتی کے لیے کوئی لائحۂ عمل تجویز کرے اور مسلم حکمرانوں کو خوابِ غفلت سے جگا کر ان کی ذمّے داریوں سے آگاہ کرے۔
اس موقع پر ہم یہ کہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ جن تنظیموں ، جماعتوں اور افراد کو سعودی عرب کی قُربت حاصل ہے ، وہ اپنے اثرورسوخ کو پاکستان کے حق میں استعمال کریں، پاکستانیوں کے لیے بڑے پیمانے پر روزگار اور کاروبار کے مواقع پیدا کریںاور سعودی عرب میں تارکین وطن کے لیے جو کفیل کاادارہ ہے، اُسے مسلّمہ انسانی حقوق کے معیار پر لانے کے لیے وہاں کے حکمرانوں کو آمادہ کریں۔ اِس وقت سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات میں بھارت کے کاروباری مفادات (Stakes)اور اثر ورسوخ پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ، کیا حرمینِ طیبین کی تقدیس اور اُخُوّتِ اسلامی کے جذبے کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ کم ازکم پاکستان سے ہائی پروفیشنلز ، ہنر مندکارکنوں اور عام مزدوروں کو ترجیحی مواقع دئیے جائیں، اس سے پاکستان کی معیشت اور زرِ مبادلہ کے توازن کو سہارا ملے گااور پاکستان خود کفالت کی منزل میں داخل ہوکر اُمّتِ مسلمہ اور مسلم ممالک کی بہتر طور پر خدمت کرسکے گا۔ اسی طرح اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جن پاکستانیوں کا سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے ممالک میں وسیع کاروبار ہے، ان کے سرمائے، اثاثوں اور حقِ ملکیت کا تحفظ کیا جائے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعودی عرب میں مقامی باشندوں کو سرکاری ملازمتوں میں جو مراعات اور حقوق حاصل ہیں، اگراُسی معیار پر پاکستان سے سعودی عرب کی مسلّح افواج کے لیے جوان اور افسران بھرتی کیے جائیں ، تو دفاع کے بارے میں سعودی عرب کی مشکلات کا مستقل حل نکل آئے گا۔
حوثی رہنماحسین البخیتی کا بیان بی بی سی پر نشر ہوا کہ اُن کے نزدیک بھی حرمینِ طیبین کا وہی تقدّس واحترام ہے جو تمام مسلمانوں کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حرمین طیبین پر حملہ تو ہر مسلمان کے لیے ناقابلِ تصور ہے، ہم نے تو سعودی عرب کی طرف ایک گولی بھی نہیں چلائی، نہ کوئی حملہ کیا ہے، ہم پر یکطرفہ فضائی حملے ہورہے ہیں ، جبکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ حوثیوں نے حرمینِ طیبین پر حملے کرنے کے ناپاک عزائم کا اظہار کیا ہے، جس سے پوری اُمّتِ مسلمہ میں اشتعال اور ردِّعمل کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے، یہ بھی مسلّم کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز سمجھا جاتاہے، مگر مذہبی مُقَدّسات کو کسی قطعی ثبوت کے بغیر ان مقاصد کے لیے استعمال کرنا بہرحال درست نہیں ہے، لہٰذا اس دعوے کی صداقت کو پرکھنا بھی ضروری ہے۔
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/mufti-muneeb-ul-rehman/2015-04-25/11028/72328303#tab2